اردو صحافت: پرنٹ سے آگے جہاں اور بھی ہے... اعظم شہاب

آج جو لوگ اردو صحافت کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ’خود ہی لکھو اور خود ہی پڑھو‘ انہیں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر جاکر اس صحافت کا مشاہدہ کرلینا چاہئے جو اسکرپٹ سے آگے بڑھ کر اسپیکنگ کے زمرے میں داخل ہوچکی ہے

اردو صحافت
اردو صحافت
user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ قوم کے نبض کی رفتار معلوم کرنے کے لئے صحافت کے مزاج سے واقفیت حاصل کرلینا کافی ہوتا ہے لیکن جب صحافت حکمراں طبقے کے مزاج کے مطابق خود کو ڈھال لے تو یہ اس کی موت کا اعلان ہوتا ہے جس کا مظاہرہ آج ہم سرکاری و درباری میڈیا کی شکل میں بخوبی کر رہے ہیں۔ لیکن اردو صحافت کو اس معاملے میں دیگر زبانوں کی بہ نسبت ممتاز مقام حاصل رہا ہے کہ اس نے کبھی حکمراں طبقے کی باجگذاری قبول نہیں کی اور ہمیشہ حق وسچائی کے علم کو بلند رکھا۔ شاید یہی وجہ ہے اردو صحافت آج دوسوسال بعد بھی صداقت و دیانتداری کے ساتھ اسی طرح محوِ سفر ہے جس طرح اپنے ابتدائی عمر میں تھی۔ اسے نہ کسی کی تعریف و توصیف کی پرواہ ہے اور نہ ہی دارورسن کا کوئی خوف، کیونکہ اس کی سرشت میں ہی قربانی وشہادت کا جذبہ شامل ہے۔ پھر چاہے وہ دہلی کے مولوی محمد باقر ہوں جنہیں توپ کے گولے سے شہید کردیا گیا تھا یا پھر ممبئی کے غلام احمد خان آرزو ہوں جنہیں حق بیانی کے جرم میں پابند سلاسل کردیا گیا تھا۔ صحافت کے بزرگوں کی قربانی وعزیمت کی یہ روایت آج بھی جاری وساری ہے بس فرق صرف یہ ہے کہ پہلے دارورسن تھا اور اب وسائل سے محرومی۔

اردوصحافت کے دوسوسالہ اس پڑاؤ پر اگر ہم موجودہ اردوصحافت کا جائزہ لیں تو یہ بات نہایت ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں تپ کر آج یہ اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں برصغیر میں کوئی دوسری زبان کی صحافت نہیں پہنچ سکی۔ کیا یہ حصولیابی کم ہے کہ ہرطرح کے مالی وسائل سے محروم ہونے اور سرکاری عصبیت کا علانیہ شکار ہونے کے باوجود یہ نہ صرف آج بھی عوام کی نہ صرف سب سے بڑی آواز ہے بلکہ اسے وہ اعتماد بھی حاصل ہے جو حکومت کی ڈھولک بجانے کے باوجود گودی میڈیا کی صحافت کبھی حاصل نہیں کرسکی۔ اس کی ایک خاص وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اردو صحافت کو خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کا جو ہنر آتا ہے اس نے اس کے قدم کو کہیں رکنے نہیں دیا۔ آج جو لوگ اردو صحافت کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ’خود ہی لکھو اور خود ہی پڑھو‘ انہیں ذرا ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر جاکر اس صحافت کا بھی مشاہدہ کرلینا چاہئے جو اسکرپٹ سے آگے بڑھ کر اسپیکنگ کے زمرے میں داخل ہوچکی ہے اور جو ہرکس وناکس تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ رہی ہے اور جو بلا مبالغہ اردو کی ہی صحافت ہے۔


ممبئی سے شائع ہونے والے اردو اخبارات میں سے ایک روزنامہ ہندوستان بھی ہے جو 1936 سے شائع ہوتا ہے۔ اسے رام پور کے رہنے والے غلام احمد خان آرزو نے جاری کیا تھا جو ان کے فرزند سرفرازاحمد خان آرزو آج بھی شائع کرتے ہیں۔غلام احمد خان آرزو کے بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ اردو صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متحرک مجاہد آزادی بھی تھے۔ ایک بار 6 ماہ کے لئے انہیں جیل میں بند کر دیا گیا جہاں رمضان وعید بھی گزر گئی۔ اردو صحافت کے بارے میں ان کے صاحبزادے سرفرازاحمد خان آرزو کہتے ہیں کہ ہمارا مشکل یہ ہے کہ ہم اردو میں شائع ہونے والے اخبارات کو ہی صحافت قرار دیتے ہیں جبکہ اس کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اردو نے خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیا ہے اور اسکرپٹ سے آزاد کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو صحافت ان تک بھی پہنچ رہی ہے یا وہ بھی اردو صحافت کی شیرینی سے فیضیاب ہو رہے ہیں جو اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ اردوصحافت نے اب خود کو ڈیجیٹلائز کرلیا ہے اور اب ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر بھی اسی طرح آب وتاب کے ساتھ موجود ہے جس طرح دیگر زبان کی صحافت۔ سرفراز آرزو کا کہنا ہے کہ چونکہ اردو برصغیر ہندوپاک میں سب سے زیادہ بولی وسمجھی جانے والی زبان ہے اس لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر بھی اردو صحافت سب سے بلند مقام پر ہے۔

ممبئی سے ہی ایک ہفت روزہ نکلا کرتا تھا جس کانام ’بلٹز‘ تھا۔ گوکہ یہ ہفت روزہ اب بند ہوچکا ہے لیکن بلٹز کی یادیں اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ اس کے ایڈیٹر حسن کمال تھے جنہوں نے اس کی اشاعت کو لاکھوں تک پہنچایا تھا۔ اردو صحافت کے بارے میں حسن کمال کا کہنا ہے کہ اس کا ماضی تابناک، حال قدرے دھندلا لیکن مستقبل بے انتہا روشن ہے۔ اردو صحافت کا راجا رام موہن رائے کے دور میں بھی لاثانی تھی اور آج بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو صحافت نے پرنٹ سے آگے بڑھ کر ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو اپنا لیا ہے۔ آج ویڈیو کی شکل میں اردو صحافت جس قدر اپنا جوہر دکھا رہی ہے اس کی بنیاد پر یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ کے صحافیوں کی صحافت اردو کی ہی ہوگی بھلے ہی وہ کسی اور عنوان و ٹائیٹل کے ساتھ اپنی بات رکھیں لیکن وہ کریں گے اردو کی ہی صحافت۔ حسن کمال اس کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہندوستانی فلموں میں مکالمے کی زبان اردو ہے لیکن اسے سرٹیفکٹ ہندی کا دے دیا جاتا ہے۔ ہندی کا سرٹیکفٹ دینے سے زبان تو ہندی نہیں ہوجاتی۔ اسی طرح ڈیجٹیل پلیٹ فارم پر کی جانے والی اسکرپٹ لیس بھلے ہی ہندی کے نام پر ہو لیکن وہ ہے تو اردو ہی، کیونکہ اردو ہی وہ زبان ہے جو آج ہرخاص وعام کی زبان ہے۔ اس کی مثال وہ یوں دیتے ہیں کہ آج یوٹیوب پر اگر ہم اردو ٹائیٹل لکھے ہوئے کسی پاکستانی صحافی کی ویڈیو دیکھتے ہیں تو اس پر بھی مراٹھی یا تمل میں اشتہارات آتے ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ وہ ویڈیو مراٹھی یا تمل زبان کے لوگ بھی دیکھتے ہیں۔


دراصل اردو صحافت کے زوال کا رونا وہی روتے ہیں جنہوں نے صحافت کو صرف پرنٹیڈا خبارات ہی سمجھ لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس میں لچک نہ ہو وہ ٹوٹ جاتا ہے اور اردو صحافت کی اس لچک کے پیشِ نظر اس کے زوال کی بات کرنا حقیت سے انکار ہی ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرنٹ کی بھی اپنی اہمیت ہے لیکن آج جب پوری دنیا ڈیجٹیلائز ہو رہی ہے، یہاں تک پرنٹیڈ نوٹ بھی اب ڈیجیٹل ہوچکے ہیں تو پھر اردو صحافت نے بھی اگر ڈیجیٹل قالب اختیار کرلیا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ سے اردوصحافت کو زوال پذیر کہا جاسکتا ہے؟ اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہونے پر پورے ملک میں جہاں اس بات کا جشن منایا جا رہا ہے کہ اردوصحافت نے اپنی عمر کا دوسوسال مکمل کرلیا ہے وہیں اس بات کا خاص ذکر ہونا چاہئے کہ اردوصحافت نے آج اپنے اندر وہ قوت واستحکام پیدا کرلیا ہے کہ وہ دنیا کی دوسری زبانوں کی صحافت سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرسکتی ہے۔ پتھروں کے دور سے لے کر ڈیجٹیل تک کے اردو صحافت کے اس سفر پر ہم ان تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طور پر اس مقدس تحریک کا حصہ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔