محمد حسین آزاد، اپنے خاص اسلوب کا بانی بھی اور خاتم بھی... جمال عباس فہمی

اردو کے اس بلند پایہ صاحب طرز انشا پرداز، ناقد، محقق، صحافی اور شاعر کی زندگی اور ادبی خدمات کے بہت سے گوشے اب بھی تشنہ تحقیق ہیں۔ ابھی اہل اردو پر محمد حسین آزاد کا قرض واجب الادا ہے۔

محمد حسین آزاد
محمد حسین آزاد
user

جمال عباس فہمی

تذکرہ نگاری کو نیا اسلوب بخشنے والے، جدید نثر کے معماروں میں شمار کئے جانے والے، جدید نظم کی داغ بیل ڈالنے والے اور 'نیرنگ خیال' کے ذریعے اردو انشا پردازی کا نقش اول ثبت کرنے والے ناقد، محققق، انشا پرداز، ماہر تعلیم اور صحافی کا نام مولانا محمد حسین آزاد ہے۔ 'آب حیات' اور 'نیرنگ خیال' جیسی کتابیں لکھ کر اردو ادب کو مالا مال کرنے والے مولانا محمد حسین آزاد نے سب سے پہلے اردو زبان کی پیدائش کا نظریہ پیش کیا اور برج بھاشا کو اردو کا منبع قرار دیا۔ 30 سے زیادہ کتابوں کے خالق کی زندگی کے آخری کئی برس جنون اور دیوانگی کی حالت میں گزرے۔ لیکن اس عرصہ میں بھی وہ محمد اور آل محمد کی شان میں شاعری کرتے تھے۔ آزاد کے علمی اور ادبی مرتبے پر بات کرنے سے پہلے ان کے حالا ت زندگی کا ذرا تفصیل سے جائزہ لینا ضروی معلوم ہوتا ہے۔

محمد حسین آزاد ملک کی پہلی جنگ آزادی میں شہادت کے درجے پر فائز ہونے والے ملک کے پہلے صحافی مولوی محمد باقر کے اکلوتے فرزند تھے۔ مولوی باقر کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ شمالی ہندوستان میں شائع ہونے والے اردو کے پہلے اخبار 'دہلی اردو اخبار' کے مالک اور ایڈیٹر تھے۔ اہل وطن کے دلوں میں ملک کی آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے مولوی باقر انگریزی سامراج کے خلاف اپنے اخبار میں مضامین لکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے انگریز حکومت ان سے سخت ناراض رہتی تھی۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے موقع دیکھ کر ایک جھوٹے الزام میں مولوی باقر کو گرفتار کرکے بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔


5 مئی 1830 کو دہلی میں پیدا ہونے والے آزاد کا سلسلہ نسب رسول اللہ کے جید صحابی سلمان فارسی سے جا کر ملتا ہے۔ سلمان فارسی ایمان کے دسویں درجے پر فائز تھے اور ان کے بارے میں رسول اللہ کا یہ قول ان کی فضلیت ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ 'سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں'۔ آزاد کے جد شاہ عالم کے دور حکومت میں ایران کے ہمدان علاقے سے ہجرت کرکے دہلی آئے تھے۔ عربی، فارسی اور سنسکرت کی ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی۔ آزاد کی بقیہ تعلیم دہلی کالج میں ہوئی۔ وہاں انہوں نے آٹھ برس گزارے۔ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے شاعری میں استاد شیخ ابراہیم ذوق مولوی باقر کے قریبی دوست تھے۔ آزاد کا ادبی اور شعری ذوق، ذوق کے سایہ عاطفت میں پروان چڑھا۔ آزاد نے ذوق کی صحبت میں شعر گوئی اور فن عروض میں مہارت حاصل کی۔ وہ ذوق کے ساتھ دہلی کے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے اور اس وقت کے اساتذہ سے کسب فیض کرتے تھے۔ والد کی موجودگی میں آزاد نے'دہلی اردو اخبار' کی ادارت بھی سنبھالی۔

مولوی باقر کی شہادت کے بعد انگریزوں نے ان کا گھر تاراج کر دیا۔ ان کی املاک کو ضبط کرلیا۔ آزاد کے اہل خانہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے کو مجبور ہوگئے۔ کافی عرصہ تک آزاد روپوش رہے۔ کچھ عرصہ لکھنؤ میں اپنے رشتہ داروں کے یہاں گزارا۔ تلاش روز گار میں سرگرداں آزاد کے لئے وہ وقت نہایت کٹھن تھا۔ 1864 میں انہوں نے لاہور کا رخ کیا۔ حصول روزگار کے لئے انہوں نےکافی جد و جہد کی۔ پوسٹ آفس میں عارضی ملازمت بھی کی۔ محکمہ تعلیم میں نوکری بھی کی اور انگریزوں کو اردو بھی پڑھائی۔ حکومت پنجاب نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان سے اردو کی درسی نصابی کتابیں بھی لکھوائیں۔ ان سے اردو کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں 'انجمن پنجاب' کا بانی جی ڈبلو لیٹنر بھی تھا۔ ان کی صلاحتیوں سے متاثر ہو کر اس نے انہیں انجمن پنجاب سے منسلک کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد آزاد انجمن پنجاب کے سکریٹری بنا دیئے گئے۔


آزاد پر جب قسمت مہربان ہوئی تو انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی فارسی پڑھانے کی ذمہ داری مل گئی۔ معاشی حالات بہتر ہوئے تو آزاد کی ادبی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع ملا، انجمن پنجاب کے زیر سایہ جدید نظم کی تحریک شروع ہوئی۔ محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی اس تحریک کے روح رواں تھے۔ انجمن موضوعاتی مشاعروں کا اہتمام کرنے لگی۔ آزاد اور حالی خود بھی موضوعاتی نظمیں کہہ کر مشاعروں میں پڑھتے تھے۔ اس طرح آزاد اور حالی جدید نظم کے موجد قرار پائے۔ انجمن پنجاب اور گورنمنٹ کالج سے وابستگی کا دور ادبی تخلیقی اعتبار سے آزاد کی زندگی کا ذریں دور ہے۔ ان کی بیشتر تخالیق اسی دور میں عالم وجود میں آئیں۔ انہوں نے ایران، بخارا اور کابل کا سفر بھی کیا۔ ان کی سب سے پہلی تصنیف 'قصص الہند' تھی۔ یہ کتاب ہندوستان کے قصوں کہانیوں پر مبنی ہے۔

چار برس کی محنت کے بعد 'آب حیات' کے عنوان سے ان کی جو کتاب وجود میں آئی اس نے تذکرہ نویسی کو ایک نیا اسلوب دیا۔ 'آب حیات' ویسے تو مشاہیر شعرا کے حالات زندگی اور نمونہ کلام پر مبنی کتاب ہے لیکن آزاد نے اس کتاب میں جو اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس نے اس کتاب کو معرکۃ الارا بنا دیا۔ آب حیات میں مصنف نے اردو زبان کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔ اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ برج بھاشا میں جب فارسی داخل ہوئی تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ انہوں نے شعرا کے حالات اور ان کے نمونہ کلام پر بہت دلچسپ انداز میں تبصرے کئے ہیں۔ شعرا کے درمیان ہونے والی ادبی چشمکوں کو دلنشیں انداز میں بیان کیا ہے۔ تذکرہ نویسی کی تاریخ میں یہ کتاب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آب حیات تخلیق کرکے آزاد نے اردو ادب میں جدید طرز کی تذکرہ نگاری کی داغ بیل ڈالی۔ 'آب حیات ' کو پڑھے بغیر کوئی فرد اردو کا اسکالر نہیں بن سکتا۔ یہ اردو کی اعلیٰ تعلیم کے نصاب کا حصہ ہے۔ 1880 میں پہلی بار شائع ہونے والی 'آب حیات' کے اب تک کروڑوں نسخے چھپ چکے ہیں۔ بقول رام بابو سکسینہ' آزاد کی آب حیات سے اردو تنقید کا سہی معیار قائم ہوا۔ حالی کی 'یادگار غالب' کو 'آب حیات' کے مطالعہ کا نتیجہ سمجھنا چاہئے۔''


'آب حیات' کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ معروف اردو اسکالر ناقد اور محقق شمس الرحمان فاروقی نے یہ ترجمہ فراسنیس پریٹ شیٹ کے ساتھ مل کر کیا ہے۔ اردو ادب سے متعلق انگریزی میں دستیاب لٹریچر میں یہ کتاب گراں قدر سرمایہ ہے۔ 'آب حیات' کے بعد ان کی دوسری اہم تصنیف 'نیرنگ خیال' ہے۔ نیرنگ خیال اردو انشا پردازی کا نقش اول ہے۔ آزاد کے اسلوب کی نمایاں شنخت تمثیل نگاری ہے۔ان کی کوئی ادبی تخلیق تمثیل نگاری کے تخیل افروز اسلوب سے خالی نہیں ہے۔ تمثیل نگاری کا بہترین نمونہ 'نیرنگ خیال' ہے۔ 'نیرنگ خیال' کے مضامین انگریزی کے معروف انشا پردازوں کے مضامین سے اخذ شدہ ہیں۔ مگر آزاد نے کمال مہارت سے حالات اور مقامی ماحول کے مطابق ان میں اس طرح تبدیلی کی کہ وہ ان کے ہی طبع زاد مضامین معلوم ہوتے ہیں۔ 'نیرنگ خیال' کی اشاعت سے اردو انشا پردازی میں ایک نئے اور خوشگوار باب کا آغاز ہوا۔ ماہرین ادب کا خیال ہے کہ اگر آزاد 'نیرنگ خیال' کے علاوہ اور کچھ نہ بھی لکھتے تب بھی ان کا شمار اردو کے بلند پایہ انشا پردازوں میں ہوتا۔

مولانا محمد حسین آزاد نے اردو کے مشاہیر شعرا کی طرح فارسی کے مشہور شعرا کا تذکرہ 'سخندان فارس' نامی کتاب میں کیا ہے۔ انہوں نے 'تذکرہ علمائے ہند' بھی تحریر کیا۔ ان کی دیگر تخلیقات میں 'نگارستان فارس'، 'لغت آرزو'، 'مکتوبات آزاد'، 'سیر ایران'، 'سفرنامہ ایشیا' اور 'دربار اکبری' شامل ہیں۔ انہوں نے 'دیوان ذوق' مرتب کرکے ذوق کی شاگردی کا حق بھی ادا کیا۔


جس لاہور میں مولانا محمد حسین آزاد نے ادبی کارنامے انجام دیئے اسی لاہور نے ان کی خبط الحواسی بھی دیکھی۔ ان کی زندگی کے آخری کئی برس جنون اور دیوانگی کی حالت میں گزرے۔ اپنی اہلیہ اور بیٹی کی ناوقت موت کے صدمے سے ان کا دماغی توازن برقرار نہیں رہ سکا تھا۔ انتقال سے چند روز پہلے نواب نوازش علی کے امام باڑے میں محرم کی ایک مجلس میں پہنچے۔ مجلس اس وقت شروع نہیں ہوئی تھی۔ سر پر چکٹ ٹوپی، بدن پر پرانی میلی کچیلی اچکن جس کے آدھے بٹن ٹوٹے ہوئے۔ کثیف پائجامہ۔ ان کو نہ پہچاننے والوں نے انہیں دیکھ کر منہ بنایا۔ ماحول سے بے پرواہ آزاد نے مجلس کے آغاز کا انتظار کئے بغیر سلام پڑھا اور وہاں سے رخصت ہو گئے۔ اس سلام کے کچھ اشعار یہ ہیں۔

اے مجرئی پھرا سرِ سرورؑ کہاں کہاں

قرآں لیے پھرے ہیں ستم گر کہاں کہاں

پھرتا تھا مجرئی سرِ سرورؑ کہاں کہاں

تھا آفتاب حشر سے محشر کہاں کہاں

مشکیزہ بھر کے نہر سے عباسؑ لے بھی آئے

کہتے ہی رہ گئے وہ ستم گر کہاں کہاں

قربان جاؤں دلبر مشکل کشا کے مَیں

مشکل کشائی کرتے ہیں جا کر کہاں کہاں

بندے کو رکھیے اپنی غلامی میں یا امامؑ

آزادؔ ہو کے جائے گا در در کہاں کہاں


اس واقعہ کے چند دن بعد نو محرم الحرام کو ان کا انتقال ہو گیا۔ عیسوی سال 1910 کے فروری ماہ کی وہ 22 تاریخ تھی۔ 11 محرم یعنی 24 جنوری کو کربلا گامے شاہ میں دفن کیا گیا۔ لاہور میں جنازے کے دن عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ ہزاروں لوگ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔

اردو کے اس بلند پایہ صاحب طرز انشا پرداز، ناقد، محقق، صحافی اور شاعر کی زندگی اور ادبی خدمات کے بہت سے گوشے اب بھی تشنہ تحقیق ہیں۔ ابھی اہل اردو پر محمد حسین آزاد کا قرض واجب الادا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔