بھارت توڑو بمقابلہ بھارت جوڑو!... اعظم شہاب

بھارت کو توڑکر بھلے ہی بی جے پی وقتی طور پر فائدہ حاصل کر رہی ہو لیکن بنیادی طور پر بھارت کے خمیر میں جڑنا ہے ہی اور یہ جڑ کر ہی رہے گا، بھلے ہی پاتراؤں یا نقویوں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

’بھارت جوڑو یاترا‘ ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ہے کہ ’بھارت توڑو‘ والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگیا۔ یہ مروڑ اس قدر شدید ہے کہ جہاں بھی موقع مل رہا ہے وہ غلاظت اگل دے رہے ہیں۔ ایک تو وشووگرو صاحب کی ہرمحاذ پر ناکامی اور اس پر کانگریس ودیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعے مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف مسلسل احتجاج ومظاہرے، یہی ان بھارت بھاگیہ ودھاتا لوگوں پر بوکھلاہٹ طاری کرنے کے لیے کافی تھی کہ اس پر بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی کی قبل از وقت بازگشت نے ان کے اوسان مزید خطا کر دیئے ہیں۔ اس بھارت جوڑو یاترا کی تفصیلات جوں جوں منظرِ عام پر آتی جا رہی ہیں، ان کی پیشانیاں عرق آلود ہوئی جا رہی ہیں۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ اس کی مخالفت کریں تو کس طرح کریں کیونکہ اس یاترا کو کانگریس نے ایک عوامی یاترا بنا دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ خاموش رہنا بولنے سے زیادہ اثرانگیز ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ان کے پلے بھلا کہاں پڑسکتی ہے جو بولنے کو ہی اپنی سب سے بڑی حصولیابی سمجھتے ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کی مخالفت کچھ لوگ اپنی اہم ترین ذمہ داری سمجھ رہے ہیں۔ ایک تو کانگریس کی مخالفت کا جنون اور اس پر بولنے کی بیماری نے بھارت جوڑو یاترا کی مخالفت کرنے والوں کی حالت مضحکہ خیز بنا دی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچ رہے ہیں کہ اس سے وہ اپنی ہی مٹی پلید کرا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت جوڑو یاترا کی مخالف میں ایک ہی خبر تمام اخبارات کے لیے جاری کردی گئی اور ہمارے قابل قومی میڈیا نے اس خبر کو من وعن شائع بھی کر دیا۔ یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ اس خبر سے بھارت جوڑو یاترا کی مخالفت نہیں بلکہ خبر تیار کرنے والوں کا ہی ذہنی انتشار ظاہر ہو رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والوں میں کم ازکم اتنی تو پیشہ وارانہ مہارت ہونی چاہئے کہ وہ بی جے پی ذرائع سے موصول شدہ خبروں کو حقیقی رنگ ہی دے سکیں، لیکن ماشاء اللہ اندھ بھکتی نے ہمارے قومی میڈیا کو اس سے بھی محروم کر دیا ہے۔


بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے بھارت جوڑو یاترا کی مخالفت میں تو کچھ ایسی ہذیان گوئی کی ہے کہ پڑھ اور سن کر ہی ابکائی آنے لگتی ہے۔ کم ازکم مخالفت بے جا بھی اگر کوئی کرے تو کچھ شعور ہونا چاہئے، لیکن مہاشے تو اس سے بھی گئے گزرے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ”بھارت جوڑو نہیں بلکہ بھارت توڑو یاترا ہے“۔ یہ بات کہنے کے بعد شاید انہیں احساس ہوتا ہے کہ غلط بات زبان سے نکل گئی تو وہ اس کی اصلاح کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ’بھارت جوڑو آندولن‘ نہیں ہے بلکہ ’گاندھی خاندان کو بچاؤ آندولن‘ ہے“۔ خود کو بی جے پی کا فائر برانڈ ترجمان کہلانے والے پاترا صاحب یہی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ بھارت جوڑو یاترا کو بھارت توڑو کہیں یا گاندھی خاندان کو بچاؤ کی مہم کہیں۔ اسی کے ساتھ پاترا صاحب کانگریس پر بدعنوانی کا الزام بھی عائد کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”بدعنوانی کو روکنے والے ہی ملک کو متحد کر سکتے ہیں اور یہ ستم ظریفی ہے کہ کانگریس بدعنوانی نہیں چھوڑ سکتی، اس لیے وہ ہندوستان کو بھی متحد نہیں کر سکتی“۔ یہ سن کرایسا لگا جیسے کوئی بلی چوہے نہ پکڑنے کی تلقین کر رہی ہو۔ جس پارٹی میں سب سے زیادہ بدعنوان ہوں، جو پارٹی بدعنوانی کے ذریعے منتخب حکومتیں گراتی ہو، اس پارٹی کا ترجمان دوسری پارٹی پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتا ہے۔ خیر یہ مودی حکومت کا امرت کال ہے جس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ شاید اسی سمجھداری کی بناء پر مودی جی نے آج تک انہیں کوئی وزارت نہیں سونپی۔ انہیں سیاحت کے فروغ کے کارپوریشن میں کھپایا جا رہا ہے۔

لیکن لطف تو اس وقت آتا ہے جب مینڈکی کو بھی زکام ہوجاتا ہے۔ بی جے پی کے راندہ درگاہ لیڈر مختارعباس نقوی بھی بھارت جوڑو یاترا پر بول پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ”پریوار کے پروٹیکشن، پپو کے پرموشن اور پراکسی پرسیڈنٹ کے پریاس میں لگی ہوئی ہے، جو بچی کھچی پولٹیکل پارٹی ہے وہ دیش کو کیا جوڑے گی جب وہ پارٹی خود نہیں بچ رہی ہے“۔ نقوی صاحب کا یہ بیان سن کر انہیں دوبارہ راجیہ سبھا میں نہ بھیجنے کے مودی جی کے فیصلے کی حکمت سمجھ میں آگئی۔ اب بھلا نقوی صاحب سے یہ کون پوچھے کہ اگر کانگریس ایک بچی کھچی ہی پولٹیکل پارٹی ہے اور راہل گاندھی ان کے لیے پپو ہیں تو پھر ان کے اور ان کی پارٹی کے ہوش کیوں اڑے ہوئے ہیں؟ جسے وہ پپو کہہ رہے ہیں اس کے ایک ٹوئٹ سے ہی ان کی پارٹی پر زلزلہ کیوں طاری ہوجاتا ہے۔ مہنگائی وبیروزگاری کے خلاف اسی پپو کے ہلّہ بول سے ان کی بنیاد کیوں ہلنے لگتی ہے؟ سچائی یہ ہے کہ نقوی صاحب نے بھارت جوڑو یاترا کی مخالفت کے نام پر اپنا اور اپنی پارٹی کا خوف ظاہر کر دیا ہے۔ وگرنہ ایک بچی کھپی پولٹیکل پارٹی کے کسی مہم یا کسی آندولن سے ان کی مضبوط اور دنیا کی سب سے بڑی پارٹی پر کیا اثر ہوسکتا ہے؟


اپنے اسی بیان کے ساتھ نقوی صاحب اشارتاً غلام نبی آزاد کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جو کانگریس چھوڑ چکے ہیں۔ یہ بات کانگریس اور بی جے پی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو معلوم ہے کہ غلام نبی آزاد نے کانگریس کیوں چھوڑی۔ اگر کوئی پیسوں اور دھمکیوں کا پٹارہ لے کر بازار میں گھومنا شروع کردے اور لوگوں کو دھمکانے وخریدنے میں رات دن مصروف رہے تو ظاہرہے کہ بہت سے لوگوں کو وہ خریدنے میں کامیاب رہے گا۔ خریدنے اور اپنے پالے میں لانے کی یہ مہم پورے ملک میں جاری ہے۔ غلام نبی آزاد کے بارے میں بہت پہلے سے معلوم تھا کہ وہ بہت جلد اس پالے میں شامل ہوجائیں گے جہاں سے وہ بی جے پی کو فائدہ پہنچاسکیں۔ پھر اگر وہ کانگریس سے علاحدہ ہوئے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کانگریس کے ساتھ اپنا پچاس سالہ رشتہ ختم کرلیا، لیکن یہ باتیں کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کانگریس سے ان کا رشتہ کانگریس کے زریں دور کے ساتھ رہا ہے۔ جیسے ہی کانگریس اقتدار سے بے دخل ہوئی، اقتدار کے بغیر زندہ نہ رہ پانے والے پالا بدلنے لگے۔

بی جے پی یا دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کے ذریعے بھارت جوڑو مہم کی مخالفت سمجھ سے بالاتر بالکل نہیں ہے۔ جن کا پورا زور ہی بھارت توڑنے پر ہی صرف ہوتا ہو، جن کے اقتدار کی بنیاد ہی بھارت اور بھارت کے لوگوں کو توڑنے پر ہو اور جو شب وروز اسی میں مصروف رہتے ہوں کہ کس طرح بھارت کی تکثیریت کو ٹکڑوں میں تبدیل کرکے ایک دوسرے کے بالمقابل لاکھڑا کریں، وہ اگر بھارت جوڑو تحریک کی مخالفت نہیں کریں گے تو اور بھلا کیا کریں گے؟ بھارت جوڑو مہم تو ان کی بنیاد پر براہِ راست حملہ ہے جس سے ان کے یہاں بوکھلاہٹ طاری ہونا فطری ہے۔ لیکن بھارت توڑنے والے ان ’مہانبھاؤں‘ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بھارت کا خمیر جڑنے میں ہے نہ کہ ٹوٹنے میں۔ بھارت کو توڑنے کی ان کی کوشش وقتی طور پر کامیاب تو ضرور ہوسکتی ہے جو انہیں انتخابات میں فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے لیکن بنیادی طور پر بھارت کے خمیر میں جڑنا ہی ہے اور یہ جڑ کر ہی رہے گا، بھلے ہی پاتراؤں یا نقویوں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔

(نوٹ: مضمون میں جو بھی تحریر ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے، ادارہ قومی آواز کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔