’ہائے جوان! ہائے کسان!‘... اعظم شہاب

بی جے پی اور مودی جی پر اپنے خزانوں کے دہانے کھول دینے والے دھناسیٹھ اب مرکزی حکومت سے اس کی قیمت سود سمیت وصول کر رہے ہیں۔ مودی حکومت کے زرعی قوانین دراصل اسی قیمت کی ایک شکل ہے۔

سنگھو بارڈر پر مظاہرہ کرتے کسان / تصویر آئی اے این ایس
سنگھو بارڈر پر مظاہرہ کرتے کسان / تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

ہمارے پردھان سیوک جی بھی کیا خوب ہیں۔ جو بولنا ہوتا ہے وہ بولتے نہیں اور جو کرنا ہوتا ہے وہ کرتے نہیں۔ اب یہی کسانوں کا ہی معاملہ لے لیجیے۔ فیکّی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا سب سے زیادہ زوور زرعی قوانین کو کسانوں کے لیے فائدہ مند بتانے پر رہا۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی راہ کی تمام مشکلات دور کی جا رہی ہیں اور اس سے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ مگر دہلی کی سرحد پر بیٹھے ہوئے کسان ان کے اس فائدے کو قبول کرنا تو دور ان کی باتوں پر اعتماد تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کسان کہتے ہیں کہ یہ قوانین اڈانی و امبانی جیسے دھنا سیٹھوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں جبکہ پردھان سیوک جی اس پر بضد ہیں کہ یہ کسانوں کے فائدہ کے لیے ہیں۔ پردھان سیوک کہتے ہیں کہ ان قوانین سے کسانوں کی ترقی کے آگے جو دیوار حائل تھی وہ گرجائے گی اور کسان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریں گے، جبکہ کسان کہتے ہیں کہ ہماری ترقی کے آگے جو دیوار حائل ہے اسے رہنے دیا جائے اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرانے والے قوانین واپس لے لیے جائیں۔ پردھان سیویک بضد ہیں کہ نہیں، ہم تو تم لوگوں کو فائدہ پہنچا کر ہی رہیں گے چاہے پورے ملک کے ہی کسان ہمارے خلاف کیوں نہ ہوجائیں یا چاہے ہریانہ کی ہماری حکومت ہی خطرے میں کیوں نہ پڑ جائے۔

عجیب معاملہ ہے کہ پردھان سیوک جی جن قوانین کو کسانوں کے لیے فائدہ مند بتا رہے ہیں، کسان اسے اپنے لیے تباہ کن اور پردھان سیوک کے دوستوں کے لیے فائدہ مند بت ارہے ہیں۔ہ ونا تو یہ چاہیے کہ پردھان سیوک اپنے فائدے کی پوٹلی کو واپس لے لیتے مگر اس کے برخلاف ان کی پوری ٹولی کسانوں کو گمراہ کن اور چین و پاکستان کی سازش کا شکار قرار دے رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ سی اے اے اور این آر سی کے بارے میں بھی سامنے آیا تھا جب دہلی کے رام لیلا میدان میں پردھان سیوک جی کھانسی آجانے تک کا زور لگاکر یہ سب جھوٹ ہے، جھوٹ ہے جھوٹ ہے کا نعرہ لگا رہے تھے، تو دوسری جانب ہمارے کورنالوجی والے بھائی صاحب اس کی پوری وضاحت فرماتے ہوئے یہ اعلان کررہے تھے کہ یہ پورے ملک میں لاگو ہوگا۔ نوٹ بندی و جی ایس ٹی کے موقع کی پردھان سیوک کی تقاریر کا بھی آموختہ دوہرایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے ملک کی ترقی کے لیے اسے ماسٹر اسٹروک قرار دیا تھا۔ مگر پورے ملک نے دیکھا کہ پردھان سیوک کے ان فیصلوں کی وجہ سے ملک کی معیشت ایسی خندق میں گری جس سے آج تک باہر نہیں نکل سکی۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ پورے ملک میں کسانوں کا احتجاج جا ری ہے۔ دہلی کی سرحدوں سخت سردی کو جھیلتے ہوئے کسان کھلے آسمان کے نیچے گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے بیٹھے ہوئے ہیں، ملک بھر سے کسانوں کے احتجاج کی خبریں آرہی ہیں، پردھان سیوک کے سامنے ایسی کونسی مجبوری ہے جو وہ کسانوں کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرپا رہے ہیں؟ کیوں کئی دور کی بات چیت کے بعد بھی یہ معاملہ اسی طرح جوں کا توں برقرار ہے جس طرح پہلے دن تھا؟ تو اس کا جواب دو روز قبل کسانوں کے اس اعلان سے مل جاتا ہے جس میں انہوں نے اڈانی وامبانی کے بائیکاٹ کی بات کہی ہے۔ کسانوں کے اس بائیکاٹ کے اعلان کی خبر کو حسبِ توقع ہمارے قومی میڈیا نے اپنے یہاں جگہ نہیں دی، مگر کسانوں نے اپنے اس اعلان سے مودی حکومت کے پیروں کے نیچے سے زمین ضرور سرکا دی۔

سچائی یہ ہے کہ مودی جی نے گجرات میں رہتے ہوئے اڈانی وامبانی جیسے دھناسیٹھوں کو اتنا کچھ فائدہ پہنچایا کہ انہوں نے موصوف کو پورے ملک کی سربراہی دلانے کے لیے اپنے خزانوں کے دہانے کھول دیئے۔ کہا تو یہ بھی جاتاہے کہ ان دھنا سیٹھوں نے بی جے پی کو 2014 میں مالی مدد ہی اسی لیے کی تھی کہ پردھان سیوک کو وزیراعظم بنایا جائے۔ بہر حال ان اڈانیوں و امبانیوں کو ان کے باپ داداؤں نے تو پیسے دے نہیں دیئے تھے کہ بیٹا یہ لو اور بی جے پی پر لٹا دینا۔ یہ بنیے لوگ ہیں جو اپنی پائی پائی کا حساب لینا اور دینا دونوں جانتے ہیں۔ انہوں نے مودی جی پر اپنے خزانوں کے جو دہانے کھولے تھے، اس کو وہ سود سمیت وصول کر رہے ہیں اور یہ زرعی قوانین انہیں میں سے ایک ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ بھی کہا جائے کہ ان دھناسیٹھوں نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی چندے دیئے ہیں، مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کو اگر دس روپے دیئے تو بی جے پی کو 90 روپئے دیئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے مفاد کا تحفظ کون کرسکتا ہے۔


کسانوں نے مودی جی سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ انہیں فائدہ پہنچانے کے لیے قوانین بنائے جائیں یا اڈانیوں وامبانیوں سے یہ کہا جائے کہ وہ ان کی پیدوار خریدیں۔ مگر مودی جی نے ایسے قوانین بنائے جس کی رو سے صنعتکاروں کے لیے کسانوں کی پیدوار کی ذخیرہ اندوزی کی راہ ہموار ہوجائے اور یہ صنعتکار بازار میں قلت پیدا کرکے اپنی شرطوں پر ان پیدوار کو انہیں کسانوں کو فروخت کرسکیں۔ اب مودی حکومت کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے مالی امداد کرنے والے صنعتکاروں سے کیے ہوئے وعدوں سے پیچھے ہٹ نہیں سکتے۔ دوسری طرف کسان اڑے ہوئے ہیں کہ حکومت اپنے بنائے ہوئے قوانین واپس لے۔ ایسی صورت میں مودی حکومت کے یہ زرعی قوانین سانپ کے منھ میں چھچھوندر ہوگیا ہے جو نہ نگلتے بن رہا ہے اور نہ ہی اگلتے۔

ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک کا نعرہ جے جوان اور جے کسان کا تھا۔ لیکن مودی حکومت کے اس دور میں جوانوں کی جو حالت ہے وہ لداخ میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں کسان کا بیٹا ہمارا فوجی جوان موسم کی مار جھیل کر سرحد کی حفاظت کر رہا ہے اور پردھان سیوک جی لداخ میں دراندازی کرنے والے چین کا نام تک نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری جانب دہلی کی سرحد پر سخت سردی کی مار سہتا ہوا اس فوجی جوان کا باپ کسان ہے جو ملک کو چند دھناسیٹھوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مودی جی کے دور میں جے جوان جے کسان کا نعرہ بدل کر ہائے جوان ہائے کسان ہوگیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Dec 2020, 9:09 PM