مہاراشٹر: کیا یہ خبر صحیح ہے؟ فی کس 50 کروڑ، ای ڈی اور آپریشن لوٹس… اعظم شہاب

آپریشن لوٹس کے تحت مہاراشٹر میں جتنے لوگوں نے ایکناتھ شندے کے ساتھ بغاوت کی ہے ان میں سے 16 کے اوپر ای ڈی کی کارروائی چل رہی تھی جبکہ فی کس 50 کروڑ دیئے جانے کی بھی خبر ہے۔

شیو سینا کے باغی لیڈر ایکناتھ شندے / یو این آئی
شیو سینا کے باغی لیڈر ایکناتھ شندے / یو این آئی
user

اعظم شہاب

ایک خوبرو دوشیزہ اپنے آشنا کے ساتھ گھرسے فرار ہوگئی۔ والدین نے اسے سمجھا بجھا کر واپس لانے اور اس کی مرضی کے مطابق شادی کر دینے کا وعدہ کیا لیکن اس نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔ لوگوں نے اس دوشیزہ سے پوچھا کہ آخر اب تمہیں واپس جانے میں کیا قباحت ہے جبکہ تمہارے والدین تمہاری مرضی کے مطابق تمہارے آشنا سے شادی کرنے کے لیے آمادہ ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ آپ لوگ میرے والدین کو نہیں جانتے، واپس جانے کے بعد وہ نہ صرف میرے تمام زیورات اتروالیں گے بلکہ میری شامت بھی آجائے گی۔ اس لیے میں اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گی جب تک کہ میری گود نہ بھر جائے۔

مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے شیوسینا کے دوتہائی سے زائد ایم ایل ایز کے ساتھ بغاوت کرکے پہلے گجرات کے سورت اور پھر آسام کے گوہاٹی میں جا بسے۔ پارٹی سربراہ ادھو ٹھاکرے نے ان سے کہا کہ وہ واپس آجائیں، بات چیت کریں، ہم ان کے مطالبات کے مطابق عمل کرنے کے لیے تیار ہیں اور اگر وہ کہیں تو ہم مہاوکاس اگھاڑی سے رشتہ بھی توڑ لیں گے، لیکن شندے ہیں کہ واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ واپس آنے کی صورت میں وہ نہ صرف اپنے نصف سے زائد حمایتی ایم ایل ایز سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ شیوسینک ان کی جو درگت بنائیں گے اس کی شکایت بھی وہ کسی سے نہیں کر پائیں گے۔ اس لیے وہ سیلاب میں ڈوب رہے آسام سے قدم نکالنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں اور وہیں سے ہی حکومت سازی میں بی جے پی کی مدد کرنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔


مہاراشٹر کے سیاسی مہابھارت کے اب تک تھمنے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ایکناتھ شندے حکومت سازی کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کرتے ہوئے بی جے پی کو حمایت دینے کا عندیہ بھی ظاہر کر دیا ہے۔ دو روز قبل بھی انہوں نے اپنی بغاوت کے پیچھے ایک قومی پارٹی کا ہاتھ ہونے کا اعتراف کیا تھا، لیکن ریاستی بی جے پی کے صدر چندرکانت پاٹل اور فڈنویس نے اس کی تردید کردی تھی اور کہا تھا کہ اس بغاوت کے پیچھے بی جے پی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر پاٹل و فڈنویس یہ تردید نہیں کرتے تومبادا یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ شیوسینا کی بغاوت فطری ہے لیکن اپنی تردید سے انہوں نے اس پر مہر لگادی کہ یہ سب کچھ اسی طرح آپریشن لوٹس کے تحت ہوا ہے جس طرح اس سے قبل کرناٹک ومدھیہ پردیش میں ہوا ہے۔

اسی آپریشن لوٹس کے تحت خبر یہ ہے اور سوال أوچھے جا رہے ہیں کہ ایکناتھ شندے کے دھڑے میں شامل ہونے کے لیے ممبرانِ اسمبلی کو فی کس 50 کروڑ روپئے دیئے گئے ہیں؟ اورنگ آباد کے کنڑ اسمبلی حلقے کے شیوسینا کے ممبراسمبلی اودئے سنگھ راجپوت نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں شیوسینا سے بغاوت کرنے کے لیے 50 کروڑ روپئے کا آفر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے دوگاڑیاں بھر کر پیسے آنے کا فوٹیج بھی اپنے پاس ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں 100؍کروڑ بھی دیا جائے تو بھی وہ پارٹی سے غداری نہیں کریں گے۔ جبکہ اس سے قبل ودربھ کے ایک اخبار ’ودربھ چنڈیکا‘ نے اس تعلق سے خبر شائع کی تھی کہ ایک ایک باغی ممبراسمبلی کو 50 کروڑ روپئے دیئے گئے ہیں اور اس پورے آپریشن پر 3 ہزار کروڑ روپئے خرچ کیے جا رہے ہیں۔


شندے اور بی جے پی کے لیے مصیبت یہ ہے کہ مہاراشٹر کی سیاست کے بھیشم پتامہ شردپوار مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو بچانے کے لیے کمر بستہ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت کے پاس اکثریت ہے اور یہ ایوانِ اسمبلی میں ثابت بھی ہوجائے گا۔ اسی بات کا اعادہ کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے اور شیوسینا کے ترجمان سنجے راؤت نے بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں بی جے پی کا پلان اے یعنی شندے کی بغاوت کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا کیونکہ باغی ایم ایل ایز کو واپس آکر ایوان میں ہی اپنی حمایت ظاہر کرنی ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ شندے کے ساتھ بغاوت کرنے والے کئی ایم ایل ایز مہاوکاس اگھاڑی کے حق میں ووٹ دیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی کا پلان اے فیل ہوجائے گا۔

بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے ڈھائی سال تک محنت کی ہے۔ مرکزی ایجنسیوں کا اپنے مفاد کے تحت بے دریغ استعمال اور ممبرانِ اسمبلی کو منھ مانگی قیمت دینے کے بعد یہ صورت پیدا ہوئی ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کا امکان پیدا ہوا ہے وگرنہ اس سے قبل تو خود فڈنویس تک حکومت گرانے کے معاملے میں مایوسی کا اظہار کرچکے تھے۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے پلان اے کے ساتھ پلان بی بھی تیار کرلیا ہے اور جس پر وہ نہایت خاموشی سے عمل بھی کر رہی ہے۔ اس پلان بی کے تحت اگر شندے کے ساتھ اسے حکومت سازی میں کوئی دشواری پیش آتی ہے تو یا شیوسینا کے کچھ باغی ایم ایل ایز واپس گھرواپسی کرلیتے ہیں تو ایسی صورت میں اجیت پوار کی مدد لی جائے گی جو اپنے ساتھ ایک درجن سے زائد ممبران کے ذریعے بی جے پی کی حمایت کریں گے اور نائب وزیراعلیٰ بنے رہیں گے۔ لیکن اس کے بھی کامیابی کے امکان قدرے کم ہیں کیونکہ شردپوار نے اس کی پیش بندی شروع کر دی ہے۔


اس بغاوت کے پیچھے پیسوں کے آفر کے علاوہ ایک بڑا فیکٹر ای ڈی کی کارروائی کے تعلق سے بھی اٹھایا جا رہاہے۔ شیوسینا ترجمان سنجے راؤت کے مطابق جتنے لوگوں نے بغاوت کی ہے ان میں سے 16/لوگوں پر ای ڈی کی کارروائی شروع ہے۔ بی جے پی کے ساتھ آنے کی عوض میں ان تمام کے اوپر سے ای ڈی کے کیسس ختم کر دیئے گئے۔ تھانے کے ایک ایم ایل اے دیپک کیسرکر پر ای ڈی کی کارروائی شروع تھی، وہ دہلی گئے۔ سنجے راوت کے مطابق جب پارٹی سے بغاوت کرنے والے کچھ لوگ سورت پہنچ چکے تھے تو ہم نے کیسرکر کو فون کیا کہ آپ کہاں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں دہلی میں سپریم کورٹ کے کام سے آیا ہوں، لیکن 3 بجے ان کا فون آیا کہ میں بی جے پی میں جا رہا ہوں، مجھ پر جو ای ڈی کا کیس تھا وہ کلیئر ہوگیا ہے، فڈنویس مجھے لے کر امت شاہ کے پاس گئے اور ایک گھنٹے کے اندر مجھ پر سے ای ڈی کے تمام کیس ختم کر دیئے گئے ہیں۔

اسی طرح ایک اور صاحب ہیں یشونت جادھو،جن کی اہلیہ یامنی جاددھو ممبئی کے بائیکلہ اسمبلی حلقے سے ایم ایل اے ہیں۔ وہ بھی باغیوں میں شامل ہیں۔ یشونت جادھو پر گزشتہ ایک سال سے ای ڈی، انکم ٹیکس کی تفتیش ہو رہی تھی، وہ بھی دہلی گئے اور ان کے اوپر سے بھی ای ڈی کی کارروائی ختم کردی گئی۔ انہوں نے تو باقاعدہ اس کی اطلاع پارٹی ترجمان سنجے راؤت کو دی کہ فڈنویس نے ان پر ای ڈی کے کیسس ختم کرا دیئے ہیں اور اب وہ بی جے پی میں جا رہے ہیں۔ اس طرح 8 سے 9 لوگ ہیں جن کے کیس دہلی میں لے جاکر کلیئر کرائے گئے اور انہیں فڈنویس لے کر گئے تھے۔ جبکہ یہی لوگ ہیں جن کے خلاف کریٹ سومیا گزشتہ سال بھر سے پریس کانفرنس کے ذریعے بدعنوانی کا الزام لگاتے رہے اور راتوں رات ان کے تمام کیس ختم کر دیئے گئے۔ اس لیے اب یہ کہا جا رہا ہے کہ مہاراشٹر میں شیوسینا ایم ایل ایز کی بغاوت سے سب سے زیادہ پریشانی بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کو ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اب تک جتنے ثبوت کو ای ڈی کو دینے کے لیے جمع کیے تھے وہ اب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔


سنیچر کو شیوسینا کے باغی گروپ کی جانب سے ایم ایل اے دیپک کیسرکر نے زوم کے ذریعے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ان کے پریس کانفرنس سے قبل ہمارے گودی میڈیا میں کچھ ایسا ماحول بنایا گیا گویا جوبائیڈن ہندی میں بات کرنے والے ہیں۔ خیر وہ میڈیا کے سامنے آئے اور کچھ ایسے آئے کہ وہ خود ہی یہ نہیں سمجھ سکے کہ انہیں بولنا کیا ہے۔ ایک جانب انہوں نے کہا کہ وہ شیوسینا میں ہی ہیں تو دوسری جانب اپنے علاحدہ گروپ کے پاس اکثریت ہونے کا اعادہ فرمایا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ شیوسینا میں ہی ہیں تو پھر آپ کا کونسا گروپ اور کہاں کی اکثریت؟ لیکن اس کانفرنس کی سب سے دلچسپ بات ان کا وہ خوف تھا جسے چھپانے کی بھرپور کوشش کے باوجود چھلک ہی پڑ رہا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ جب آپ کے پاس اکثریت ہے اور آپ خود کو شیوسینا میں بھی بتا رہے ہیں تو واپس کیوں نہیں آجاتے؟ تو ان کا جواب تھا کہ جب وہاں کے حالات نارمل ہو جائیں گے تو ہم آئیں گے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حالات نارمل نہیں ہیں اور آپ اتنے خوفزدہ ہیں تو پھر اسی دن کیوں نہیں واپس آگئے جب وزیراعلیٰ نے آپ لوگوں سے آکر ملنے اور بات کرنے کی اپیل کی تھی؟

اسے کہتے ہیں شیوسینا کا خوف کہ آسام کے گوہاٹی میں بیٹھے ان لوگوں کی واپس آتے ہوئے پینٹ گیلی ہو رہی ہے۔ جب کہ ان کا کہنا ہے کہ اصل شیوسینا وہی ہیں اور اکثریت ان کے پاس ہے۔ اگر اکثریت آپ کے پاس ہے اور وہی اصل شیوسینا ہیں تو انہیں واپس آنے اور اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے سے کس نے روکا ہے؟ لیکن وہ جو کہاوت ہے ناکہ چور کی داڑھی میں تنکا، تو اپنے آپ کو حق بجانب کہنے کے باوجود ان کے دلوں میں کچھ ایسا چور ضرور ہے جو ان کے اندر ادھو ٹھاکرے سے آنکھ ملانے کی ہمت پیدا نہیں ہو پا رہی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ یہ باغی لوگ ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ انہوں نے بغاوت کیوں کی۔ بس انہیں بغاوت کرنے کے لیے کہہ دیا گیا اور انہوں نے کر دی۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ جس کے کہنے پر وہ بغاوت کر رہے ہیں، بیچ منجدھار میں چھوڑنے کا اس سے بہتر ہنر کسی اور کو نہیں آتا۔ جس قومی پارٹی کے اشارے پر ان لوگوں نے بغاوت کی ہے وہ دراصل بھشماسور کی مانند ہیں جس نے جس پارٹی کی بھی انگلی پکڑی اس کو ختم کر دیا، بھشماسور تو سر پر ہاتھ رکھتا تھا لیکن یہ قومی پارٹی تو انگلی پکڑ کر ہی فنا کر دیتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔