من کی بات' بمقابلہ 'جن کی بات... اعظم شہاب

پردھان سیوک کے من کی بات کا اگر زمینی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انتخابی تقریر کے سوا کچھ نہیں ہے۔

من کی بات، تصویر یو این آئی
من کی بات، تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

بس اب زیادہ نہیں محض 2 ؍ایپی سوڈ ہی باقی رہ گئے ہیں پردھان سیوک جی کے من کی بات اور بی آر چوپڑہ کے مشہور ٹیلی ویژن سیریل مہابھارت میں۔ 1998 میں آئے مہابھارت سیریل کے 94؍ایپی سوڈ تھے جبکہ من کی بات نے گزشتہ کل اپنی 92ویں قسط پوری کرلی ہے۔ اگر یہی تواتر اور پابندی برقرار رہی تو چشم بددور اس سال کے اختتام تک من کی بات کا ایپی سوڈ مہابھارت کو مات دے دیگا۔ پھر بہت ممکن ہے کہ اس کو بھی پردھان سیوک جی کی حصولیابی میں شمار کیا جانے لگے کہ بغیر تھکے، بغیر کوئی ٹانک لیے، 18-18؍گھنٹے کام کرنے کے باوجود من کی بات کا کوئی ایپی سوڈ انہوں نے ناغہ نہیں ہونے دیا۔ یوں بھی جس طرح مہابھارت نے اپنے وقت میں مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے تھے اسی طرح من کی بات نے ناپسندیدگی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ جن پلیٹ فارم پر من کی بات نشر ہوتی ہے وہاں ناپسندیدگی درج کرنے کا شمار غائب ہوتا ہے وگرنہ حقیقت حال معلوم ہونے پر بہت ممکن ہے کہ خود پردھان سیوک جی ’من کی بات‘ چھوڑ کر ’جن کی بات‘ شروع کر دیتے۔

گزشتہ کل پردھان سیوک جی نے اپنے من کی بات کی 92ویں قسط میں کئی ایسی باتیں ارشاد فرمائیں کہ جنہیں سن کر ایسا لگا کاش کہ ایسا ہی ہوتا۔ کچھ دیر کے لیے دل نے کہا کہ آنکھیں موند کر من کی بات سنتے ہوئے بس ’من مونگھد‘ ہوتے رہئے کہ اس سے کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی دکھ درد کا احساس تو نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی اثناء میں گھر میں گیس سلنڈر کے خالی ہونے کی خبر ملتی ہے اور خواب ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے گیارہ سو روپئے درکار ہوتے ہیں۔ پردھان سیوک جی کے من کی بات کا تھیم آزادی کا امرت مہوتسو ہی تھا جس کے ایوینٹ کے طور پر 13؍سے 15؍اگست تک ہر گھر پر ترنگا لہرایا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ترنگا لہرانے کی اس مہم نے ہمارے کچھ ایسے زخموں کو بھی بے نقاب کر دیا جس نے بین الاقومی سطح پر ہماری شرمندگی میں مزید اضافہ کیا۔ مثال کے طور پر کئی جگہ سرکاری کوٹے پر راشن لینے والے غریبوں کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ انہیں راشن اسی وقت ملے گا جب وہ 30-20 روپئے کا ترنگا خریدیں گے۔ یوٹیوب پر اس تعلق سے کئی ویڈیو ابھی بھی موجود ہیں۔


اپنے من کی بات میں پردھان سیوک نے کہا کہ امرت مہوتسو کا رنگ بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی دکھائی دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے بوتساونا میں رہنے والے ایک مقامی گلوکار کا تذکرہ کیا جس نے بھارت کی آزادی کے 75سال کی مناسبت سے دیش بھکتی کے 75 گیت گائے۔ اسی کے ساتھ پردھان سیوک نے یہ بھی کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو 2023 تک چلے گا۔ اس بات سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ملک سے محبت کا جذبہ کسی سرحد کسی ویزے کا محتاج نہیں ہوتا، پھر چاہے کوئی دنیا کے کسی بھی ملک میں کیوں نہ رہے۔ ایسے میں اگر دنیا کے کسی کونے میں کوئی شخص آزادی کا جشن اپنے طور پر مناتا ہے یا اس کی خوشی میں شریک ہوتا ہے تو یہ امرت مہوتسو کی مہم کا نہیں بلکہ جذبۂ حب الوطنی کا مظہر ہے۔ یہ جذبہ حب الوطنی جنوبی افریقہ کے ملک بوتساونا میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے اور آسٹریلیا کے بینڈگو شہر میں بھی، جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اپنے ہی ملک میں آج دیش بھکتی کا ثبوت ان لوگوں سے مانگا جا رہا ہے جنہوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ثبوت وہ لوگ مانگ رہے ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کی ہر طرح سے مخالفت کی۔

پردھان سیوک کو بوتساونا کے گلوکار کے دیش بھکتی کے 75 گانوں کی اطلاع تو مل گئی لیکن اپنے ہی ملک کے اس بوڑھے بزرگ کی ویڈیو نہیں مل سکی جو بڑی مشکلوں سے کھڑے ہوکر ’جہاں ڈال ڈال پر سونے کی چڑیا کرتی ہے بسیرا‘ کا نغمہ گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کو اپنے ہی گجرات کے احمدآباد کے گول لمڑا علاقے کے انجمن اسلامیہ اسکول کی بھی خبر نہیں ہوسکی جہاں یومِ آزادی کے موقع پر پورے اسکول کو ترنگے کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔ ان تک یوگی جی کے لکھنؤ کی وہ ویڈیو بھی نہیں پہنچ سکی جس میں مدرسے کے طلبہ ہاتھوں میں ترنگا لیے سڑکوں پر آزادی کا جشن مناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ چنڈی گڑھ کے جامع مسجد کے مدرسے کے ان بچوں کے جذبہ حب الوطنی سے بے خبر رہے جس میں بچیاں سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں کا نغمہ گاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور تو اور پردھان سیوک جی میندھار کشمیر سے بھی بے خبر رہے جہاں اسکولوں کی حجاب پوش بچیوں نے ہاتھوں میں ترنگا لے کر آزادی مارچ نکالا۔ یہ سب ویڈیوز ریپبلک بھارت، انڈیا ٹی وی اور نیوز ڈیجٹیل کے چینلوں پر ابھی بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ خیر یہ ’سنیوگ‘ بھی ہوسکتا ہے۔


پردھان سیوک نے اپنے من کی بات میں بچوں میں غذائیت کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ 90 فیصدی بچوں میں غذائیت کی کمی دور ہوئی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے آسام اور جھارکھنڈ میں چلائی جانے والی کچھ اسکیموں کا تذکرہ کیا اور غذائیت کے تئیں بیداری لانے پر زور دیا۔ پردھان سیوک کی یہ باتیں سن کر جب ہم سال بھر پہلے اکتوبر2021 میں آئی ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کی رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 116؍ملکوں کی فہرست میں ہمارا مقام 101؍واں ہے اور ہم اپنے پڑوسی ممالک پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔ وہیں ایک سال قبل یعنی 2020 میں ہمارا مقام 94واں تھا۔ ایک سال میں بجائے ہمیں اپنا اسکور بڑھانے کے 7 پائیدان مزید نیچے اتر گئے۔ گزشتہ دوسال کی کارکردگی کے پیشِ نظر اگر 2022 کی رپورٹ کا اندازہ لگایا جائے تو بہت زیادہ خوشی نہیں ہوگی کیونکہ مہنگائی وبیروزگاری نے عام لوگوں کو غذائیت کے معیار تک پہنچنا مشکل بنا دیا ہے۔ پھر بھی اگر ہم پردھان سیوک کی باتوں پر یقین کریں اور یہ سمجھ لیں کہ ایک سال میں انہوں نے کوئی جادو کی چھڑی گھمادی ہے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ کیا کسی بچے کی والدہ کا غذائیت کی قلت کے شکار بچے کی والدہ سے ہفتے میں ایک بار ملنے سے غذائیت کی کمی دور ہوسکتی ہے؟

اپنے اسی من کی بات میں پردھان سیوک جی نےMillets یعنی باجرہ کا تذکرہ کیا اور کسانوں سے اپیل کی کہ وہ موٹے اناج کو زیاد سے زیادہ اپنائیں اور اس کا فائدہ اٹھائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسان باجرے کی کاشت کریں تو کیا ضمانت ہے کہ انہیں اس سے فائدہ ہی ہوگا؟ کسان تو بیچارے آج بھی ایم ایس پی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے کاشت کی ایک متعینہ قیمت طے کرے لیکن حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ اس کے علاوہ پردھان سیوک جی شاید یہ بات بھول گئے کہ 2022 تک انہوں نے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ 28فروری 2016 میں اترپردیش کے بریلی میں پردھان سیوک نے اپنی اسٹائل میں کسانوں سے سوال کیا تھا کہ ’2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی ہونی چاہئے یا نہیں ہونی چاہئے‘؟ تو بھیڑ نے ایک ساتھ جواب دیا تھا کہ ’ہاں ہونی چاہئے‘۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک انتخابی جملہ ہی تھا کیونکہ کسانوں کی آمدنی دوگنی تو نہیں ہوئی البتہ ان کا خرچ ضرور دوگنا ہوگیا۔


جس وقت پردھان سیوک نے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا اس وقت ایک کسان کی اوسط آمدنی 8 ہزار 59 روپئے تھی جو 2019 تک بڑھ کر 10؍ہزار 218 روپئے ہوئی۔ یعنی چار سال بعد کسانوں کی آمدنی میں محض 2 ہزار159؍روپئے کا اضافہ ہوا۔ لیکن اس 2 ہزار218 میں سے کسان ہر ماہ 4 ہزار226 روپئے فصلوں کی بوائی اور دیگر زرعی ضروریات پر خرچ بھی کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس 6 ہزار روپئے سے بھی کم بچتا ہے۔ آزادی کی 75ویں سالگر ہ ختم ہوگئی لیکن ابھی تک کسانوں کی آمدنی دوگنی نہیں ہوئی۔ جبکہ رپورٹیں ایسی بھی ہیں کہ کئی ریاستوں کے کسانوں کی آمدنی پہلے سے بھی کم ہوئی ہے۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس نے مارچ 2022 میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ سرکار اپنے ٹارگیٹ سے ابھی کافی پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں حکومت کو بیچی گئی اپنی کاشت کے پیسوں کی ادائیگی کے لیے کسان احتجاج بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان سے باجرہ کی کھیتی کرنے کی اپیل کرنا کیا ان کے زخموں پر نمک ملنے کے مترادف نہیں ہوگا؟ پردھان سیوک جی نے اپنے من کی بات کے ہر ماہ کے ایپی سوڈ میں اس طرح کے خواب دکھاتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان خوابوں کو وہ اپنی حکومت کی حصولیابی میں بھی شمار کراتے ہیں۔ لیکن جب جاگتی آنکھیں حقیقت کا سامنا کرتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ من کی بات بھی انتخابی تقریر کے سوا کچھ نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔