حلال سرٹیفکیشن معاملہ: مولانا محمود مدنی اور جمعیۃ حلال ٹرسٹ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی پر سپریم کورٹ کی روک

جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ کی عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت کی اور اترپردیش حکومت کو واضح ہدایت دیتے ہوئے نوٹس جاری کیا کہ متعلقین کے خلاف کسی بھی طرح کی جبریہ کارروائی نہ کی جائے۔

<div class="paragraphs"><p>حلال سرٹیفائیڈ، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

حلال سرٹیفائیڈ، تصویر سوشل میڈیا

user

پریس ریلیز

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج (25 جنوری) جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ کی حلال سرٹیفکیشن سے متعلق عرضی پر اترپردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عرضی میں حلال مصدقہ مصنوعات کی تیاری، خرید و فروخت، ذخیرہ کرنے اور تقسیم کرنے پر اتر پردیش حکومت کی پابندی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس بی آر گوئی اور سندیپ مہتا کی بنچ نے ایک اہم فیصلے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی اور ٹرسٹ کے دیگر عہدیداروں کے خلاف کسی بھی جبریہ کارروائی پر بھی روک لگا دی ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے، اس لیے ایسی کارروائی سے گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ بنچ نے جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ کی طرف سے دائر کی گئی عرضی پر آئین کی دفعہ 32 کے تحت سماعت کرنے کو بھی منظور دے دی۔

عدالت نے اس سے قبل حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ و دیگر کی طرف سے دائر کردہ عرضیوں پر نوٹس جاری کیا تھا جس میں اتر پردیش حکومت کی طرف سے ’حلال سے تصدیق شدہ مصنوعات کی تیاری، خرید فروخت، ذخیرہ کرنے اور تقسیم‘ پر عائد پابندی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال 18 نومبر کو نافذ ہونے والی اس پابندی نے تنازعہ اور افرا تفری کو جنم دیا اور پولیس نے ریاست بھر میں دکانوں اور مالز پر چھاپے مار کر حلال مصنوعات کو ضبط کیا۔ درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ پابندی شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور سرٹیفیکیشن کے قائم کردہ اصولوں اور جاری عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک غلط فہمی پر مبنی کارروائی ہے جو خوردہ فروشوں کے لیے افراتفری کا باعث بن رہی ہے اور جائز تجارتی طریقوں کو متاثر کررہی ہے۔


اگرچہ ابتدائی طور پر سپریم کورٹ اس پابندی کے خلاف آرٹیکل 32 کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے گریزاں تھا، لیکن بعد میں عرضی گزاروں کے وکلاء نے استدلال کیا کہ اس پابندی کا ملک بھر میں اثر ہو رہا ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے جنوری کے شروع میں عرضیوں پر نوٹس جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور عرضیوں پر اتر پردیش حکومت سے جواب طلب کیا، لیکن عدالت نے حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت کارروائی پر فوری روک لگانے سے انکار کر دیا۔

آج کی سماعت کے دوران جمعیۃ کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے دلیل دی کہ حلال ٹرسٹ تحقیقات کے عمل میں ہر ممکن تعاون کر رہا ہے اور مطلوبہ تمام دستاویزات متعلقہ محکمہ کو دے چکا ہے۔ ریاستی حکومت نے ٹرسٹ کے صدر کو بلا مقصد اور کسی خاص وجہ بتائے بغیر طلب کیا ہے، اور ان سے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر حاضر ہوں جو کہ غیر مناسب رویہ ہے۔ اس پر جواب دیتے ہوئے جسٹس گوئی نے کہا کہ ’’انہیں بتاؤ کہ سپریم کورٹ اس معاملہ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘


ایم آر شمشاد نے جواب دیا کہ ’’ہم نے ان کو بتایا بھی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔ پھر بھی وہ صدر کی حاضری پر مصر ہیں۔ ٹرسٹ کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی صاحب ہیں، وہ عالمی سطح کے اسلامی اسکالر ہیں، نیز وہ سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ ان کی طلبی پر اصرار کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نظر نہیں آتا کہ مولانا مدنی جائیں اور وہاں پہلے سے ٹی وی کیمرہ موجود ہو اور پھر میڈیا ٹرائل چلے۔ بالآخر نوٹس جاری کرنے کے علاوہ، عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ درخواست گزار تنظیم اور اس کے عہدیداروں کے خلاف کوئی جبریہ قدم نہیں اٹھایا جائے۔

قابل ذکر ہے کہ 18 نومبر 2023 کو اتر پردیش حکومت کی فوڈ سیکورٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے حلال سے تصدیق شدہ مصنوعات کی تیاری، فروخت، ذخیرہ کرنے اور تقسیم کرنے پر فوری اثر سے پابندی لگا دی تھی۔ حکومت نے مبینہ طور پر لکھنؤ میں درج شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے فیصلے کو درست بتایا۔ بی جے پی یوتھ ونگ کے ایک نمائندہ نے حلال سرٹیفائیڈ کرنے والی تنظیموں پر مسلمانوں میں فروخت کو بڑھانے کے لیے ’جعلی‘ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ پابندی صرف اتر پردیش کے اندر فروخت، تیاری اور ذخیرہ کرنے پر نافذ ہوئی اور اس کا اطلاق مصنوعات کے ایکسپورٹ پر نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔