ندائے حق: روس-چین دوستی کیوں ہے تناؤ کا شکار؟... اسد مرزا

’’یوکرین اور تائیوان میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات نے ایک مرتبہ پھر روس اور چین کے تعلقات کو پرکھے جانے کا موقع دیا ہے۔‘‘

روس-چین، تصویر آئی اے این ایس
روس-چین، تصویر آئی اے این ایس
user

اسد مرزا

دو پرانے اتحادی جو کہ اس وقت نظریاتی طور پر مختلف ہیں لیکن بنیادی طور پر ایک ہی سیاسی نظریے کے ماننے والے ہیں اور ماضی میں کئی بحرانوں کا سامنا ایک دوسرے کی شراکت داری کے ساتھ کر چکے ہیں۔ انھیں اس وقت علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے نئے سیاسی اور جنگی مسائل کا سامنا ہے۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک عوامی طور پر ایک دوسرے کی حمایت کرنے سے انکار کرتا ہے، پھر بھی کوئی بھی ان خفیہ معاہدوں کو بھلا نہیں سکتا ہے جو ان کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں روس اورچین کے تعلقات کی جو کہ اس وقت آزمائش کا شکار ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے، روس اور چین کے درمیان ایک نئے پل کا 10 جون کو مشرق بعید میں افتتاح کیا گیا تاکہ روایتی کمیونسٹ دوستوں کے درمیان دو طرفہ تجارت کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ روس کے مشرق بعید میں کریملن کے نمائندے یوری ٹرٹنیف نے اس پل کو آج کی منقسم دنیا میں ایک خاص علامتی معنی کے طور پر بیان کیا۔ جبکہ روس کے وزیر ٹرانسپورٹ ویتالی سیویلیو نے کہا کہ یہ پل دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ سالانہ تجارت کو 10 لاکھ ٹن سے زیادہ سامان تک بڑھانے میں مدد دے گا۔ روسی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ پل تجارت کو وسعت دے کر ماسکو اور بیجنگ کو ایک دوسرے کے قریب لائے گا۔ چین کے نائب وزیر اعظم ہو چنہوا نے بھی اس پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ تمام شعبوں میں روس کے ساتھ عملی تعاون کو گہرا کرنے کا خواہاں ہے۔ روس نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ اسے توقع ہے کہ چین کے ساتھ اجناس کا کاروبار بڑھے گا، اور بیجنگ کے ساتھ تجارت 2024 تک $200 بلین تک پہنچ جائے گی۔ چین روسی قدرتی وسائل اور زرعی مصنوعات کا بھی بڑا خریدار ہے۔


یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آرہی ہے جب بیجنگ کی جانب سے یوکرین میں ماسکو کی فوجی کارروائیوں کی مذمت کرنے سے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ روس کے خلاف امریکی زیرقیادت پابندیوں اور تائیوان کے خلاف متکبرانہ برتاؤ کرنے سے انکار پر چین کو مغربی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

چین-امریکہ تعلقات

ایسا گمان ہوتا ہے کہ چین- امریکہ تعلقات مزید کشیدگی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ 10؍ جون کو، چین اور امریکہ کے وزرائے دفاع نے تائیوان کے معاملے پر ایک دوسرے سے بہت جارحانہ انداز میں ملاقات کی۔سنگاپور میں شنگری لا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے زور دے کر کہا کہ واشنگٹن چین کے ساتھ کشیدگی پر قابو پانے اور تنازعات کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو ان کا ملک عسکری طور پر ملوث ہو جائے گا، حالانکہ ان کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس معاملے پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اپنی طرف سے چینی وزیر دفاع فین گھے نے آسٹن کو متنبہ کیا کہ اگر تائیوان نے آزادی کا اعلان کیا تو بیجنگ ''جنگ شروع کرنے سے نہیں ہچکچائے گا''۔ چینی وزیر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بیجنگ ''تائیوان کی آزادی کی کسی بھی سازش کو خاک میں ملا دے گا اور مادرِ وطن کے اتحاد کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا''، اور ’’اس بات پر زور دیا کہ تائیوان چین کا حصہ ہے... تائیوان کو چین پر قابو پانے کے لیے امریکہ کبھی استعمال کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔‘‘


روس-چین تعلقات

یہ نیا پل چین اور روس کے درمیان تعلقات کی بڑھتی ہوئی مضبوطی کی نشاندہی کرتا ہے، حالانکہ دونوں طرف سے کچھ تحفظات بھی موجود ہیں۔ ابھی تک، چین نے یوکرین میں پوٹن کے 'خصوصی فوجی آپریشن' کی حمایت کا کوئی عوامی اظہار نہیں کیا ہے۔ بعد ازاں ژی نے خود کہا کہ چین 'تمام ممالک کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کے لیے پرعزم ہے'۔ یعنی کہ ایک طریقے سے یوکرین کی سالمیت کو بھی ماننے سے انکار نہیں کرتا۔ اگرچہ روس نے چین سے فوجی امداد کی درخواست کی ہے لیکن کم از کم عوامی سطح پر ابھی تک کوئی بھی چینی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔

نہ ہی ایسا لگتا ہے کہ چین مغرب کے ساتھ تجارتی جنگوں میں ملوث ہونے کا خطرہ مول لینا چاہتا ہے۔ چینی کمپنیاں، خاص طور پر جو امریکہ میں قائم ہیں، امریکی پابندیوں کو توڑنے کے بارے میں اتنی ہی محتاط نظر آتی ہیں۔ یوکرین میں پوٹن کی جنگ نے چین -روس شراکت داری کی لچک اور حدود کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ''خود مختاری کا قوس'' ہونے سے دور، اسے حکمت عملی کے لحاظ سے خود مختار طاقتوں کے درمیان مفادات پر مبنی تعلقات کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز آنے والا وقت اور دونوں کے ردِ عمل سے اس کا تجزیہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔


Xi Jinping نے ایک ''غیر جانبدارانہ'' راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے، جو روس کے ساتھ شراکت داری کو بھی برقرار رکھے اور ساتھ ہی چین کے عالمی مفادات کا بھی تحفظ کرے۔ دونوں فریق اس شراکت داری کو ناکام نہ ہونے کے لیے اور زیادہ قریب آسکتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ، اس شراکت داری کی اہمیت اور خصوصیت میں کمی آ سکتی ہے۔ کیونکہ دونوں ملک مختلف عالمی عزائم کا خاکہ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

چین اور روس کے درمیان خارجہ پالیسی میں ہم آہنگی عالمی نظام کے بارے میں ان کے مختلف نظریات کی وجہ سے محدود ہے۔ بیجنگ ایک مستحکم بین الاقوامی نظام چاہتا ہے، جو اس کے حق میں متزلزل ہو، جب کہ ماسکو بد نظمی اور غیر یقینی صورتحال کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ شی جن پنگ کا مقصد مغرب کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے چین اور روس کی شراکت داری کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ لیکن یوکرین جنگ جاری رہنے کے ساتھ ہی بیجنگ کا توازن برقرار رکھنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔


چین کے علاقائی عزائم

دریں اثنا، روس-یوکرین تنازعہ کے نتیجے میں وسطی ایشیا چین کے لیے تزویراتی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے، جس نے چین اور یورپی یونین کے درمیان براہ راست سپلائی چین کے راستوں کو ہموار کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے روس اپنے قریبی پڑوس میں یوکرین اور دیگر سابق سوویت جمہوریہ کو دیکھتا ہے۔

چین نے C+C5 (پانچ وسطی ایشیائی ریاستیں اور چین) اتحاد میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ تجارتی پہلو کے تئیں یوریشین اکنامک یونین (EAEU) بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کا EAEU کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ ہے، لیکن اس نے ابھی تک ٹیرف یا محصولات میں کمی پر اتفاق نہیں کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو، علاقائی طور پر چین اور وسطی ایشیائی ممالک میں باہمی و کثیر ملکی تجارت میں نمایاں مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں چین کی اس علاقائی پیش رفت نے اسے سب سے زیادہ مشکل افغانستان میں پیش آرہی ہے۔ چونکہ وسطی ایشیائی ممالک تک سڑک کے راستے مال بھیجنے کے لیے اسے افغانستان اور ساتھ ہی پاکستان میں اپنے BRI Initiative کو کامیاب بنا سکتا ہے۔


اس طرح، اگرچہ وقتی طور پر چین روس کی حمایت جاری رکھے گا، اور ہو سکتا ہے کہ مشترکہ نظریاتی بنیادیں اس کو روس کی عسکری حمایت ترک نہ کرنے دیں، لیکن اقتصادی عوامل اسے بعض معاملات میں روسی مفادات کو نظر انداز کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی عالمی طاقت کو مزید مستحکم کر نا چاہتا ہے جس میں وسطی ایشیائی خطے کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اس کے اقتصادی اہداف زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔تو اس کا شکار نظریاتی شراکت داری ہوسکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔