یوگی حکومت: جب ہزیمت ایک نشہ بن جائے... اعظم شہاب

ڈاکٹر کفیل معاملے میں عدالتی فیصلے کے بعد ایسی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ یوگی حکومت اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرتی۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یوگی جی نے فیصلے کو چیلنج کرکے اپنی ہزیمت کو دعوت دی۔

یوگی آدتیہ ناتھ، تصویر آئی اے این ایس
یوگی آدتیہ ناتھ، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ لیکن کچھ بھوت ایسے بھی ہوتے ہیں جو لاتوں سے بھی نہیں مانتے۔ اس قبیل کے بھوت بہت ہی گھاگھ قسم کے ہوتے ہیں۔ نہ ان پر باتوں کا اثر ہوتا ہے، نہ طمانچوں کا اور نہ ہی لاتوں کا۔ بلکہ اگر انہیں کوئی لات نہ پڑے تو یہ بے چین سے ہوجاتے ہیں اور ایسی حرکت کرنے لگتے ہیں کہ جو انہیں لات کھانے کے شرف سے نواز دے۔ اس کہاوت کو ایک نشے کے عادی شخص کی کیفیت سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح ایک نشے کا عادی شخص اپنے نشے کو پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح بے عزتی وشرمندگی کو اپنے لیے افتخار سمجھنے والے بھی اپنے لیے راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔

اب ہمارے اترپردیش کے وزیراعلیٰ اجے کمار بشٹ عرف یوگی آدتیہ ناتھ جی کو ہی لے لیجیے۔ وہ مسلسل ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں جس سے عدالتیں انہیں زناٹے دار طمانچے رسید کرتی رہیں۔ لیکن جس طرح ایک جوتے سے کوئی خاص چوٹ نہیں لگتی ہے اور سو جوتے کوئی مارتا نہیں ہے اور پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی جوتے کھانے کا عادی ہوجاتا ہے، بالکل اسی طرح یوگی جی بھی عدالتوں کی پھٹکار کھاتے کھاتے اب اس کے عادی سے ہوگئے ہیں۔ تازہ ترین طمانچہ انہیں سپریم کورٹ سے ملا ہے جہاں انہوں نے ہائی کورٹ سے ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی کو چیلنج کیا تھا۔ یہ وہی ڈاکٹر کفیل خان کا معاملہ ہے جس میں پہلے ہی ہائی کورٹ انہیں طمانچہ رسید کرچکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یوگی جو کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا اور وہ اپنی روش تبدیل کرلیتے، لیکن اگر یوگی جی خاموش بیٹھ جاتے تو پھر وہ یوگی کیسے؟


یہاں یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ محض ایک اتفاقی ہے تو یہ غلط ہوگا۔ کیونکہ اس سے اسی سال اگست میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں جو کچھ کہا تھا، اس پر یوگی حکومت کے پاس ایسی کوئی بنیاد نہیں تھی کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یوگی جی نے سپریم کورٹ میں قصداً اپنی ہزیمت کی دعوت دی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ سوچا ہو کہ سپریم کورٹ تو اپنے گھر کا ہے اور وہا ں سے وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور شاید اسی بنیاد پر مرکزی حکومت نے بھی انہیں اپنا کاندھا فراہم کردیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے نہ صرف یوگی حکومت بلکہ مودی حکومت کو بھی الٹے پیروں بھگا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، مگر رنگ پکڑنے والا خربوزہ یہ بھول جاتا ہے کہ کوئی چھری بھی اس کے انتظار میں ہے۔ سو یوگی جی کے مقدمے کی سماعت کے لیے اپنے سالیسٹیر جنرل کی خدمات فراہم کرنے والی مودی حکومت بھی یوگی جی کی ہزیمت میں حصہ دار بن گئی۔

انا پرستی یوں تو ایک معیوب روش ہے، لیکن اگر اسی انا پرستی میں جہالت کا بھی عنصر شامل ہوجائے تو پھرکریلا نیم چڑھا ہوجاتا ہے۔ بی آر ڈی میڈیکل کالج میں انتظامیہ وحکومت کی لاپراوہی اجاگر ہونے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یوگی حکومت اپنی لاپرواہی سے رجوع کرتے ہوئے سیکڑوں بچوں کی جانیں بچانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹر کفیل کی پذیرائی کرتی، مگر بھگوان کی بھگتی کا ڈھونگ کرتے کرتے خود کو بھگوان سمجھ لینے والے یوگی جی کو یہ ہرگز برداشت نہیں ہوا کہ کوئی ان کی لاپرواہی کو آئینہ دکھائے۔ وہ تو خود کو گھورکھپور کا بے تاج بادشاہ تصور کرتے ہیں؟ ایسے میں بھلا وہ کیسے برداشت کرتے کہ کوئی ان کے ہی شہر میں ان کی لاپرواہی کو اجاگر کرے۔ سو پہلے تو ڈاکٹر کفیل خان کو معطل کیا، پھر گرفتار کیا اور جب پھر بھی جی نہیں بھرا تو ان پر اور ان پر ڈیوٹی کے دوران پرائیویٹ پریکٹس کرنے کا الزام عائد کردیا گیا۔ جبکہ ڈاکٹر کفیل خان کی خدمات کو وہ گودی میڈیا بھی پذیرائی کرنے پر مجبور ہوگئی تھی جو حکومت کے لقمے کو ہوا میں ہی اچک لیتی ہے۔


ڈاکٹرکفیل خان پر لگے الزامات کو انہیں کئی ماہ کی حراست رکھنے کے بعد محکمہ جاتی جانچ کے بعد خارج کر دیا گیا لیکن ان سے معافی طلب کرنا اور انہیں ان کے نقصانات کی بھرپائی دینا تو دور علی گڑھ میں ان کی ایک تقریر کو اشتعال انگیز قراردیتے ہوئے انہیں ممبئی سے گرفتارکرلیا گیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنی تقریر کے ذریعے مذہبی منافرت کو بھڑکا رہے تھے۔ انہیں 29 جنوری کو حراست میں لیا گیا مگر 10فروری کو عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ مگر جب ہزیمت کے نشے کے عادی یوگی حکومت نے بجائے انہیں رہا کرنے کے ان پر قومی سلامتی قانون کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے دوبارہ گرفتار کرلیا تاکہ وہ رہا نہ ہوسکیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے 1985 میں دیئے گئے ایک حکم نامے کے مطابق ضمانت کے فوراً بعد این ایس اے نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت حکومت ملزم کو بغیرکورٹ میں چارج لگائے ایک سال تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔ اب بھلا کفیل خان جیسے سماجی جہد کار کا ان سنگین الزامات سے کیا تعلق؟ لیکن جہاں اتر پردیش کی طرح اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہو وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگرمودی ہے تو ممکن ہے تو یوگی ہو تو کیا ناممکن ہے؟

ڈاکٹر کفیل خان کو جنوری سے ستمبر تک جیل میں رکھا گیا، لیکن ہائی کورٹ نے ڈاکٹرکفیل خان کی نظربندی ’غیرقانونی‘ قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ سرکار نے ان کی جس تقریر میں نفرت یا تشدد کو فروغ دینے کا الزام لگایا تھا اس میں ویسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ اب پھر یوگی جی کے ہزیمت اٹھانے کا نشہ جوش مارنے لگا اور انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ اترپردیش کی حکومت میں اگررتیّ برابر بھی شرم و حیا ہوتی تو وہ ڈاکٹر کفیل کی ملازمت بحال کرتی لیکن اگر ایسا کردیا جاتا تو یوگی جی کا ہزیمت اٹھانے کا نشہ کیونکر پورا ہوتا؟۔ یوگی حکومت نے 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں ایس ایل پی دائر کی جس پر 17 دسمبر کو سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ہائی کورٹ کے فیصلے سے بہتر کوئی اور فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یوگی حکومت کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس طرح کے زناٹے دار طمانچے یوگی جی کے لیے اب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے لے کر لوجہاد کے معاملوں تک، تاج محل کے معاملے سے لے کر ڈاکٹر کفیل تک کے معاملے میں یوگی حکومت پر عدالتوں کے طمانچے پڑتے جا رہے ہیں، مگر یوگی جی کی حکومت ہے کہ ہزیمت اٹھانے کے لیے پھر تیار ہوجاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔