اردو صحافت کے 200 سال: بہار میں صحافت کی سرخیل ’اردو صحافت‘... راشد احمد

بہار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کولکاتہ اور دہلی کے بعد اردو صحافت کا ایک بڑا مرکز بنا اس کے علاوہ بہار میں صحافت کا آغاز بھی اردو صحافت سے ہی ہوا۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

راشد احمد

اردو صحافت نے اپنے دو سو سال پورے کر لئے ہیں۔ ملک میں قومی سطح پر انگریزی صحافت کے بعد سب سے زیادہ پرانی تاریخ اردو صحافت کی ہے جو کلکتہ (موجودہ کولکاتا) میں جام جہاں نما کی اشاعت سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ آج جبکہ زبان کو مذہب سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے اردو صحافت کی ابتدا غیر مسلموں کے ہاتھوں ہی ہوئی۔ جام جہاں نما( ہریہر دت اور سدا سکھ لعل) سمیت کئی اہم اخبارات جن میں منشی نول کشور کا اودھ اخبار بھی شامل ہے، غیر مسلموں نے ہی نکالے۔ اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ فارسی نے تو انگریزوں کے دور اقتدار میں ہی دم توڑ دیا تھا اور اردو ہی قومی سطح پر رابطے کی زبان تھی، پڑھا لکھا طبقہ انگریزی کے ساتھ اردو ہی پڑھتا تھا اور اس میں انگریزی کے مقابلے اکثر اردو پر زیادہ عبور رکھتا تھا۔

انگریزی اخباروں کی جنگ آزادی میں شمولیت اور عوامی مسائل میں دلچسپی تقریباً اسی انداز کی تھی جو ابتدائی ایام میں اے او ہیوم کی قائم کردہ کانگریس کی سیاسی ترجیحات تھیں۔ ان کا عوام سے حقیقی تعلق بہت کم تھا لیکن اردو عوام کے درمیان پنپ کر آگے بڑھی تھی اس لئے وہ عوام سے قریب بھی تھی اور مقبول بھی۔ اردو صحافت اور صحافی تحریک آزادی کے سرخیل تھے جس کا ثبوت دہلی اردو اخبار کے مدیر باقر علی تھے جن کی انگریزوں کے خلاف جدو جہد اور پہلی جنگ آزادی میں متحرک شرکت کے نتیجے میں انگریزوں نے1857میں انہیں پھانسی کی سزا سنائی، اس طرح منشی باقر اردو کے نہیں بلکہ ہندوستان کے پہلے صحافی تھے جنہوں نے ملک کی آزادی کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا۔ شاید یہی وجہ ہے انگریز اردو کے دشمن تھے اور چونکہ اردو کے دشمن تھے اس لئے اردو صحافت بھی پوری طاقت سے ان کا نشانہ بنتی تھی۔ 1857 میں انگریزوں کے حکومت پر پوری طرح قابض ہونے کے بعد ان کی انتقامی کارروائی کا سب سے زیادہ نشانہ اردو اخبارات اور اردو کے صحافی ہی بنے۔


بہار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کولکاتہ اور دہلی کے بعد اردو صحافت کا ایک بڑا مرکز بنا اس کے علاوہ بہار میں صحافت کا آغاز بھی اردو صحافت سے ہی ہوا۔ ریاست میں پہلا اردو اخبار ’’نورالانوار‘‘ 1853 میں شائع ہوا۔ انگریزی کا پہلا اخبار اردو اخبار کی اشاعت کے تقریباً 20 سال بعد 1872 میں نظر آتا ہے جب Bihar Herald کی اشاعت شروع ہوئی، اس وقت تک بہار میں تقریباً ایک درجن سے زیادہ اردو اخبارات کا ذکر ملتا ہے۔ ہندی کا پہلا اخبار 1874 میں شائع ہوا جس کا نام ’’بہاربندھو‘‘ تھا۔ (اردو صحافت بہار میں از سید احمد قادری۔ صفحہ82) 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے دوران بہار سے کم از کم چار اردو اخبارات کے نکلنے کی تصدیق ہوتی ہے جن میں ’’نورالانوار‘‘ کے علاوہ ’’پٹنہ ہرکارہ‘‘ (21اپریل 1855 پٹنہ)، ’’ویکلی رپورٹ‘‘ (یکم مئی 1856گیا) اور ’’اخبارِ بہار‘‘ (یکم ستمبر1856پٹنہ) شامل ہیں۔

یہ افسوس کی بات ہے کہ تاریخ دانوں نے بہار میں انگریزوں کی حکومت کے خلاف جو لڑائی لڑی گئی اس کے ذکر میں دیانتداری کا ثبوت نہیں دیا بلکہ اکثر نظر انداز کرنے کی ہی کوشش کی گئی۔ ایسا ہی کچھ اردو اخبارات کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ یہاں یہ اعتراف کرنا غلط نہ ہوگا کہ بہار میں 1857 کی پہلی بغاوت کے وقت جہاں ایک طرف مجاہدین آزادی کا جوش و ولولہ غیر معمولی تھا وہیں جن چار اردو اخباروں کا ذکر کیا گیا ان کا عمومی رویہ انگریز حکومت کی حمایت و حاشیہ برداری کا ہی تھا۔ لیکن 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد انیسویں صدی کے اواخر سے جو اردو اخبارات شائع ہونے شروع ہوئے انہوں نے انگریز حکومت کے تمام تر جبرو استبداد کے باوجود اس کے مظالم کے خلاف قلمی جنگ میں کوئی کوتاہی نہیں برتی اور اس کے خلاف کھلی جنگ کا رویہ اختیار کیا۔ یہاں تک کہ 1910میں جب انگریز حکومت نے پریس کو قابو میں کرنے کا سیاہ قانون لائے تب بھی ملک کے دوسرے خطوں کی طرح بہار کے اردو اخبارات نے بھی لڑائی جاری رکھی۔ جیسا کے سید احمد قادری اپنی تحقیق میں کہتے ہیں۔


’’ان تمام اخبارات و رسائل میں ’اخبار الاخبار، اردو انڈین کرانیکل، اردو ہیرالڈ، الپنچ، بہار اخبار، المبشر، پیغام، اتحاد، پٹنہ اخبار، دیہات، روشنی اور صدائے عام وغیرہ کے صفحات اس بات کے غماز ہیں کہ ان کی تحریروں نے انگریز حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں اور اتنے منظم طریقہ سے صحافتی خدمات انجام دیئے کہ آج ان کے ذکر کے بغیر اردو صحافت کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔‘‘ (اردو صحافت بہار میں: سید احمد قادری، صفحہ117)

اردو اور اردو صحافت کا ایک المیہ یہ بھی تھا کہ آزادی سے قبل یہ انگریزوں کی معتوب تھی کیونکہ اس نے انگریز حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی لڑائی شدت کے ساتھ لڑی تھی لیکن آزادی کے بعد یہ خود اپنے ہی وطن میں معتوب ہوگئی۔ اسے بعینہ حقائق کو نطر انداز کرکے غیر ملکی زبان قرار دینے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں اس زبان اور اس زبان کی صحافت کو خود اپنے ہی ملک میں اپنی بقا و ارتقا کی لڑائی لڑنی پڑی۔ مضمون اس طوالت کی اجازت نہیں دیتا لیکن اردو اخبارات کے شمارے اس بات کے گواہ ہیں کہ آزادی کے بعد ابھرنے والے بڑے مسائل اور چیلنج کا سامنا اردو اخبارات نے اسی جوش اور ذمہ داری سے کیا جس مظاہرہ آزادی کے قبل ہوتا رہا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا جو ماحول تھا اسے خیر سگالی کے ماحول میں تبدیل کرنے اور ملک کی دو بڑی آبادیوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے اور ایک دوسرے سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بہار کے اردو اخبارات نے نمایاں کردار ادا کیا۔


آزادی کے بعد بہار کے تین بڑے خبارات ’’صدائےعام‘‘ (1942) ساتھی (1949) اور سنگم (1953) کے شمارے اس کے گواہ ہیں۔ اردو کو اس کا جائز حق دلانے کی جدو جہد ملک گیر پیمانے پر جاری تھی لیکن اس کے تین اہم مراکز تھے جن میں دہلی، بہار اور یوپی شامل تھا۔ 1960 کی دہائی میں جب دستخطی مہم کا آغاز ہوا اور اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے کی لڑائی نے زور پکڑا تو بہار کے اردو اخبارات نے بھی اس میں بہت ہی با اثر کردار ادا کیا۔ خصوصاً روزنامہ سنگم اور اس کے مدیر غلام سرور نے ریاست کے طول و عرض سے لاکھوں کی تعداد میں اردو کی حمایت میں دستخط اکٹھا کئے اور ٹرک میں بھر کر صدر جمہوریہ ہند کو روانہ کیا گیا۔ اسی جدو جہد کے نتیجے میں کئی ریاستوں بشمول بہار اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔

اسی طرح ایمرجنسی کے خلاف بھی اردو اخبارات نے بڑی لڑائی نہایت ہی حوصلے کے ساتھ لڑی۔ تاہم یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ پورے ملک میں اور خود بہار میں اردو صحافت اپنی زریں تاریخ کے باوجود ہمیشہ ہی نامساعد حالات میں گھری رہی۔ وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کی وجہ سے اسے جو ترقی کرنی چاہئے تھی اس رفتار میں یہ کہیں پیچھے چھوٹ گئی، حالانکہ خاص رو کے ساتھ چلنے کی اس کی جدو جہد کمزور نہیں پڑی اور نہ ہی اس نے کبھی اپنے فرائض منصبی میں کسی کمزوری کا مظاہرہ کیا۔اس کے لئے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے زیادہ خود اردو اور اس کے بہی خواہوں کی طرف انگلیاں زیادہ اٹھتی ہیں، کیونکہ اگر اردو والوں نے اردو صحافت اور اردو اخباروں کو وہ اہمیت دی ہوتی جو دوسری زبان کے لوگ دیتے ہیں تو آج اردو اخبارات کی شکل و صورت کچھ اور ہوتی۔ تاہم یہ اپنے آپ میں ایک طویل موضوع ہے اس لئے یہاں اس کی باریکیوں میں جانے سے گریز ہی بہتر ہے۔ اگر اردو کے ہر گھر میں ایک اردو اخبار آجائے تو آج بھی اردو صحافت صحافتی دیانتداری اور اغراض و مقاصد کی جدو جہد کی سرخیل ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور بہار کے مشہور روزنامہ ’قومی تنظیم‘ سے منسلک ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */