کیا یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی نہیں ہے؟... سہیل انجم

یہ حکومت 42 سال قبل 21 ماہ کے لیے نافذ ایمرجنسی کو سیاسی طور پر کیش کراتی آئی ہے لیکن اس حکومت میں جو غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتی۔

یوتھ کانگریس کا احتجاج / قومی آواز / وپن
یوتھ کانگریس کا احتجاج / قومی آواز / وپن
user

سہیل انجم

جب بھی جون کی 25 تاریخ آتی ہے تو بی جے پی رہنماؤں کے حواس پر ایمرجنسی کا بھوت سوار ہو جاتا ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی حکومت کی جانب سے 1975 میں ایمرجنسی کے نفاذ کا رونا رونے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جب کانگریس پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو ایک تیر ایمرجنسی کے نام کا بھی ہوتا ہے۔ اندرا گاندھی نے ملک میں 21 ماہ تک ایمرجنسی نافذ کر رکھی تھی لیکن 21 ماہ کون کہے، 21 سال بھی نہیں، اس کے ڈبل 42 سال بھی نہیں بلکہ اس میں بھی تین سال جوڑ دیجیے یعنی 45 سال سے بی جے پی والے اٹھتے بیٹھتے ایمرجنسی کا راگ الاپتے اور اس کی آڑ میں کانگریس کو پانی پی پی کر برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔

بی جے پی کے رہنما خود کو ایسے پوز کرتے ہیں کہ وہ ایمرجنسی کے سخت خلاف ہیں اور ملک میں ہر قسم کی آزادی کے بہت بڑے پرستار اور وکیل ہیں۔ حالانکہ اندرا گاندھی نے 25 جون 1975 کو جو ایمرجنسی لگائی تھی وہ 21 مارچ 1977 کو ختم ہو گئی تھی لیکن بی جے پی رہنماؤں کے دل و دماغ سے وہ اب بھی ختم نہیں ہو سکی ہے۔ تقریباً نصف صدی کا عرصہ بیتنے کو ہے اور کسی بھی بات کو بھلانے کے لیے یہ عرصہ کم نہیں۔ لیکن انھوں نے ایمرجنسی کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی بنا رکھا ہے اور وقتاً فوقتاً وہ اس سے انڈا دلواتے رہتے ہیں۔


وہ لوگ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ کسی کی آزادی چھیننے کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہر قسم کی آزادی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ بظاہر کسی بھی آئینی ادارے کی آزادی برقرار نہیں ہے۔ سب کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے میڈیا کی بات کرتے ہیں۔ حکومت کے لوگ اکثر کہتے ہیں کہ وہ میڈیا یا پریس کی آزادی کے حامی ہیں۔ لیکن کیا واقعی میڈیا کو آزادی حاصل ہے۔ کیا وہ اپنی مرضی سے اپنی پالیسی بنا پاتے ہیں۔ کیا ان کو روزانہ یہ ہدایت نہیں ملتی کہ انھیں فلاں ایشو اٹھانا ہے فلاں نہیں۔ فلاں پر ڈبیٹ کرنی ہے فلاں پر نہیں۔ سوال اپوزیشن سے پوچھنا ہے حکومت سے نہیں۔ اگر کوئی حکومت کی ان ہدایات کو نظرانداز کرتا ہے اور حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا تو پھر اس کا کیا حشر ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ادھر الیکشن کمیشن ہو یا مرکزی ایجنسیاں، ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ آزادی سے اپنا کام کرنے کے بجائے وہی کر رہی ہیں جو حکومت چاہتی ہے۔ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کو جس طرح نیشنل ہیرالڈ معاملے میں ای ڈی کی جانب سے پوچھ تاچھ کے نام پر پریشان کیا جا رہا ہے اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ پورا معاملہ سیاسی ہے نہ کہ مالی بد عنوانی کا۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر سی بی آئی یا ای ڈی کی جانب سے کسی سے سوال جواب ہوتا ہے تو دو ایک روز میں ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن راہل گاندھی سے سوال جواب کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اب کانگریس صدر سونیا گاندھی سے بھی پوچھ تاچھ ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنے دن چلتی ہے۔


اس حکومت نے اپوزیشن کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کوئی بھی اپوزیشن لیڈر حکومت کے خلاف کچھ بولنے کی جرأت کرتا ہے تو اس کے پیچھے مرکزی ایجنسیاں لگا دی جاتی ہیں۔ جب بھی کہیں الیکشن کا موقع آتا ہے تو اپوزیشن لیڈروں اور ان کے اعزا کے گھروں پر چھاپے پڑنے لگتے ہیں۔ اس وقت تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں نے مالی بدعنوانی کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور بی جے پی کے لوگ بڑے ہی معصوم اور ایماندار ہیں۔ غیر انتخابی موسم میں بھی اپوزیشن کو ڈرانے کی کوشش ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کے کسی وزیر کا کوئی بیان آجاتا ہے تو وہ انتظامیہ کے لیے ایک اشارہ بن جاتا ہے۔

یہ حکومت احتجاج کرنے کے جمہوری حق کو بھی چھین لینا چاہتی ہے۔ سی اے اے کے خلاف جن لوگوں نے احتجاج کیا تھا ان میں سے متعدد افراد کو کسی نہ کسی بہانے سے جیلوں میں بند کر رکھا گیا ہے۔ ان پر ایسی خطرناک دفعات کے تحت الزامات عاید کر رکھے ہیں کہ ضمانتیں نہیں ہو رہی ہیں۔ وہ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ابھی بی جے پی لیڈر نپور شرما کے ہتک آمیز بیان کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان کے مکانات منہدم کر دیئے گئے۔ با وثوق ذرائع کے مطابق الہ آباد میں جن مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنھوں نے سی اے اے مخالف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ اسی لسٹ سے مسلمانوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔ فوج میں بھرتی کی حکومت کی قلیل مدتی اسکیم کے خلاف عوام بالخصوص نوجوان سڑکوں پر اترے تو ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ ای ڈی نے یوپی حکومت سے ان لوگوں کے بارے میں تفصیلات طلب کی ہیں جنھوں نے نپور شرما اور اگنی پتھ اسکیم کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ان کے خلاف ”پریونشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ“، پی ایم ایل اے، کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔


ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو جمہوری حقوق کے خلاف ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں اپنے حق کے لیے اور انصاف کے لیے اور ناانصافی کے خلاف ہر شخص کو آواز اٹھانے کا حق ہے، احتجاج کرنے کا حق ہے۔ البتہ وہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے اس میں کوئی تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اب تو اس ملک میں یہ ہو رہا ہے کہ جس نے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی اسے اٹھا لیا جاتا ہے۔

یہ حکومت 42 سال قبل 21 ماہ کے لیے نافذ ایمرجنسی کو سیاسی طور پر کیش کراتی آئی ہے لیکن اس حکومت میں جو غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور مبصروں کا بار بار یہی کہنا ہے کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ لیکن حکومت اسے ایمرجنسی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں 2014 کے بعد سے مسلسل ایسے حالات پیدا کیے جاتے رہے ہیں جو شہریوں کے حقوق کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ کیا حکومت یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی ختم کرنے کے حق میں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */