اردو صحافت کے 200 سال: جنوبی ہند میں اردو صحافت کا مستقبل درخشاں رہے گا... پروفیسر احتشام احمد خان

اردو زبان کا یہ خاصہ رہا کہ یہ کسی علاقہ تک محدود نہیں رہی بلکہ ملک کے ہر خطہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود ملک کے تمام علاقوں سے اردو اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

پروفیسر احتشام احمد خان

صحافت معلومات کی ترسیل کا ایک ایسا مستند اور باوقار ذریعہ ہے جو عوام کو نہ صرف حالات حاضرہ سے باخبر کرتا بلکہ انہیں روزمرہ کے واقعات کا فہم اور آگہی بھی فراہم کرتا ہے۔ صحافت دور حاضر کے واقعات کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی ترجمانی اور عکاسی بھی کرتا ہے۔ ہندوستان میں صحافت کا باقائدہ آغاز اٹھارویں صدی کے اواخر میں ہوا جب 29 جنوری 1780ء کو کلکتہ جنرل اڈورٹائزر کی اشاعت شروع ہوئی۔ جیمس آگسٹس ہیکی کی ادارت میں شائع ہونے والا یہ ہفتہ وار بنگال گزٹ یا ہکیس گزٹ کے نام سے بھی معروف ہوا۔ صحافت کے ابتدائی دور میں کولکتہ کو مرکزیت حاصل رہی۔ حسن اتفاق سے اردو صحافت کی ابتداء بھی کلکتہ سے ہی ہوئی ہری ہردت نے 'جام جہاں نماء' جاری کیا کا جس کا پہلا شمارہ 27مارچ 1822ء کو منشی سداسکھ کی ادارت میں منظر عام پر آیا۔

کلکتہ سے ہوتے ہوئے ملک کے دیگر علاقوں تک اردو صحافت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور ملک کے تمام خطوں خصوصاً جنوبی ہند سے اردو اخبارات و رسائل کی اشاعت شروع ہونے لگی۔ محققین کا ماننا ہے کہ جنوبی ہند کے میسور شہر کو سب سے پہلا اردو اخبار شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ 'فوجی اخبار' اردو کا پہلا اخبار تھا جو جنوبی ہند کے میسور علاقہ کے حکمراں ٹیپو سلطان نے 1794ء میں جاری کیا تھا۔ جنوبی ہندوستان میں مدراس اور حیدرآباد اردو صحافت کے دو اہم مرکز رہے اس کے علاوہ بنگلورو میسور سے بھی اردو اخبارات اور جرائد کی اشاعت شروع ہوئی۔


شمالی ہندوستان میں سامراجیت کےخلاف سیاسی انقلاب بپا کرنے اور سماجی اصلاحات کا نقیب بننے والی اردو صحافت کی ابتداء جنوبی ہند میں ایک طبی جریدہ 'رسالہ طبابت' سے ہوئی۔ جسے جارج اسمتھ نے 1857ء میں حیدرآباد سے شائع کیا تھا۔ اس طبی جریدہ میں یونانی کے علاوہ مغربی طریقہ علاج سے متعلق مضامین شائع ہوا کرتے تھے جس میں مریضوں کو تشخیص کی جانے والی ادویات،عمل جراحی اور صحتیاب ہو نے والے مریضوں سے متعلق معلومات کے علاوہ طبی تجاویز بھی شائع کی جاتی تھیں۔ جنوب میں مدراس کو سب سے پہلا اردو روزنامہ شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ فضل اللہ کے مطابق سن 1884 میں روزنامہ 'اتحاد ' کی اشاعت ہوئی، ابتداء میں یہ سہ روزہ شائع ہوا کرتا تھا جو 1885ء سے یومیہ شائع ہونے لگا۔ مدراس کے امراء و روساء میں یہ کافی مقبول بھی ہوا۔ آصفجاہی دور میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ ملا۔

والیان دکن کی اردو سے بے پناہ محبت غیر مثالی رہی اور اردو شعر و ادب کی انھوں نے غیر معمولی سرپرستی کی ادب کے ساتھ ساتھ اردو صحافت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اور جنوبی ہند میں حیدرآباد اردو صحافت سب سے اہم مرکز بن گیا۔ حیدرآباد دکن میں اردو اخبارات کے آغاز و ارتقاء کے حوالے سے مختلف باتیں منظر عام پر آئیں۔ قاسم علی سجن لال کے مطابق، آفتابِ دکن پہلا اردو اخبار تھا جو 1860ء میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔ جبکہ انوارالحق جعفری استدلال کرتے ہیں کہ خورشید دکن حیدرآباد کا پہلا اخبار تھا جو سن 1883 میں سلطان محمد دہلوی کی ادارت میں جاری کیا گیا تھا۔ ابتدائی دور سے ہی دکن میں اردو صحافت کو پذیرائی ملنے لگی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں دکن سے کئی اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی۔ 1902 میں 'علم و عمل' بیسویں صدی کا اولین اردو روزنامہ رہا جو حیدرآباد سے شروع کیا گیا تھا جس کے بعد یہ سلسلہ بتدریج بڑھتا ہی گیا اور جنوبی ہند کے دیگر علاقوں کے مقابلے حیدرآباد دکن اردو صحافت میں کافی زرخیز ثابت ہوا ہے۔ 1920ء میں روزنامہ 'رہبر دکن ' کی اشاعت نے جنوب میں اردو صحافت کو شہرہ بخشا جس کے بعد کئی اخبارات شائع ہونے لگے۔


1949ء میں 'رہبر دکن' کا نام بدل کر 'رہنمائے دکن' ہوا جو سید لطیف الدین قادری کی ادارت میں شہرت کی منزلیں طے کرنے لگا۔ ایم این نرسنگ راؤ نے 1928ء میں روزنامہ 'رئیت' نکالا جسے مخالف حکومت سرگرمیوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے اخبار کی اشاعت روک دی گئی۔ 1929 میں عبدالرحمن رئیس نے 'منصور' اور بعد ازاں 'وقف' شائع کیا۔ جسے اس وقت کے ادیبوں کا بھرپور تعاون ملا اور کافی شہرت بھی ملی۔ اسی دوران 1930 میں احمد اللہ قادری نے 'سلطنت ' شائع کرنا شروع کیا جس میں حکومتی فرمان اور حکمراں نظام کے لکھے ہوئے اشعار شائع کئے جاتے تھے۔ قاضی عبدالغفار خان نے 1935ء میں 'پیام ' کی اشاعت شروع کی جس نے ترقی پسند نظریات کی کھل کر حمایت کی اور حیدآباد کے سیاسی اور صحافتی رجحانات پر گہرے نقوش چھوڑے۔

سقوط حیدرآباد کے کچھ ماہ بعد روزنامہ 'سیاست منظر عام پر آیا جس کا آغاز 15 اگست 1949 میں عابد علی خان نے کیا جس نے ہندوستان میں ریاست حیدرآباد کے انضمام کے بعد عوام کو بدلتے سیاسی حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس کے علاوہ روزنامہ ملاپ۔ نوید دکن اور ساز دکن کو بھی شہرت ملی لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی اشاعت کا سلسلہ مسدود ہوگیا۔ 1964 میں بنگلور سے روزنامہ سالار کی اشاعت شروع ہوئی جو آج بھی جاری ہے گرچہ جنوبی ہند میں مدراس اور بنگلور میں اردو صحافت کو کچھ حد تک فروغ ملا لیکن حیدرآباد کی اجاراداری برقرار رہی۔ ستر کی دہائی میں محمود انصاری کے روزنامہ 'منصف' کی اشاعت نے دکن میں اردو صحافت کی ترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔ 1996 ء میں روزنامہ 'منصف' کے مالکانہ حقوق خان لطیف نے حاصل کر لئے اور اس کی رنگین طباعت کا آغاز ہوا جس نے دکن میں اردو صحافت میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی اور اسے مزید چکا چوند بنا دیا۔


1980 کے عشرے کے بعد اردو صحافت میں نئی تبدیلیاں دیکھنے میں آیئں اردو اخبارات جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونے لگے نئے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلس صحافتی منظر نامے پر نظر آنے لگے۔ روزنامہ اعتماد اور سہارا گروپ کے روزنامہ 'راشٹریہ سہارا' دکن میں اردو صحافت کو مزید تقویت بخشی۔ نوے (90) کی دہائی میں روزنامہ سیاست نے اپنا ویب ایڈیشن شروع کیا جو کہ ہندوستان کے کسی بھی اردو اخبارکی جانب سے شروع ہونے والا پہلا آن لائن ایڈیشن تھا۔ معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے ’’حیدرآباد کو اردو کا دارالخلافہ‘‘ کہا ہے۔ ان کے مطابق یہاں کے اخبارات رنگ و روپ اور ضخامت کے لحاظ سے بہت اعلی اور معیاری ہوچکے ہیں اور جو چکاچوند ان اخبارات میں نظر آتی ہے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ملک کے پہلے اردو چینل کی ابتداء بھی جنوبی ہند سے ہوئی جب 15/اگست2001 میں راموجی راؤ نے حیدرآباد میں 'ای ٹی وی اردو' کی بنیاد ڈالی۔ درحقیقت 2006ء تک جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں ہندوستان کی تمام ریاستوں میں سب سے ذیادہ رجسٹرڈ اردو اخبارات تھے جن کی تعداد 506 تھی جن کی اکثریت حیدرآباد سے شائع ہوتی ہے۔


اردو صحافت نے تحریک آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کا اعتراف اردو کے کٹر ناقدین بھی کرتے ہیں۔ اس کے بے باک انداز کی وجہ سے اردو صحافیوں کو نہ صرف قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلنا پڑا بلکہ جام شہادت بھی نوش کرنا پڑا اردو صحافیوں کی حساسیت نے قلم کو جو طاقت بخشی اور اصلاحی پیغامات کے ذریعہ پورے معاشرے کو آگہی اور بیداری کی دولت سے مالا مال کیا وہ بے مثال رہا۔ لیکن دور حاضر کی اردو صحافت روایتی طرز تحریر اور دقیانوسی تصورات کے خول سے باہر نکلنے میں ہنوز ناکام رہی ہے اس کی مشمولات میں جذباتیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے، یہی وجہ قارئین کی گھٹتی تعداد کا سبب بن رہی ہے۔ج نوبی ہند خاص طور پر حیدرآباد اور بنگلور کے اردو اخبارات نے روایات سے ہٹ کر جدید پیرائے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ حیدرآباد کے دو موقر روزنامے سیاست اور منصف نے قارئین کو راغب کرنے کے لئے انگریزی میں آن لائن ایڈیشن شروع کئے اس کے علاوہ اردو اخبار سے منسلک انگریزی ضمیموں کی اشاعت کا آغاز کیا جو لائق تحسین اقدام ہے جو ملک کے دیگر اخبارات کے لیے بھی قابل تقلید ہوسکتا ہے۔

اردو زبان کا یہ خاصہ رہا کہ یہ کسی علاقہ تک محدود نہیں رہی بلکہ ملک کے ہر خطہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود بھی ملک کے شمال و جنوب، مشرق و مغرب تمام علاقوں سے اردو اخبارات و رسائل اور جرائد شائع ہوتے ہیں۔ جنوبی ہند خصوصاً حیدرآباد دکن نے جس طرح اردو زبان اور اردو صحافت کی آبیاری کی ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے نہ صرف جنوبی ہند کے دیگر علاقوں میں اردو صحافت کا مستقبل درخشاں رہے گا بلکہ ملک کے دیگر خطوں کے لئے بھی مشعل راہ کا کام کرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔