مودی سرکار پر مہنگائی کی مار...اعظم شہاب

بہت ہوئی مہنگائی کی مارکے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والی پردھان سیوک کی حکومت پر اب یہی مہنگائی کی مار الٹی پڑنے لگی ہے

وزیر اعظم نریندر مودی / ویڈیو گریب
وزیر اعظم نریندر مودی / ویڈیو گریب
user

اعظم شہاب

اب ہم اسے اپنے وزیرداخلہ صاحب کا خوف قراردیں یا مجبوری کہ انہوں نے مہنگائی،بیروزگاری اورمرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال کے خلاف کانگریس کے ملک گیراحتجاج کو رام مندرمخالف یامسلمانوں کی منھ بھرائی قراردیدی۔ چونکہ ان کی سیاست ہمیشہ ہندومسلم اورمندرومسجد کے گردی ہی گھومتی رہتی ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ انہوں نے کانگریس کے احتجاج میں بھی وہی پہلوتلاش کرلیا۔لیکن اس بات سے شایدوہ بھی انکار نہ کرسکیں کہ اس احتجاج نے نہ صرف ان کی حکومت کے پسینے چھڑا دیئے بلکہ جو لوگ اپوزیشن کی مجہولیت کے شاکی تھے ان کی آوازوں میں بھی تبدیلی پیداکردی ہے۔ بہتوں کو تویہ تک کہتے سناجارہا ہے کہ اسی قوت کے ساتھ اگر کچھ وقت پہلے کانگریس سڑکوں پر اتری ہوتی تو مرکزی حکومت کی منھ زوری پر کچھ لگام ضرور لگ گئی ہوتی۔لیکن دیرآید درست آید، کم ازکم کانگریس کی سمجھ میں یہ بات تو آئی کہ پوری طاقت کے ساتھ بغیر سڑکوں پر اترے مودی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں اور گودی میڈیا کے چہرے سے نقاب نہیں اتاراجاسکتا۔

کانگریس کے بہ یک وقت پورے ملک میں سڑکوں پر اترنے اورراہل وپرینکا کے ساتھ اس کے کئی سرکردہ لیڈروں کے گرفتاریاں دینے سے کانگریس میں ایک ایسی امنگ نظر آنے لگی ہے جو برسوں تک ریاستی وعلاقائی احتجاج کے باوجود نظر نہیں آیا تھا۔ورنہ ابھی تک ہوتا تو یہ رہا ہے کہ کسی ایک موضوع پر کبھی راجستھان میں احتجاج ہورہاہے تو کبھی مہاراشٹر وچھتیس گڑھ میں۔کبھی راہل گاندھی کسانوں کے حق میں آواز اٹھاتے تھے توکبھی پرینکاگاندھی اترپردیش میں خواتین پر مظالم پر دھرنا دیتی تھیں۔قومی میڈیا جسے اب لوگ باگ گودی میڈیا کے نام سے جانتے ہیں، وہ اول تو کانگریس کے اس طرح کے جزوی احتجاج وتحریک کا نوٹس نہیں لیتاتھا یا اگر لیتا بھی تھا تو اسی کے ساتھ کانگریس میں مرکزیت کے فقدان اور آپسی انتشارکا لاحقہ بھی لگادیا کرتاتھا۔لیکن یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ پوری کانگریس اپنی مکمل اجتماعی قوت کے ساتھ مہنگائی وبیروزگاری کے خلاف ایک ساتھ میدان میں اتری اور گودی میڈیامیں آج ۳ روز بعد بھی اس کی گونج سنی جارہی ہے۔اس کا اگر نصف تاثربھی 2024 تک برقراررہ گیا تو چارسوپار کا نعرہ لگانے والوں کے لیے مشکل ضرور پیدا ہوجائے گی۔


وزیرداخلہ کی جانب سے کانگریس کے احتجاج کو شیلانیاس اور مسلمانوں کی منھ بھرائی کی کوشش قراردینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مہنگائی وبیروزگاری پر ان کے پاس نہ کہنے کے لیے کچھ ہے اور نہ کرنے کے لیے۔ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ جب گزشتہ ۸ سالوں میں ساڑھے 22کروڑ لوگوں نے ملازمت کے لیے درخواستیں دیں تو ان میں سے محض ۷لاکھ ۲۲ہزار کو ہی کیوں ملازمت ملی؟ جبکہ صرف مرکزی حکومت کے ماتحت محکموں میں ملازمت کی کروڑوں اسامیاں خالی ہیں۔دوماہ قبل بلی کے بھاگوں چھینکاتوڑتے ہوئے پردھان سیوک نے اعلان فرمایا تھا کہ اگلے ڈیڑھ سال میں 10؍لاکھ ملازمتیں دی جائیں گی۔لیکن یہ ڈیڑھ سال اور 10؍لاکھ کا ہندسہ کتنا جان لیوا ہے،یہ ان نوجوانوں سے پوچھاجانا چاہئے جنھوں نے سالانہ دو کروڑ ملازمتوں کے وعدے پر مودی جی کو پردھان سیوک بنادیا تھا۔ اور صرف ملازمتیں ہی کیا؟ پردھان سیوک کا تو نعرہ ہی یہی تھا کہ بہت ہوئی مہنگائی کی مار، اب کی بار مودی سرکار۔ مودی سرکار تو آگئی اور اپنے پورے طنطنے کے ساتھ آئی، لیکن اس نے مہنگائی کی ڈائن ملک کی خادمہ بنادیا۔ پٹرول، ڈیژل اور گھریلوگیس سیلنڈر میں چندروپئے کے اضافے پر دہلی کی سڑکوں پر اسمرتی ایرانی، راجناتھ سنگھ اور آنجہانی ارون جیٹلی وغیرہ کے ڈرامے کے مناظر تو ابھی بھی سوشل میڈیا پرگردش کرجاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر دلچسپ یہ کہ یہی لوگ آج پٹرول وڈیژل کی قیمتیں سوروپئے سے زائد ہوجانے پر اس کی تاویلیں پیش کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے دو سال قبل رام مندر کا شیلانیاس کیا گیا تھااورآج دوسال بعد انہیں مسائل کے خلاف اپوزیشن جب عوام کی آواز بن کر سڑکوں پر اترا ہے تو اسے شیلانیاس اور مسلمانوں کی منھ بھرائی کی کوشش کوشش قراردی جارہی ہے۔عجیب اندھیرنگری ہے۔ امیت شاہ صاحب کا یہ کہنا کہ”کانگریس مندرکی تعمیرکی مخالفت کررہی ہے اور ای ڈی کی کارروائی ومہنگائی کے موضوع تومحض بہانہ ہیں“ اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ مہنگائی،بیروزگاری ومرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال پر ہرقسم کی جوابدہی سے بچنا چاہتے ہیں اور وہ عوام کی توجہ ایک بار پھر رام مندر اور مسلمانوں کے خلاف موڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔اپنے اسی بیان میں وہ اس بات کا بھی اعتراف کررہے ہیں کہ ان کے اوران کی حکومت کے پاس عوام کو درپیش ان مسائل کے حل کی نہ خواہش ہے اور نہ قابلیت، اگرایسا نہیں ہوتا تو وہ بھوکے پیٹ عوام کو بھجن سنانے کے بجائے ان کے پیٹ کا مسئلہ حل کرنے پر توجہ دیتے۔


مہنگائی وبیروزگاری کے خلاف کانگریس مسلسل احتجاج کررہی ہے۔ شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہو جب راہل گاندھی کی قیادت میں دہلی میں کانگریسی کارکنان احتجاج نہ کرتے ہوں۔ لیکن مرکزی حکومت اور گودی میڈیا نے اس کو کبھی لائق اعتناء نہیں سمجھا۔ اب جبکہ کانگریس نے ایک ساتھ ملک گیر احتجاج کیا اور اس احتجاج میں عوام کی آواز بھی شامل ہوگئی تو اندازہ ہوا کہ زمین واقعی کھسک رہی ہے اورآتم نربھر تا کی جو ڈگڈگی بجائی جارہی وہ اب اپنا اثرکھورہی ہے۔ ملک میں بڑھتی بیروزگاری سے متعلق راہل گاندھی نے گزشتہ سال ایک ٹوویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”ملک کا’وکاس‘ کرکے ملک کو ایک ’آتم نربھر‘ اندھیرنگری بنادیا گیا ہے“۔ ان کے اس ٹوویٹ پر دوروپیہ والوں نے خوب ٹرول بھی کیا تھا۔ لیکن آج جب بیروزگاری کی شرح 2.4 فیصد بڑھ کر 19.3 فیصد ہو گئی ہے تو ان ٹرولوں کی سمجھ میں آرہا ہے راہل گاندھی نے ایک سال قبل جو باتیں کہی تھیں وہ کس طرح حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں۔بہت ہوئی مہنگائی کی مارکے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والی پردھان سیوک کی حکومت پر اب یہی مہنگائی کی مار الٹی پڑنے لگی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */