بات پتہ کی: ایسے ہی کوئی کامیابی نہیں ملتی... سید خرم رضا

ایک پتہ کی بات بتاؤں اقتدار سے باہر رہنے پر احتجاج جتنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری اقتدار میں آنے کے بعد اسے بھولنا، بات پتہ کی یہ ہے کہ ایسے ہی کوئی کامیابی نہیں مل جاتی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

آج جیسا دکھ رہا ہے ویسا ہمیشہ سے نہیں ہے، ارے صاحب ایک زمانہ تھا جب بی جے پی کو بہت جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ عوام میں خود کو زندہ رکھنے کے لئے نہ جانے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے تھے۔ پارٹی میں چونکہ ایک مخصوص طبقہ کا دبدبا تھا اور طبقہ بھی وہ جو ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے، پر اپنی کمائی یا اس کو ہونے والے نقصان سے نہیں۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد خود تو کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں، لیکن اگر ان کا پیسہ گر جائے یا اس میں کمی واقع ہو جائے تو پھر چاہے ان کو خود سمیت کسی کی بھی نیند اڑانی پڑے وہ اس سے ایسے ہی پیچھے نہیں ہٹتے جیسے کوئی بلی چوہے کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

ہاں بات دراصل بی جے پی کی ہو رہی تھی۔ ایک وقت تھا جب بی جے پی کو کم ہی لوگ جانتے تھے۔ پہلے تو یہ جن سنگھ ہوا کرتی تھی اور اس کا انتخابی نشان اس وقت دیپک ہوتا تھا، جب کانگریس کی پہچان گائے اور بچھڑا ہوا کرتی تھی۔ وہ الگ بات ہے کہ آج بی جے پی کا انتخابی نشان کچھ بھی ہو، لیکن گائے سے زیادہ ان کے لئے کوئی چیز پوجنیئے نہیں ہے۔ ہاں تو بات یہ ہو رہی تھی کہ جب بی جے پی کو کوئی نہیں جانتا تھا اس وقت دہلی میں بی جے پی کی تگڑی بہت مشہور تھی۔ ملہوترا، ساہنی اور کھورانہ، اگر ان کا پورا نام لیا جائے تو وجے کمار ملہوترا، کیدار ناتھ ساہنی اور مدن لال کھورانہ۔


اقتدار کے گلیاروں میں چونکہ دبدبا کانگریس کا تھا اس لئے ان تینوں رہنماؤں کے لئے یہ بڑا مسئلہ تھا کہ اس پارٹی کو زندہ بھی رکھنا ہے جس کے ساتھ عوام کی دماغی وابستگی کوئی نہیں تھی، ہاں جذباتی وابستگی ضرور تھی۔ دماغ تو اصل میں بڑی ہوشیاری کرتا ہے نہ، وہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ اقتدار میں کون ہے اور کل کس سے کام کرانا پڑ سکتا ہے۔ ان رہنماؤں کو دو مسئلوں سے لڑنا تھا ایک تو یہ کہ جذباتی وابستگی والے طبقہ کو پیسہ کا نقصان نہ ہو اور دماغی وابستگی کو بڑھانے کے لئے اقتدار سے لوہا لیتے ہوئے نظر آنا۔

اب ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ برسر اقتدار کانگریس کے خلاف دکھائی دیں، لیکن اپنے لوگوں کا کسی طرح کا نقصان نہ ہو۔ اس لئے ان رہنماؤں نے اس کا ایک ایسا راستہ نکالا جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی ٹوٹنے کی بات تو بہت دور، بلکہ لاٹھی کہیں دکھے بھی نہیں۔ انہوں نے حکومت کی ہر پالیسی کے خلاف احتجاج بلند کرنے لئے پیر کے روز بازار بند رکھنے کا انتخاب کیا۔ پیر کے روز کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ پیر کے دن وہ تمام مارکیٹوں میں ہفتہ واری تعطیل ہوتی تھی جہاں بی جے پی سے جذباتی لگاؤ رکھنے والوں کی اکثریت تھی۔ یعنی احتجاج میں بازار بند بھی ہو جائیں اور کسی کا نقصان بھی نہیں ہو اور ایسا انہوں نے بہت خوبصورتی اور چالاکی سے کیا۔


اپنی لاٹھی اور جذباتی وابستگی رکھنے والے لوگوں کو بچاتے ہوئے دماغی وابستگی کو اہمیت دینے والوں میں سیندھ لگاتے ہوئے بی جے پی آج وہاں پہنچ گئی جہاں سب سے پہلے اس کو ان سب چیزوں کو خیر باد کہنا تھا جن کے خلاف وہ احتجاج کرتی آئی تھی۔ ایک پتہ کی بات بتاؤں اقتدار سے باہر رہنے پر احتجاج جتنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری اقتدار میں آنے کے بعد ان چیزوں کو بھولنا، جن کے خلاف احتجاج کرتے ہو۔ بات پتہ کی یہ ہے کہ ایسے ہی کوئی کامیابی نہیں مل جاتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔