جواہر لال نہرو ہوتے تو ’کورونا بحران‘ پر بہتر طریقہ سے قابو پاتے، جانیں کیوں؟

ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنے دور اقتدار میں نہ صرف وبائی امراض پر پوری طرح قابو پایا بلکہ جو بھی کام کیا اس میں سائنسی نظریہ کو نظر انداز نہیں کیا

سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو مشہور سائنسداں نیلس بور کے ساتھ / Getty Images
سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو مشہور سائنسداں نیلس بور کے ساتھ / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

اے گوپنا

ملک میں جاری کورونا بحران اور ناکام قومی قیادت کو خالی نظروں سے دیکھنے کے دوران عوام کو پنڈت جواہر لال نہرو کا دور یاد آتا ہے، جنہوں نے ایک بار کہا تھا، ’’صاف، صفائی، صحت اور کچھ بیماریوں پر قابو پانا سائنس پر منحصر ہے۔‘‘

ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنے دور اقتدار میں نہ صرف وبائی امراض پر پوری طرح قابو پایا بلکہ جو بھی کام کیا اس میں سائنسی نظریہ کو نظر انداز نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی تصنیف ’ڈسکوری آف انڈیا‘ میں لکھا، ’’سچائی تلاش کرنے کے لئے جرأت کا مظاہرہ کرنا سائنسی نظریہ ہے لیکن زندگی گزارنے کا طریقہ اور سوچنے کا عمل بھی یہی ہونا چاہیے۔‘‘


اپنے دور اقتدار کے مشکل سالوں کے دوران ان کی سیاست اور اقدامات انہی سائنسی نظریات کے حامل رہے جنہوں نے ملک کو کھڑا ہونے اور ملیریا، اسمال پوکس، جنسی بیماریوں، جذام، فلیریاسس، ڈفتھیریا، میعادی بخار، کالی کھانسی، نمونیا، گردن توڑ بخار اور ریبیز وغیرہ پر کامیابی کے ساتھ قابو پانے میں مدد کی۔ ان تمام بیماریوں نے اس وقت دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی تھی اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔

ہندوستان کو صحت مند بنانے میں پنڈت نہر کی کامیابی کے پیچھے اس عوامی نظامِ صحت کا اہم کردار تھا جسے انہوں نے متعارف کرایا تھا۔ انہوں نے یہ بھی یقینی بنایا تھا کہ لوگوں کو ادویات کی سہل فراہمی کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے تیار کردہ ویکسین بھی انہیں مفت میں فراہم کی جائے۔


پنڈت نہرو کا دور ایک ایسا دور تھا جب حکومت نے پنج سالہ منصوبہ کے تحت زیادہ سے زیادہ وسائل کا استعمال کیا، نئے میڈیکل کالج قائم کیے۔ ملک میں 1946 میں صرف 15 میڈیکل کالج تھے، جبکہ 1965 میں ان کی تعداد بڑھ کر 81 ہو چکی تھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کے زیر انتظام لیباریٹریز دیسی ساختہ ٹیکے بھی تیار کر رہی تھیں۔

یوں تو انگریزوں کے زمانے میں بھی ہندوستان میں ٹیکے تیار ہوتے تھے، تاہم پنڈت نہرو نے انہیں فروغ دینا جاری رکھا کیونکہ وہ ٹیکہ بنانے میں خود انحصاری پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایسی مزید یونٹس شروع کرائیں۔


لیکن آج ہم بے یار و مددگار نظر آتے ہیں اور کورونا ویکسین کی فراہمی کے لئے غیرملکی اور ہندوستان کی منافع حاصل کرنے والی نجی کمپنیوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ یہ کمپنیاں ہمیں اتنے مہنگے داموں پر کورونا ویکسین فراہم کرتی ہیں کہ اسے ہندوستان کی بیشتر آبادی خریدنے سے قاصر ہے۔ زیادہ تر ٹیکہ تیار کرنے والی سرکاری کمپنیوں کو بند کر دیا گیا، یا پھر انہیں نجی ہاتھوں میں سونپ دیا گیا۔ پنڈت نہرو اگر آج ہمارے درمیان ہوتے تو ملک کو اس طرح اوندھے منہ کبھی نہ گرنے دیتے۔

کیا موجودہ صورت حال میں وہ اس سے بہتر کر سکتے تھے؟ ہاں وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔ سب سے پہلے وہ ایسے سائنسدانوں کی تلاش کرتے جو وبا کی بہتر سمجھ رکھتے ہوتے اور اسے بحران سے نمٹنے والی ٹیم کا سربراہ مقرر کرتے، ایسا ہی کچھ ترقی پذیر ممالک نے کیا بھی ہے۔


اس کے بعد، ملک کی یونیورسٹیوں اور لیباریٹریوں میں علاج کے لئے پرٹوکول، ادویات اور وبا پر قابو پانے کے لئے ویکسین تیار کرنے کے حوالہ سے جنگی پیمانے پر تحقیقی کام انجام دیا جا رہا ہوتا اور وہ یقینی طور پر سینٹرل وسٹا کی تعمیر پر توجہ نہیں دے رہے ہوتے۔ وہ ہمیشہ سائنسی ادارے قائم کرنے کے خواہاں رہتے تھے اور شاید وہ کورونا بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی خصوصی ادارہ قائم بھی کر چکے ہوتے۔

اس کے علاوہ وہ اس ویکسین پروگرام کو بھی کافی پہلے لانچ کر چکے ہوتے، جسے اب شروع کیا جا رہا ہے اور وہ یہ یقینی بناتے کہ اس دوسری لہر سے قبل ملک کے ہر فرد تک ویکسین پہنچا دی جائے، جس نے ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ اس معاملہ میں عملی حکم تیار کرنے کے لئے وہ صرف اور صرف سائنسدانوں سے مشورہ کرتے۔


یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ پنڈت نہرو بطور وزیر اعظم اس مجمع کے تئیں آنکھیں بند کر لیتے یا اس کی پذیرائی کرتے جو کمبھ میلے کے نام پر ہریدوار پہنچا، وہ بھی اس وقت جب کہ وبا اپنے عروج پر تھی۔ وہ ہوتے تو اس سپر اسپریڈر کو ختم کرنے میں اپنی پوری قوت کا استعمال کرتے۔

اس کے علاوہ نہرو کبھی فرقہ پرست طاقتوں کو وبا کے نام پر فرضی خبروں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت ہرگز نہیں دیتے۔ اس مشکل وقت میں وہ خود بھی فرضی خبروں کے خلاف کریک ڈاؤن چلاتے اور مرکزی دھارے کے میڈیا کو بھی یہ ترغیب دیتے کہ وہ ماہرین اور صحافیوں کے خیالات کو سنجیدگی سے لیں۔


کسی بھی صورت میں سوشل میڈیا پر آکسیجن کے لئے مدد مانگنے والا شخص جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ بھیجا گیا ہوتا۔ پنڈت نہرو اگر آج وزیر اعظم ہوتے تو ملک کی کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ ایسی گری ہوئی حرکت کرنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ وہ خود تو خود ضرورت مندوں تک ان کی مشکلات کے ازالہ کے لئے پہنچ جاتے اور غلطی کے لئے معذرت بھی کرتے۔

موجودہ وبا اس حقیقت کو ہمارے سامنے لائی ہے کہ آج بھی وہ ریاستیں جنہوں نے پنڈت نہرو کے نظریات کی بنیاد پر صحت عامہ کے نظام کو تیار کیا ہے وہ کسی حد تک اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہیں۔ نیز، ہمیں یہ بھی احساس ہو رہا ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے سستی صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں سرمایہ کاری کی تھی، جیسا کہ پنڈت نہرو نے خواب دیکھا تھا، وہ بہت پہلے ہی کورونا وائرس کے بحران سے باہر آنے میں کامیاب ہوگئے۔ چین، تائیوان، ویتنام، سنگاپور اور کیوبا جیسے ممالک کو ایسی کامیابی کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔


اس طرح کی کامیابی کی داستانوں پر نظر ڈالیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ پنڈت نہرو کے ہندوستان نے منصوبہ بند طریقہ سے اور انسانی نقطہ نظر کے ذریعے دنیا کو نئے مہلک وائرس سے نمٹنے کا راستہ دکھایا ہے۔ ہاں، وہ انتباہ کے بغیر قوم پر کبھی لاک ڈاؤن مسلط نہیں کرتے۔ ان کا لاک ڈاؤن اچھی طرح سوچ سمجھ کر اس طرح نافذ کیا جاتا کہ لوگ اچانک آسرے اور کھانے سے محروم نہ ہو جاتے۔

جہاں تک دوسری لہر کا تعلق ہے تو ملک اس کا سامنا کرنے کے لئے زیادہ تیار ہوتا اور اس قسم کی تباہ کاریاں نظر نہیں آتیں جو اب ہمارے سامنے ہیں۔ ایسا اس لئے کیونکہ طبی ماہرین نے اس کے آغاز سے قبل پیش گوئی کی تھی اور پنڈت نہرو ہوتے تواسے سنجیدگی سے لیا ہوتا، ناکہ یہ کہا ہوتا کہ ہمارے پاس علاج کے طور پر گائے کا پیشاب، گوبر وغیرہ موجود ہے۔


اس کے باوجود کہ پنڈت نہرو تنقید کرنے والوں کے تئیں روادار تھے وہ کسی ایسے شخص کو کبھی نہیں بخشتے جو میڈیکل سائنس اور اس کے پریکٹیشنرز کے بارے میں بے بنیاد اور غلط باتیں کرتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو کھلے پلیٹ فارم سے للکارتے تاکہ عوام کو ان پر اپنا اعتماد ترک کرنے میں مدد ملتی۔

یقینی طور پر پنڈت نہرو ایسے وقت میں اس وبائی مرض سے کامیابی سے نمٹنے کا ڈھول نہیں پیٹا ہوتا جب حقیقتاً اس وبا سے لوگ متاثر ہو رہے ہوں اور نہ ہی وہ لوگوں سے ایسے وقت میں بالکونی میں کھڑے ہو کر برتن بجانے یا چھت پر موم بتی اور دیئے جلانے کی اپیل کرتے، جس وقت ایمبولنس مریضوں کو لے جا رہی ہو۔


سب سے بڑھ کر پنڈت نہرو ہوتے تو کسی عالمی میڈیا میں ’انڈیا ان کرائسس‘ اور ’ہاؤ مودی فیلڈ اس‘ جیسی مذموم سرخیاں نہیں چلائی جا رہی ہوتیں۔ کیونکہ اس وقت صورتحال مختلف ہوتی اور ہم وزیر اعظم کی قیادت میں اس وبائی مرض کا مقابلہ زیادہ موثر اور سائنسی انداز میں کر رہے ہوتے۔

(مضمون نگار اے گوپنا، جواہر لال نہرو- این السٹریٹڈ بائیوگرافی کے مصنف ہیں اور تمل ناڈو کانگریس کمیٹی کے میڈیا شعبہ کے نائب صدر بھی ہیں)

یہ مضمون نگار کے نجی خیالات ہیں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔