ندائے حق: ترکی کا نام تبدیل کرنے کی وجہ کیا ہے؟... اسد مرزا

”ترکی کی جانب سے اپنا نام بدلنے کی اصل وجہ حالیہ عرصے میں عالمی سطح پر مختلف ممالک میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی ہے اور دنیا کے زیادہ تر ملک اس کی زد میں آتے چلے جا رہے ہیں“

ترکی کا نام تبدیل / Getty Images
ترکی کا نام تبدیل / Getty Images
user

اسد مرزا

2 جون 2022 کو اقوام متحدہ کی جانب سے انقرہ سے نام کی تبدیلی کی باضابطہ درخواست پر رضامندی کے بعد ترکی کو اب اقوام متحدہ اور ہر جگہ میں Turkiy نہیں Türkiye کے نام سے جانا جائے گا۔ اس کا تلفظ لفظ ترکی پر ہی مبنی ہے لیکن اس میں ’ی‘ کا اضافہ اور انگریزی میں ’yay‘ کا اضافہ ہوجائے گا۔ یعنی اب آپ اسے ’ترکیے‘ کہیں گے۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ اسے گزشتہ ہفتے انقرہ سے ایک درخواست موصول ہوئی تھی اور اس کے فوراً بعد تبدیلی کی گئی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس نام کی تبدیلی کو قبول کرنا دیگر اسی طرح کے اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ اپنانے کے اسی طرح کے عمل کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ دراصل ترکی کا نام بدلنے کی ری برانڈنگ مہم کا عمل پچھلے سال شروع ہوا تھا اور اس کے اصل پیروکار صدر رجب طیب اردگان ہیں جنھوں نے دسمبر 2021 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ لفظ ترکیے بہترین طریقے سے ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کی نمائندگی اور اظہار کرتا ہے۔ مقامی سطح پرترکی کے عوام ابھی بھی اپنے وطن کو ترکی ہی کہنے کے عادی ہیں۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر اس کا انگریزی ورژن 'ترکیے' اپنایا گیا۔


ترکی ترکیے کیوں کہلانا چاہتا ہے؟

ریاستی نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی نے گزشتہ سال ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کچھ وجوہات کی وضاحت کی گئی تھی۔ ان میں کہا گیا تھا کہ لفظ 'ترکی' کو 1923 میں ملک کی آزادی کے بعد اپنایا گیا تھا۔ ''صدیوں سے یوروپی ممالک نے پہلے خلافتِ عثمانیہ اور اس کے بعد بھی ترکی کو کئی ناموں سے پکارا گیا۔ لیکن جو نام سب سے زیادہ عام ہو گیا ہے وہ لاطینی ''ترقیا'' ہے اور زیادہ عام ''ترکی''۔

لیکن حیرت انگیز طور پر، اس کے علاوہ اور بھی جواز موجود ہیں۔ بظاہر، ملک کی حکومت گوگل سرچ کے ان نتائج سے خوش نہیں تھی جو لفظ 'ترکی' کے لیے گوگل مہیا کراتا ہے۔ ان میں سے کچھ نتائج Turkey کو اس بڑے پرندے کی طرح بتاتے ہیں جو شمالی امریکہ میں تھینکس گیونگ اور کرسمس کے روایتی دعوتوں کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو کیمبرج ڈکشنری کی اصطلاح ''ترکی'' کی تعریف پر بھی اعتراض تھا، جو کہ بتاتی ہے: ''کوئی چیز جو بری طرح ناکام ہو جاتی ہو'' یا ''ایک بیوقوف یا احمق شخص''۔


TRT کا مزید کہنا تھا جب نوآبادیاتی افسران ترکی پہنچے تو انھوں نے جنگلی مرغی جیسا ایک پرندہ دیکھا جو کہ گنی فاؤل سے ملتا جلتا تھا جو مشرقی افریقہ میں پایا جاتا تھا اور یورپ میں درآمد کیاجاتا تھا۔ کیونکہ یہ پرندہ افریقہ سے ترکی کے راستے یوروپ پہنچا تھا اس لیے اسے Turkey کہا جانے لگا، جبکہ اس کا اصل نام Neleagrif ہے۔

نام بدلنے کی سرکاری مہم

حکومت نے دوبارہ برانڈنگ کی ایک بڑی مہم شروع کی ہے، جس کے ذریعے اب Made in Turkiye تمام برآمد شدہ مصنوعات پر نمایاں طور پر لکھا جائے گا۔ بی بی سی نے بھی یہ اطلاع دی ہے کہ اس سال جنوری میں حکومت نے ''Hello Türkiye'' کو ٹیگ لائن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک سیاحتی اور سوشل میڈیا مہم بھی شروع کی تھی۔


لیکن بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے کہ حکومت کے حامیوں نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری سطح پر تو اس نئے نام کو قبول کرلیا گیا ہے، لیکن عوامی سطح پر اس میں ابھی زیادہ کامیابی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عام بول چال میں ترک افراد پہلے ہی سے اپنے ملک کو ترکی زبان میں ترکیے کہا کرتے تھے۔

کیا دوسرے ممالک نے بھی اپنے نام بدلے ہیں؟

ایسے دوسرے کئی ممالک بھی ہیں جنہوں نے نوآبادیاتی وراثت کو چھوڑنے یا اپنے ملک کو دوبارہ برانڈ کرنے کے لیے اپنے نام تبدیل کیے ہیں، جیسا کہ ترکی کا معاملہ ہے۔ کچھ مثالیں: ہالینڈ نے اپنا نام بدل کر نیدرلینڈز کیا۔ مقدونیہ نے اپنا نام تبدیل کرکے شمالی مقدونیہ رکھا۔ ایران نے 1935 میں اپنا نام فارس سے تبدیل کرکے ایران کیا تھا۔ سیام نے اپنا نام بدل کر تھائی لینڈ رکھ دیا تھا۔ اور روڈیشیا اپنی نوآبادیاتی میراث چھوڑنے کے لیے زمبابوے میں تبدیل ہو گیا۔ اپریل 2018 میں، بادشاہ مسواتی III نے سوازی لینڈ کا نام بدل کر ایسواتینی رکھ دیا تھا۔ 2016 میں، چیک ری پبلک نے اس کے مختصر ورژن کو یعنی چیکیا کو اپنا لیا تھا۔ کیپ وردے نام بدل کر کیبو وردے ہوگیا۔ سری لنکا نے نوآبادیاتی نظام سے الگ ہونے کے لیے اپنا نام بدل کر سیلون سے سری لنکا کرلیا تھا۔ اسی طرح آئیوری کوٹ نے اپنا نام بدل کر کوٹ ڈی آئیوری کرلیا تھا۔ یعنی کہ ترکیے اس فہرست میں اکیلا یا پہلا ملک نہیں ہے بلکہ اور کئی دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہیں۔


نام بدلنے کی اصل وجہ

اگر ہم تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالیں تو یہ پائیں گے کہ سعودی عرب کے عالمی منظر نامے پر ابھرنے سے پہلے سلطنت عثمانیہ یا ترکی پوری مسلم دنیا کی نمائندگی اور قیادت بھی کرتا تھا اور اس کے لیے اس کے پاس خلافتِ عثمانیہ کا لقب موجود تھا اور جس کے ساتھ اس نے پوری مخلصی اور وفاداری سے اپنا کردار ادا کیا۔ تاہم سعودی عرب کے بننے کے بعد نوآبادیاتی ممالک نے ترکی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب کو ہر سطح پر فروغ دینا شروع کیا اور اس سے پہلے جنگوں کے ذریعے ترکی کے طاقت و اثر و رسوخ کو کم کرنے کی ہر ممکنہ سازش کی۔ اس مہم میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے اور ترکی 1923میں کمال اتاترک کی قیادت میں ایک سیکولر ملک بن کر سامنے آیا۔ تاہم 1923 سے لے کر اب تک ترکی میں موجود اسلامی اور قوم پرست عنصر کو ختم نہیں کیا جاسکا تھا۔ فتح اللہ گلین کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ان خیالات اور نفسیات میں مزید تیزی آئی جس کو موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اور تقویت دی۔

ترکی کا نام بدل کر ترکی کی ثقافت، وارثت اور اقدار کو اس کے سیاست کا محور بنانا ان کی اسی کوششوں کا ایک بڑا کلیدی حصہ ہے۔ اس کے ذریعے وہ ترکی اور دیگر مسلم ممالک نے قوم پرستی اور اس کی انتہائی شکل کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم دنیا کے اور بالخصوص افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ملکوں میں رونما ہونے والے حالات سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دراصل ہر سیاست داں کو یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے ملک میں قوم پرستی کے عناصر کو فروغ دے گا تو پھر اسے حکومت سے باہر کرنا آسان نہیں ہوتا ہے اور یہی رجب طیب اردگان بھی چاہتے ہیں۔ اس کی ایک اور مثال ہمیں اپنے یہاں بھی مل سکتی ہے جہاں پر ملک کا نام تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ قوم پرستی کے ذریعے اس میں صرف ایک اضافی لفظ کو جوڑ کر ملک کے پورے سیاسی نظام کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مہم میں اردگان تو کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں اور ہمیں اس سے خوشی بھی ہے لیکن ہمیں اس سے زیادہ اپنے ملک میں جاری مہم کو تشویش سے دیکھنے کے علاوہ اس کو بے اثر کرنے کی تدابیر پر بھی غوروخوض اور سیاسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔