کیوں نہ کہوں: آج جیسے دن دیکھنے نہ پڑیں اسی میں سمجھداری ہے ... سید خرم رضا

حکومت اور تنطیموں کو اپنے موقف میں بڑا بدلاؤ لانا ہوگا۔ جس نے بھی بدلے ہوئے حالات کو نہیں سمجھا اورموقف میں تبدیلی نہیں کی اس کو ایسی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے آج پوری دنیا کر رہی ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

سال 2011 میں جب فلم ’کنٹیجن‘ سنیماہال کے پردوں پرنظر آئی تھی تو ناظرین کو یہ فلم دلچسپ نظر آئی تھی اور کہیں نہ کہیں ناظرین کے ذہنوں میں فلم یہ سوال چھوڑ گئی تھی کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں نے اس فلم کو اس وقت دیکھ رکھا تھا ان کے ذہن میں تو پوری فلم دوبارہ اس وقت پھر سے تازہ ہو گئی جب کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا۔ جن لوگوں نے اس وائرس کے پھیلنے کے بعد اس فلم کو دیکھا تو ان کے ذہن میں دو سوال پیدا ہوئے کہ جب آٹھ سال پہلے ایسی فلم میں دکھایا جا چکا ہے تو دنیا کی حکومتوں نے اس پر غور کیوں نہیں کیا اور غور کرکے اس کی روک تھام پر پہلے سے قدم کیوں نہیں اٹھائے۔ ساتھ میں ان لوگوں کے دماغ میں یہ بھی آیا کہ کیا کسی گروہ نے اس فلم کو عملی جامہ تو نہیں پہنایا۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس فلم کے بارے میں اتنا بتانا ضروری ہے کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس جس طرح پھیلا ہے، اس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اور جو خدشات پوری دنیا کے لوگوں کے ذہنوں میں ہیں ان سب کا ذکر اس فلم میں آٹھ سال پہلے ہو چکا ہے۔ 2011 میں بنی اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ہانگ کانگ سے وائرس پھیلا اور مغربی ممالک میں کس طرح اس نے جان لیوا شکل اختیار کرلی۔ اس فلم میں جہاں یہ صاف دکھایا ہے کہ یہ وائرس انسانی پھیپڑوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ختم کر دیتا ہے، وہیں اس بات پر بھی غور کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ یہ وائرس کہیں کسی ملک کا جراثیمی ہتھیار تو نہیں۔ بہرحال پی پی ای کٹ، ماسک سماجی دوری اور تمام پہلو جن سے اس وقت معاشرہ دوچار ہے وہ سب اس فلم میں آٹھ سال پہلے دکھائے جا چکے ہیں۔


یہ ایک واجب سوال ہے کہ جب ایک فلم کی کہانی لکھنے والے کے دماغ میں یہ پہلو آسکتے ہیں تو جو لوگ طبی ماہرین ہیں اور طب سے متعلق ہر طرح کی تحقیق پر کام کر رہے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ کیوں نہیں آیا، اگر آیا تو انہوں نے اس پر کام کیوں نہیں کیا اور اگر کیا تو پھر وہ اس میں ناکام کیوں ثابت ہوئے۔ ان سب پہلوؤں پرغور کرنے کے بعد پھر ان لوگوں کی بات اس وائرس کی طرح بغیر بتائے ذہن میں داخل ہوجاتی ہے کہ کہیں یہ کوئی سازش تو نہیں۔ اب یہ وائرس جس طرح پھیلا ہے اس پرغور کرنے کے بجائے اس بات پرغور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وائرس سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹا کیسے جائے۔

حالات بدل رہے ہیں، بدلتےحالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور بدلتے حالات کو سمجھ کر اس کے حساب سے مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ کورونا وبائی وائرس نے جہاں دنیا کی معیشت اور سماجی زندگی کا کھیل پوری طرح بگاڑ دیا ہے، وہیں کچھ نئے کھیل بھی شروع کردیئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وقت کے ساتھ اس وبا کا جوخوف کم ہوا ہے اس کے بعد بہت ساری چیزیں جو خوف کی وجہ سے بند ہوگئی تھیں، وہ سب کھل جائیں گی۔ وہ دن دور نہیں جب پروازیں باقائدگی کی ساتھ اڑنی شروع ہوجائیں گی، ہوٹل کھلنے شروع ہو جائیں گے، اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی، بازاروں میں رونقیں لوٹ آئیں گی، کھیل کے میدانوں میں شور پھر سے سنائی دینے لگے گا۔ ان سرگرمیوں کے شروع ہونے سے جہاں معیشت پٹری پر لوٹے گی وہیں سماجی زندگی میں بھی پرانے رنگ واپس آئیں گے۔


معاشی طور پر طاقتور افراد یا گروہ جلد نہ صرف واپس پٹری پر آجائیں گے بلکہ بدلے ہوئےحالات کو اپنےحق میں زیادہ بہتر طریقہ سے استعمال کرلیں گے۔ سماج کا کمزور طبقہ وبا سے لڑ لے گا کیونکہ اس کا مدافعتی نظام مضبوط ہے، لیکن اس وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والا معاشی بحران اس طبقہ کے لئے بڑے مسائل پیدا کرے گا۔ بےروزگاری میں اضافہ کو فی الحال کوئی روک نہیں سکتا جس کی وجہ آنے والے دنوں میں خود کشی اور جرائم کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ معاشی بحران بہت سارے نئے مسائل پیدا کرے گا۔

ان بدلتے حالات کو سمجھ کر ان کے حل کے لئے حکومتوں، سماجی اور مذہبی تنظیموں کو بہت سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا، نہیں تو کل ان تحقیق کرنے والوں کی طرح ان سب سوالوں کا جواب دینا ہوگا، جو آٹھ سال پہلے بنی فلم ’کنٹیجن‘ کے بعد کچھ نہ کرنے کے لئے ان تحقیق کرنے والوں سے کیے جا رہے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے معاشی نظام کی تشکیل کے لئے کوشش کی جائے جس میں روزگار کے مواقع زیادہ پیدا ہوں۔ اس تعلق سے حکومت کو تو اپنے نظریہ میں بدلاؤ لانا ہی پڑے گا، ساتھ میں سماجی اور مذہبی تنظیموں کو بھی اپنے اغراض ومقاصد کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا۔ سماج میں اقلیتوں کا شمار کمزور طبقہ میں ہوتا ہے اس لئے ان کی تنطیموں کو اپنے موقف میں بڑا بدلاؤ لانا ہوگا۔ جس نے بھی بدلے ہوئے حالات کو نہیں سمجھا اور سمجھ کر اپنے نظریہ اور موقف میں تبدیلی نہیں کی اس کو ایسی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے آج اس وائرس کے پھیلاؤ سے پوری دنیا پریشان ہے۔ وقت رہتے اگر ہم’ کنٹیجن‘ فلم سے کچھ سبق لے لیتے اور اس جانب تیاری کر لیتے تو آج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔