ترنگے میں لپٹی دیش بھکتی!... اعظم شہاب

پوری دنیا میں حب الوطنی کا جذبہ غالباً اتنا سستا کہیں نہیں ہوگا کہ محض قومی پرچم لہرا کر ملک سے محبت کا سرٹیفکٹ حاصل کرلیا جائے۔

اسکولی بچے قومی پرچم لہراتے ہوئے
اسکولی بچے قومی پرچم لہراتے ہوئے
user

اعظم شہاب

آزادی کی 75ویں سالگرہ کا جشن مناتے ہوئے ہم جیسے بہتوں کو آج اس بات کی فکر دامن گیر ہوگی کہ کہیں ہماری کسی کوتاہی سے ہمارا جذبہ حب الوطنی مشکوک ہوکر نہ رہ جائے۔ حکومت نے ہر گھر ترنگا لہرانے کا حکم دے کر ہمارے اس خالص اندرونی جذبے کو امتحان میں ڈال دیا ہے کہ ہم اس کی نمائش کرکے خود کو دیش بھکت ثابت کریں۔ پوری دنیا میں حب الوطنی کا جذبہ غالباً اتنا سستا کہیں نہیں ہوگا کہ محض قومی پرچم لہرا کر ملک سے محبت کا سرٹیفکٹ حاصل کرلیا جائے۔ اس لیے ہم آزادی کے اس امرت مہوتسو کو دیش بھکتی ناپنے کے ایک پیمانے کے طور پر محسوس کرتے ہیں۔ یوں بھی اتراکھنڈ بی جے پی کے صدر مہندر بھٹ کا یہ اعلان ہم تک پہنچ ہی گیا ہے کہ جس گھر پر ترنگا لہراتا نظر نہیں آئے گا اس گھر کو وشواس کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا۔ اب ہم اتنے بھی بھولے نہیں ہیں کہ وشواس کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ بھٹ صاحب نے یہ بات خود اپنے طور پر تو کہی نہیں ہوگی کہ ان کے اعلان کو ہم ان کی ذاتی رائے قرار دے دیں، کیونکہ اس کے بعد بی جے پی کے کسی بڑے لیڈر نے اس کی تردید بھی نہیں کی۔ سو ہم بھی ملک کے ان 80 کروڑ لوگوں کی مانند جو دو وقت کی روزی روٹی کے لیے حکومت کی پردھان منتری غریب کلیان اَنّ یوجنا کے ذریعے ملنے والے راشن کے محتاج ہیں، اپنے گھر پر تر نگا لہرا نے کا فریضہ بخوشی ادا کر رہے ہیں۔

ہر گھر پر ترنگا لہرانے کا تاریخی فیصلہ ہمارے پردھان سیوک نے کیا ہے۔ یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے پردھان سیوک جی کا نہیں بلکہ مرکزی حکومت کا فیصلہ ہے۔ لیکن یہ اعتراض کرنے سے قبل اگر وزیر داخلہ امت شاہ سے لے کر کھیل کود کے وزیر انوراگ ٹھاکر تک اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے لے کر جیوترادتیہ سندھیا تک کے ان بیانات کو پیشِ نظر رکھ لیا جائے جس میں انہوں نے آزادی کا امرت مہوتسو کا پورا سہرا پردھان سیوک کو دیا ہے تو یہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوگا۔ پھر بھی اگر کسی صاحب تک ان ’آدرنیہ‘ لیڈروں کے بیانات نہ پہنچے ہوں تو انہیں یوٹیوب چینل نیوزلانڈری پر اتل چورسیا کی ویڈیو ’امرت مہوتسو میں ڈوبا پروپیگنڈہ...“ والی ویڈیو ضرور دیکھ لینی چاہئے۔ یوں بھی ملک میں فی الوقت امرت کال چل رہا ہے اور امرت کال میں امرت مہوتسو ہی ہونا چاہئے۔ پہلے تو اعلان کیا گیا تھا کہ حکومت ملک کے 24 کروڑ گھروں پر ترنگا لہرانے کے لیے مفت ترنگا فراہم بھی کرے گی، لیکن جب راشن کارڈ پر راشن دینے والے دوکانداروں کی جانب سے 20روپئے کا ترنگا خریدنے کی شرط کی خبریں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ یہ 24 کروڑ ترنگے امرت کال میں جینے اور اپنے دیش بھکتی کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے ٹیکس کے طور پر ہیں۔


ترنگا ہمارا قومی پرچم ہے اور قومی پرچم کا احترام ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہونا چاہئے۔ لیکن اس عزیز ازجان کے لیے زندگی بھی ضروری ہے جو اتفاق سے دیش بھکتی سے کہیں زیادہ سستی ہوچکی ہے۔ قومی پرچم اگر ملک کے جوش وجذبے اور عزت وقار کی علامت ہے تو وہیں اس کو ناانصافی ومحرومی کا مخالف بھی تصور کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ ملک ایک جغرافیائی حد بندی کا نام نہیں بلکہ وہ لوگوں کی قربانیوں اور خوابوں کی تعبیر کی علامت بھی ہے۔ اگر اس علامت میں کسی قسم کی خرابی پیدا ہوتی ہے تو یقینا ملک ناانصافی ومحرومی کا شکار ہوگا اور پھر ایسی صورت میں ہمارے قومی پرچم کا احترام اس بات کا متقاضی ہوگا کہ اس ناانصافی ومحرومی سے ملک کو آزاد کرایا جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ اس لیے دیش بھکتی کا شارٹ کٹ پیمانہ ایجاد کرلیا گیا ہے اور اس پیمانے پر پہلے خود کو ملک ثابت کیا گیا اور اب ملک کے لوگوں کی دیش بھکتی ناپنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس رجحان نے کس قدر خطرناک رخ اختیار کرلیا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج ملک کی تقریباً ہر سیاسی پارٹی اسی پیمانے پر اپنی دیش بھکتی ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بی جے پی اگر ہر گھر ترنگا لہروا رہی ہے تو کانگریس آزادی گورو یاترا نکال رہی ہے تو وہیں اروند کیجریوال ہر ہاتھ ترنگا کا ڈنکا بجائے ہوئے ہیں۔

لیکن ان معروضات سے قطع نظر اگر ہم ہرترنگا کی اس مہم پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالیں تو بھی اس کا تصنع کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ترنگا کے لیے کھادی، اون اور ہاتھ سے بنے ہونے کی شرط ہٹاکر پولیسٹر ومشین سے تیاری کی اجازت دیدی گئی۔ اس ضمن میں کانگریس کے اس الزام سے پرے کہ پولسٹر کے یہ ترنگے چین سے برآمد کئے گئے ہیں، ایک اور پہلو پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ ملک میں پولیسٹرکے کپڑے بنانے کا سب سے بڑا پلانٹ مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس کے پاس ہے جو مہاراشٹر کے پاتال گنگا میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریلائنس کے پاس پولسٹر کپڑوں کا بہت بڑا اسٹاک جمع ہوگیا تھا جو اس ترنگا مہم میں کام آیا ہے۔ ٹی ایم سی کے ترجمان ساکیت گوکھلے نے 20 جولائی کو ہی اس ضمن میں ایک ٹوئٹ کرکے اپنے شک کا اظہار کردیا تھا۔ اگر اس خبر میں کچھ بھی صداقت ہے تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہر گھرترنگا کی یہ مہم ’متروں‘ کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ ترنگا تیار کرنے کے لیے جن 9 ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دیئے گئے تھے ان میں سے 5 بڑے ٹھیکیدار تو گجرات کے ہیں۔


آدتیہ برلاگروپ کو ایک کروڑ ترنگے تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا، خبر یہ ہے کہ یہ ترنگے بھی گجرات میں ہی تیار ہوئے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ترنگا مہم گجرات اسمبلی انتخابات کے پیشِ نظر ہے؟ کیونکہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ گجرات ہمارے پردھان سیوک اور وزیر داخلہ صاحب کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے ترنگا تیار کرنے کا سب سے زیادہ ٹھیکہ گجرات کو دیا گیا ہے۔ یوں بھی گجرات وہماچل پردیش کے انتخابات تو اسی سال کے اواخر میں ہیں۔ ترنگا تیار کرنے کے زیادہ تر ٹھیکے گجرات کو دیئے جانے سے کہیں نہ کہیں یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ یہ صرف گجرات کو جیتنے کے لیے ہے۔

یہاں کچھ لوگ اعتراض بھی کرسکتے ہیں کہ ایسے موقع پر جب کہ ہمارا ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، قومی پرچم لہرانے میں آخر کیا قباحت ہے؟ تو یقیناً اس میں کوئی قباحت نہیں، لیکن ایسے وقت میں جبکہ ملک مہنگائی، بیروزگاری اور معیشت کی تباہی سے کراہ رہا ہے، اپوزیشن مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، دیش بھکتی کے مقدس جذبے کو بھی سیاسی مفاد کے تحت استعمال کیا جانے لگے تو اس پر سوال ضرور پیدا ہو جاتے ہیں۔ پھرمسئلہ یہ بھی ہے کہ 3 روز تک ہر گھر پر ترنگا لہرانے کے بعد ان ترنگوں کا کیا ہوگا؟ کیونکہ 24 کروڑ ترنگوں کا عزت واحترام کے ساتھ محفوظ یا ضائع کرنا آسان کام تو ہوگا نہیں۔ اس میں کہیں نہ کہیں بے حرمتی کا پہلو سامنے آئے گا اور پھر اس کی بنیاد پر کارروائیاں بھی ہوں گی؟ ایسی صورت میں کیا اس خدشے سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ان کارروائیوں کی زد میں وہ لوگ زیادہ نہیں آئیں گے جو حکومت مخالف ہیں؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔