اردو صحافت کے 200 سال: اودھ کی تاریخ میں اردو صحافت کا کردار... نواب علی اختر

ایسٹ انڈیا کمپنی کو اردو سے کوئی عشق نہ تھا، اس نے اردو کی حوصلہ افزائی صرف اس لیے کی کہ اس سے سامراجی مفاد کو تقویت حاصل ہوتی تھی۔

روزنامہ طلسم لکھنؤ کا تراشہ
روزنامہ طلسم لکھنؤ کا تراشہ
user

نواب علی اختر

مختلف زبانوں اور مختلف تہذیب و ثقافت سے لیس ہوکر جنم لینے والی اردو زبان برصغیر کی سب سے خوبصورت اور شیریں زبان ہے۔ شروعاتی دنوں میں اردو ہندوستان کی زبان تھی لیکن جس طرح سے اس کے ساتھ سلوک کیا گیا، وہ صحیح نہیں تھا، مسلم اکابرین نے دشمنان اردو کی غلط نیت کو بھانپ لیا اور انہوں نے اردو زبان کے فروغ کے لیے اسے مسلمانوں کے عقیدے کی کتابوں سے جوڑ دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اردو زبان جاننے والے تمام علوم خصوصاً عقیدہ اسلامی کو وہ اپنی زبان سے ہی حاصل کر لیتے ہیں۔ جنون کی کیفیت کا عالم یہ ہے کہ بعض اردوداں آج اردو کو ایمان کی زبان سے تعبیر کرتے ہیں۔ مبالغہ کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اسلامی علوم کا صد فی صد حصہ اردو زبان میں منتقل ہوچکا ہے۔

روزنامہ طلسم لکھنؤ
روزنامہ طلسم لکھنؤ

مغلیہ عہد میں فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بھی فارسی زبان علمی اور ادبی حلقوں میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس بر عظیم کے وسیع خطوں میں عمل دخل حاصل ہوا تو اس نے اپنے ’استحکام اور دوام‘ کے لیے ثقافت کے پرانے نشان آہستہ آہستہ نیست و نابود کرنے شروع کئے۔ 1830ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کی بجائے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا۔ اس انقلابی قدم سے اگرچہ اردو کو بے حد ترقی ہوئی لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کو اردو سے کوئی عشق نہ تھا، اس نے اردو کی حوصلہ افزائی صرف اس لئے کی کہ اس سے سامراجی مفاد کو تقویت حاصل ہوتی تھی۔


1835ء میں گورنر جنرل ہندوستان سر چارلس مٹکاف نے اخبارات کو مختلف پابندیوں سے آزاد کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیسی زبانوں میں کئی اخبار نکل آئے اور ان زبانوں میں اردو زبان سر فہرست تھی کیونکہ اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی۔ 1837ء میں لیتھو گرافی یعنی پتھر کی سستی چھپائی کا رواج شروع ہوا۔ اس طرح کتابت کے ذریعے بہت سی نقلیں چھاپنے کا ارزاں ذریعہ ہاتھ آگیا۔ خود جرمنی میں یہ فن اٹھارہویں صدی کے خاتمے کے قریب ایجاد ہوا تھا اور ہندوستان میں40 سال کے اندر ہی اردو طباعت میں اس کا رواج عام ہوگیا۔ اردو اور فارسی مکتبوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ہندوستان میں لیتھو گرافی کا پہلا مطبع 1838ء کے قریب دہلی میں قائم ہوا پھر لکھنؤ نے بھی بہت جلد اس کی تقلید کی۔

اودھ کے دارالسلطنت لکھنؤ میں پہلا مکتبہ نواب غازی الدین حیدر کے دور میں 1857 میں ’ٹائپو گرافک پریس‘ کے طور پر ’سلطانی مکتبہ‘ کے نام سے قائم ہوا اوراس مکتبہ سے کچھ مذہبی اور دیگر علوم کی کتابیں چھپ چکی تھیں۔ جن میں ہفت قلزوم (فارسی لغت وقواعد جوکہ 7 جلدوں میں چھپا تھا) اور ایک درباری قبول محمد کے ذریعہ 22-1820 کے دوران جمع کئے گئے نسخوں کے علاوہ تاج اللغات نام سے عربی فارسی لغت بھی چھاپا گیا۔ ثقافتی مکتبہ کو 1830 کے دور میں عروج ہوا جب کانپور میں ہینری آرچر نے لیتھو گرافک پریس قائم کیا۔ بادشاہ نصیر الدین حیدر کے اصرار پر 1831 میں انہوں نے ’المرضیہ‘ نام سے ایک کتاب شائع کی جو کہ ابن الکتب کے نام سے مشہور مفسر قرآن ابوالفضل عبدالرحمان بن ابی بکر بن محمد جلال الدین الخدائری السیوطی تھے، کی مشہور عربی تفسیر تھی۔


واجد علی شاہ کے دور 1849 میں طباعت کو ایک جھٹکا لگا جب انہوں نے شاہی مکتبہ سمیت تمام مکتبوں کو بند کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اسی دور میں محمد حسین اور حاجی مصطفی خان نے اپنے مکتبے لکھنؤ سے کانپور منتقل کر دیئے۔ حالانکہ چند ماہ بعد ان بندشوں میں کچھ نرمی کی گئی اور حکم دیا گیا کہ طباعت کا سارا کام شاہی نگرانی میں ہوگا اور طبع شدہ ہر نسخے پر مکتبہ سلطانی کی مہر ضروری ہوگی۔ اس حکم نامے نے لکھنؤ میں صحافت کی ترقی کی راہیں مسدود کردیں اور1856 کے بعد اودھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ہی صحافت کو فروغ حاصل ہوا۔ اس دوران لکھنؤ کا پہلا اردو اخبار 24 اپریل1847ء کو’لکھنؤ اخبار‘ کے نام سے جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹر لال جی ایسٹ انڈیا کمپنی میں بطور روزنامچہ نویس کام کر رہے تھے۔ سردست اس اخبار کا کوئی شمارہ دستیاب نہیں ہے البتہ تمام خط وکتابت میں اس اخبار کا ذکر پایا جاتا ہے۔

مانا جاتا ہے کہ لکھنؤ کی صحافت کا حقیقی آغاز ’طلسم لکھنؤ‘ سے ہوا تھا جو کہ 25 جولائی 1856ء میں رگھوبیر پرشاد عیاش نے ’جاری کیا۔ ’طلسم لکھنؤ‘ مکتبہ محمدی سے شائع ہوتا تھا اور اس کے مدیر مولوی محمد یعقوب انصاری فرنگی محلی تھے جو مشہور مصنف رجب علی بیگ سرور کے قریبی دوست تھے۔ اس اخبار کا پہلا صفحہ خوبصورتی کے ساتھ سجا ہوتا تھا اور نیچے یہ اشعار درج ہوتے تھے۔

’شکر حق کزنامہ اخبار نو

یافت جان تازہ جسم لکھنؤ‘

گنج گہر ہائے معنی اندرست

جسم بخشا بر طلسم لکھنؤ

26 ستمبر 1856 کو چھپے دسویں شمارے میں یہ اشعار اور شامل ہوگئے۔

’عنوان صحیفہ حمد حق ہے

زیبائش اول ورق ہے

پھر نعت ہی سید البشرکی

جس نے سچی ہمیں خبر دی


یہ اخبار اپنے عہد کی مقامی سیاست، سماجی معیشت اور ثقافتی زندگی کا آئینہ تھا۔ اس نے اودھ پرانگریزوں کے قبضے اور اس کے بعد کے حالات کو حقیقت کے ساتھ بیان کیا۔ اس کا زیر نظر آخری شمارہ 8 مئی 1857 کا ہے۔ اسی دوران 17 نومبر 1856ء کو ’سحر سامری‘ نام سے نئے اخبار کا لکھنؤ سے اجرا ہوا۔ اس کے علاوہ 1856ء میں ہی بینی پرشاد نے ’اعجاز لکھنؤ‘ نام سے اخبارکو لکھنؤ سے شائع کیا۔ ان اخبارات میں لکھنؤ کی طرز فکر تہذیب و تمدن اور اس عہد کی ہو بہو عکاسی ملتی ہے۔ ساتھ ہی سیاسی، معاشی بدحالی و بے انتظامی کا تجزیہ بھی سامنے آتا ہے۔

1857 کے واقعات کے بعد لکھنؤ کی صحافت کو پھر سے ایک جھٹکا لگا اور بعد کے دور میں پبلشر اور پرنٹرس کا ہی وجود باقی رہ سکا۔ اس میں آصفی پریس کے بینی پرساد، علوی پریس کے علی بخش خان، گلشن محمدی پریس کے مصاحب علی، ثمر ہند پریس کے بیج ناتھ شامل تھے۔ 1857 کے دور کے بعد مولوی یعقوب نے ’کارنامہ‘ نام سے ایک نیا اخبار شائع کیا۔ اردو عربی کتابوں کی طباعت میں گراں خدمات انجام دینے والے منشی نول کشور نے 1858 میں لکھنؤ سے اودھ اخبار شروع کیا۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار تھا پھر سہ روزہ ہوا اور 1877 میں روزنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ اپنے وقت کا یہ اردو کا بہت بڑا اخبار تھا۔ ایک زمانے میں یہ اخبار 40 سے 48 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔

اودھ اخبار، لکھنؤ
اودھ اخبار، لکھنؤ

انگریزی اخباروں کو چھوڑ کر یہ پہلا ایسا اخبار تھا جس کے مختلف صوبوں میں نامہ نگار تعینات تھے اور کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی مختلف راجدھانیوں میں حکومت کے نمائندے رہتے تھے یا پھر منشی نول کشور کے نامہ نگار۔ اردو کے بہترین ادیب، شاعر، مضمون نگار مثلاً عبدالحلیم شرر، پنڈت رتن ناتھ سرشار، یاد یگانہ، چنگیزی، شوکت تھانوی وغیرہ اس اخبار سے وابستہ تھے۔ 1887 میں لکھنؤ سے ایک بڑا اخبار’ اودھ پنچ‘ منظر عام پر آیا اور اس اخبار نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے لکھنے والوں میں پنڈت تربھون ناتھ ہجر، منشی جوالا پرشاد برق، اکبر الہ آبادی قابل ذکر صحافی ہیں۔ اس کے بعد اردو صحافت کا ایک کبھی نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

برصغیر میں باقاعدہ صحافت کا آغاز قلمی اخبارات سے ہوا۔ مغلیہ دور میں یہ کام مخصوص لوگ سرانجام دیتے تھے۔ انہی اخبارات کے ذریعے حکمران لوگوں کے حالات سے واقف ہوتے اور اپنے احکامات بھی جاری کرتے تھے۔ وہ انہی اخبارات کو پڑھ کر اندازہ لگاتے تھے کہ کون کون لوگ ملکی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ ہیں اور کون لوگ ہیں جو ملک کے خلا ف سازشیں کرتے ہیں یا سازشوں میں شریک ہیں۔ ایسے افراد کی نشاندہی ہونے پر سخت سزائیں دی جاتیں، غداروں کو معزول کر کے سزائیں دی جاتیں۔ سلاطین دہلی کے دور میں یہ طریقہ کار بہت مستحکم بنیادوں پر نافذ ہوا لیکن مغلوں نے صحیح معنوں میں اس کی پذیرائی کی۔


اردو اخباروں کے متعلق جو منتشر اور محدود مواد اب تک سامنے آیا ہے اس کی روشنی میں محققین کا بیان ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ’جامِ جہا نما‘ کلکتہ تھا، جس کا پہلی بار 1822ء میں اور دوسری بار 1823ء میں اجرا ہوا تھا۔ بیشتر مورخین اور نامور صحافیوں نے بھی ’جام جہاں نما‘ کو ہی اردو کا پہلا اخبار قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس اخبار کا پہلا شمارہ بدھ کے دن 27 مارچ کو شائع ہوا تھا، چند ہفتے کے بعد جب ناشرین نے محسوس کیا کہ اردو اخبار کی مانگ بہت کم ہے تو انہوں نے اسے فارسی زبان میں شائع کرنا شروع کیا۔ جون 1822ء کے اواخر تک ’جام جہاں نما‘ کی زبان فارسی ہوچکی تھی۔ ایک سال بعد ’جام جہاں نما‘ نے پھر اردو کی طرف رجوع کیا، چنانچہ فارسی اخبار کو برقرار رکھتے ہوئے ’جام جہاں نما‘ کا اردو ضمیمہ شائع ہونے لگا۔ اس اردو ضمیمے کے صفحہ اول پر پیشانی کی دونوں جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کی مہر ثبت ہوتی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اخبار کو حکومت کی باقاعدہ سرپرستی حاصل تھی۔ منشی سدا سکھ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور چھاپنے کی ذمہ داری کلکتہ کی ولیم پیٹرس کاپ کنس اینڈ کمپنی کی تھی۔

’جام جہاں نما‘ کے بعد کم و بیش 12 سال تک کسی اردو اخبار کا پتہ نہیں چلتا۔ 1834ء میں بمبئی کے فارسی اخبار ’آئینہ سکندر‘ نے اردو ضمیمہ شائع کرنا شروع کیا۔ اس کے ایڈیٹر فضل حق تھے۔ 1836ء میں شاہ جہان آباد دہلی سے ’دہلی اردو اخبار‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس کے ایڈیٹر شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر تھے جنہیں انگریزوں نے توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا اور صحافتی تاریخ میں زندہ جاوید ہوگئے۔ اس اخبار میں بر عظیم کے گوشہ گوشہ سے خبریں اکٹھی کرکے چھاپی جاتی تھیں۔ مختلف درباروں، ریاستوں اور شہروں سے آنے والے اخبارات کے اقتباس بالالتزام شائع ہوتے تھے۔ یہ اخبار تعلیمی اداروں کی خبریں بطور خاص شائع کرتا تھا۔ اس میں ادبی مضامین کے علاوہ ذوق، غالب اور مومن وغیرہ کی غزلیات بھی چھپتی تھیں۔


ہندوستان میں اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار 1822ء میں ’جام جہاں نما‘ کے نام سے شائع ہوا۔ کہا جا سکتا ہے کہ صحافت کی ابتدا ’جام جہاں نما‘ سے ہوئی لیکن صحیح معنوں میں صحافت کا آغاز 1836 میں مولوی محمد باقر کے ’دہلی اردو اخبار‘سے ہی ہوا۔ اسی دور میں لیتھو سے چھپائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب اردو کو سرکاری زبان کا درجہ ملا تو صحافت کو بہت فروغ ملا۔ روزنامہ صحافت کو بیسویں صدی میں کافی ترقی ملی۔ مولانا ظفر علی خان نے ’زمیندار‘ جاری کیا۔ ’اردو معلّی‘ مولانا حسرت موہانی نے جاری کیا۔ اسی طرح ’الہلال‘، ’کامریڈ‘ اور ’ہمدم‘ نے مسلمانان برصغیر میں سیاسی شعور پیدا کیا اور تحریک آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ صحافت کا یہ سفر آج بھی زور و شور سے جاری ہے اور اس وقت درجنوں بڑے چھوٹے اخبارات صحافتی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔

1945 میں سب سے اہم اردو اخبار ’قومی آواز‘ ہے جو پنڈت جواہر لال نہرو کی سرپرستی اور حیات اللہ انصاری کی ادارت میں لکھنؤ سے جاری ہوا۔ اس اخبار نے اردو میں جدید صحافت کی بنیاد ڈالی اور کئی معیارات قائم کئے۔ اس اخبار کی خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس میں صحافتی اصولوں کے ساتھ ساتھ کتابت، طباعت، سرخی اور تزئین کے ضابطے مقرر کئے گئے۔ چنانچہ بعد کے اخبارات نے تقریباً اسی طرز کو اپنایا اور اسی معیار پر چلنے کی کوشش کی جسے قومی آواز نے قائم کیا تھا۔ آج ہم جب اردو صحافت کی 200 سالہ تاریخ کا جشن منا رہے ہیں تب اردو کے لیے انتہائی ناموافق حالات میں بھی ادب اور تہذیب کے مرکز لکھنؤ میں روزنامہ ’صحافت‘، انقلاب، راشٹریہ سہارا، آگ، اودھ نامہ جیسے متعدد اخبارات اردو کی بقا اور استحکام کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔