منفرد طرز کی فکشن نگار صادقہ نواب سحر... جمال عباس فہمی

صادقہ نواب سحر کے اب تک تین ناول، افسانوں کے دو مجموعے، شاعری کے پانچ مجموعے، ڈراموں اور مضامین کا ایک ایک مجموعہ منظر عام پر آچکے ہیں۔

صادقہ نواب سحر
صادقہ نواب سحر
user

جمال عباس فہمی

برصغیر میں اردو ادب کا منظر نامہ فکشن نگاروں سے بھرا پڑا ہے۔ فکشن نگاروں کی بھیڑ میں اگر کوئی قلمکار اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ صادقہ نواب سحر ان ہی فکشن نگاروں میں شامل ہیں جنہوں نے بر صغیر ہند و پاک میں فکشن نگاری کے میدان میں اپنے طرز تحریر کے ذریعے اپنی الگ شناخت بنائی۔ صادقہ نواب فکشن نگاری کے ساتھ ساتھ شاعرہ بھی ہیں۔ اردو میں اب تک ان کے تین ناول، افسانوں کے دو، شاعری کے پانچ مجموعے اور ڈراموں اور مضامین کا ایک ایک مجموعہ منظر عام پر آچکے ہیں۔

صادقہ نواب ہندی میں بھی قلم کے جوہر دکھاتی ہیں۔ ہندی میں ان کے دو ناول، افسانوں کا ایک مجموعہ اور ڈٓرامے اور شاعری کے دو دو مجموعے ہندی داں حلقوں میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے قلم سے برآمد ہوا ایک ناول 'کہانی کوئی سناؤ متاشا' ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے پاکستان میں بھی شائع کیا گیا اور اس کا ہندی، تیلگو اور مراٹھی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ صادقہ نواب سحر کے ادبی قد کا اندازہ لگانے کے لئے یہ امر کافی ہے کہ ان کی کئی قلمی نگارشات نصاب میں شامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور ادبی مرتبے پر متعدد کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات پر کئی اردو اسکالرز نے ایم فل کے مقالے تحریر کئے ہیں۔ پہلو دار شخصیت کی مالکہ صادقہ نواب سحر کی ادبی سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈٓالنے سے پہلے ذرا ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا جائزہ لیتے ہیں۔


صادقہ نواب کا اصل نام صادقہ آرا ہے۔ وہ آندھرا پردیش کے گنٹور میں 8 اپریل 1957 کو پیدا ہوئیں۔ والد خواجہ میاں شیخ بزنس مین تھے۔ صادقہ آرا کو بھرا پورا ادبی ماحول بچپن سے میسر ہوا۔ والد کے ماموں تیلگو قمکار تھے اور 'فرسا' کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ صادقہ نواب کے نانا 'عاشق' کے تخلص سے اردو میں شاعری کرتے تھے۔ گھر میں ادبی اور نیم ادبی رسائل کا ذخیرہ رہتا تھا۔ یہ ماحول صادقہ کی ادبی نشو نما میں معاون ثابت ہوا، حصول تعلیم کے ذوق و شوق کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے اردو، ہندی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ ابتدا میں انہوں نے ممبئی کے برہانی کالج میں اردو لیکچرر کی حیثیت سے درسی خدمات انجام دیں۔ وہ کے ایم سی کالج کھپولی (مہارشٹر ضلع رائے گڑھ) سے ہندی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئیں۔ فی الوقت وہ ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی سے ریسرچ گائڈ کے طور پر وابستہ ہیں۔

ان کا پہلا افسانہ 'بے نام سی خلش' ماہنامہ 'بیسویں صدی' میں 1980 میں شائع ہوا۔ محمد اسلم نواب سے شادی کے بعد صادقہ آرا سحر، صادقہ نواب سحر ہو گئیں۔ شاعری میں نظم ان کی پسندیدہ اور محبوب ترین صنف سخن ہے۔ 1996 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ 'انگاروں کے پھول' شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کو ساحر لدھیانوی اور پروین شاکر ایوارڈ سے نوازہ گیا۔ ان کے شعری مجموعات 'ست رنگی'، 'باوجود'، 'چھوٹی سی یہ دھرتی' اور 'دریا کوئی سویا سا' کو بھی شعری ذوق رکھنے والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ صادقہ نواب نے فکشن کی دنیا میں تہلکہ ’کہانی کوئی سناؤ متاشا' ناول تحریر کے مچایا۔ اس ناول کی فکشن لکھنے اور فکشن پڑھنے والوں نے دل کھول کر پذیرائی کی۔ اس ناول کو پاکستان میں بھی شائع کیا گیا۔ صادقہ نے دو اور ناول' جس دن سے' اور 'راجدیو کی امرائی' بھی تحریر کئے۔ 'خلش بے نام سی' اور' بیچ ندی کا مچھیرا' ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔ 'مکھوٹوں کے درمیان' ان کے تحریر کردہ اردو ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ 'کہانی کوئی سناؤ متاشا' اور 'جس دن سے' ناول ہندی میں بھی شائع ہوئے۔ ہندی افسانوں کے مجموعے 'منت' اور شیشے کا دروازہ' شعری مجموعے 'پتھروں کا شہر' اور پھر کھلے پھول' ڈراموں کے مجموعے 'با ادب با ملاحظہ ہوشیار' اور 'اور گھنگھرو بجتے رہے' کو ہندی قارئین نے کافی پسند کیا۔ انہوں نے مجروح سلطان پوری کے کلام کا ہندی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔


اگر کسی قلکار کی تخلیقات نصابی کتابوں میں شامل ہوں تو یہ ان کے معیاری ہونے کا ثبوت ہے۔ صادقہ نواب سحر کی نظم 'آؤ دعا مانگیں' بال بھارتی کی اردو کی پانچویں درجے کی کتاب 'تعارف اردو' میں شامل ہے۔ مغربی بنگال بورڈ آف سکینڈری ایجو کیشن کی اردو کی دسویں درجے کی نصابی کتاب' 'منتخبات اردو' میں ان کا تحریر کردہ ڈرامہ 'سلطان محمود' شامل ہے۔ آندھرا پردیش کی سری ویکٹیشور یونیورسٹی کے بورڈ آف انٹر میڈیت کی سال دوم کی کتاب 'جوہر ادب' میں ان کا افسانہ میٹر گرتا ہے اور کرناٹک کی اگماہ دیوی ویمن یونیورسٹی کی بی اے کی کتاب 'ادب شناسی' میں صادقہ نواب کا افسانہ 'ستوانسہ' شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی گیان پیٹھ کے ذریعے شائع منتخب افسانوں کی کتاب 'آج کی اردو کہانی' میں ان کا افسانہ 'منت' شامل ہے۔ 'صادقہ نواب سحر شخصیت اور فن۔ فکشن کے تناظر میں' صادقہ نواب سحر کی شخصیت اور فن فکشن کے آئینے میں' اور 'صادقہ نواب سحر شاعری کے تناظر میں' جیسی کتابیں دائرہ تحریر میں لاکر مرتبین نے فکشن کی اس تخلیق کار کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جموں و کشمیر یونورسٹی کے شعبہ اردو کے اسکالر نسیم اختر نے اپنے ایم فل کے مقالے کے لئے صادقہ نواب کے ناول 'کہانی کوئی سناؤ متاشا' کو منتخب کیا۔ پاکستان کی سرگودھا یونیورسٹی، جموں و کشمیر یونیورسٹی، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی، آندھرا پردیش کی سری ویکٹیشور یونیورسٹی، فقیر موہن یونیورسٹی اڈیشہ اور بنگلور کی دکشن بھارت ہندی پرچار سبھا میں صادقہ نواب سحر کی ادبی خدمات، شخصیت اور تخلیقات کے حوالے سے اردو اسکالرز نے مقالے تحریر کئے ہیں۔ راولپنڈی پاکستان کا ادبی جریدہ 'چہار سو' ادبی ماہنامہ 'شاعر' اور سہ ماہی 'اسباق' صادقہ نواب سحر کی شخصیت اور قلمی خدمات پر خصوصی شمارے شائع کر چکا ہے۔

ایک ادیب کے طور پر صادقہ نواب سحر کے پہلو میں بھی ایک درد مند اور حساس دل دھڑکتا ہے۔ وہ سماج میں عورت پر ہونے والے مظالم اور اس کا جنسی استحصال دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہیں۔ ان کا ناول 'کہانی کوئی سناؤ متاشا' جنسی استحصال کی شکار ایک عورت کی اذیت ناک زندگی کا بیان ہے۔ اس عورت کو کم عمری میں اس کے ایک قریبی رشتے دار نے ہوس کا شکار بنایا تھا۔ زندگی بھر وہ عورت اپنے ماضی کی اذیت ناکی کی قید سے باہر نہیں آسکی۔ یہ کہانی ملک کی لاکھوں کروڑوں ستم رسیدہ استحصال شدہ عورتوں کی کربناک داستان ہے۔ صادقہ نواب کے اس معرکۃ الارا ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے اور صادقہ نواب کے انداز تحریر کا لوہا مانئے۔


''آپ کو کیسے معلوم؟ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے انہیں یوراج، بھرت، سمیر اور پربھاکر کے بارے میں بلکہ چٹھی والے سردار کے لڑکے تک کے بارے میں بتا دیا تھا۔ مگر موریشور کاکا کی یاد کو تو جیسے میں نے یادوں کے کولڈ اسٹوریج میں ڈال دیا تھا۔ 'بتاؤ' انہوں نے دہاڑ کر کہا۔ میرا دل دکھی ہو گیا، بتاؤں، کیوں کہ ہم آپ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں۔ میرے دل نے کہا۔ میں نے سب کچھ بتا دیا۔ پہلی بار اس بارے میں بات کرتے ہوئے میرا دل جانے کس کس طرح سے تڑپا تھا۔ میں جیسے دوبارہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہوئے بلاتکار سے تڑپنے لگی تھی۔ یہی تو میں نہیں چاہتی تھی۔''

معروف فکشن نگار اسلم جمشید پوری کے بقول۔ ''صادقہ نواب سحر کا شمار اردو کی ایسی شاعرہ اور فکشن نگار کے طور پر ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تخلیق سے اردو ادب کے قارئین کو چونکایا ہے۔ آپ کی تحریر میں دبے کچلے اور پسمنادہ طبقات کے مسائل کے علاوہ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند ہوتی ہوئی سنائی پڑتی ہے۔''


صادقہ نواب کے متعدد افسانوں میں مراٹھی جملوں کا کافی استعمال ملتا ہے۔ مہاراشٹر کے ساحلی علاقوں کے پس منظر والی کہانیوں میں مراٹھی بولنے والے کرداروں کے مزاج اور ان کے اطوار کی عکاسی کرنے کے لئے انہوں نے مراٹھی زبان اردو ترجمے کے ساتھ استعمال کی ہے۔ لیکن یہ مراٹھی سے نابلد اردو قاری کی طبیعت پر قدرے گراں گزرتا ہے۔ اردو میں مراٹھی پڑھ کر قاری کے پڑھنے کا ریدم متاثر ہوتا ہے۔ ان کے افسانے 'پیج ندی کا مچھیرا' کا یہ اقتباس پڑھئے۔

’’آج ماجھیا گھری بکریا چا مٹن شِجیل!“(آج میرے گھر میں بکرے کا مانس پکے گا!) بارود پھینکتے ہوئے وہ بڑبڑا رہا تھا۔

پانی کی لہروں میں پَھٹ پَھٹ کی آواز کے ساتھ ڈھیر ساری مچھلیاں اچھلیں اور پانی کی سطح پر مَری ہوئی مچھلیاں دکھائی دینے لگیں۔ اس نے جُھک کر کچھ مچھلیوں کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور چلّایا۔”ایکلا تُمہی ماشیان نو! آج ماجھیا گھری بکریا چا مٹن شِجیل!“ (سنو مچھلیوں! آج میرے گھر میں بکرے کا مانس پکے گا!)


چلتے چلتے صادقہ نواب کی ایک نظم ' باوجود' کو پڑھ کر ان کی فکر کی جولانیوں کا اندازہ لگائیے۔

مرا سوال دوسرا تھا تم نے کیا سمجھ لیا

میں آرزو کے محل کی مسحور اک پری سی تھی

جس کی چال میں لچک تھی جس کے ہونٹ پہ ہنسی...

تم آرزو کے محل کی دیوار سے لگے ہوئے

کھڑے تھے میری زندگی کی ڈور سے جُڑے ہوئے

میں آنکھ بھر کے دیکھتی تمہیں

تو پوچھتی کہ تم نے ڈور کیوں ہے تھام لی

مگر نظر جو آئے تم تو آنکھ کب اُٹھی مِری...؟

جھکی نظر سے میں نے یہ کہا کہ میں وجود ہوں

تمہاری زندگی کی اُلجھنوں کے باوجود ہوں

میں آرزو کے محل کی مسحور اک پری سی تھی

تمہارے لوہے کے محل کی زنگ سے بھری ہوئی

رنگ کا غلاف اوڑھے شان سے تنی ہوئی

گلی میں مجھ کو چھوڑ کر

وجود کی تلاش میں نکل نہ جاؤ تم کہیں....!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔