ترقی و خوشحالی کی نوید لئے کب طلوع ہوگا سورج؟

اتنی بھکمری اور غربت کے بعد کیوں ہمارے کسی حکمراں کو اس بات کی فکر نہیں کہ ملک کے عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہماری یہ حالت ہو گئی کہ پڑوسی ممالک ہم سے بہتر حالت میں ہیں؟

<div class="paragraphs"><p>تصویر یو این آئی</p></div>

تصویر یو این آئی

user

نواب علی اختر

رخصت ہوا سال برادران وطن کو ناامیدی، عدم تحفظ، بے چارگی، غربت، پسماندگی اور ذہنی اذیتوں کے سوا کچھ نہ دے پایا۔ غم و اندوہ میں ڈوبے اور حسرت و یاس کی تصویر بنے مجبور و بے بس عوام یہ سوال کرتے دکھائی دیئے کہ آخر وطن عزیز سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، قتل و غارت، فتنہ و فساد کے عذاب کا خاتمہ کب ہوگا، مسائل میں گھرے عوام کو خط غربت سے بھی نیچے گزاری جانے والی دردناک زندگی سے آزادی کب ملے گی، کب عوام دوست پالیسیاں مرتب کی جائیں گی، ان کی امیدوں کی برآوری، ان کی مشکلات کے خاتمے اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی نوید لئے سورج کب طلوع ہوگا؟ اور کب عوام کو مساوی اور یکساں حقوق کی فراہمی کے ساتھ انصاف میسر ہوگا؟

اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو عوام کو پریشان کر رہے ہیں مگر حکومت اپنی ہی دُھن میں مگن ہے۔ یاد رہے غربت، بھکمری و افلاس کی جونک جس معاشرے کو چپک جائے اس کا خون چوس کر بے سدھ کر دیتی ہے، یہ وہ مصیبت ہے جس سے آسانی سے چھٹکارا ممکن نہیں، وہ آفت ہے جو انسان کی صلاحیتوں کی فصل کو تباہ کر دیتی ہے، اسی لیے آج ہر صاحب فکر و شعور اس بات کا قائل ہے کہ ہر معاشرے کی بڑی اور بنیادی مشکل غربت ہے، یہ وہ مرض ہے جو تیسری دنیا کے زیادہ تر معاشروں میں دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس بیماری کا علاج اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس کی علت و محرکات کا پتہ نہ چل جائے۔ صحیح مرض کی تشخیص بیماری کے علاج میں بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔


وطن عزیز میں غربت کی صورتحال کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہوگیا ہے کیونکہ بھکمری و افلاس سے متعلق حالیہ جو اعداد و شمار آئے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ حکمرانوں کے حرکات وسکنات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ درد عوام کو ہے اور اس کا علاج بھی عوام کو ہی کرنا ہوگا، حکومت سے کسی طرح کی امید کرنا عبث ہے۔ ایسی صورت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں تو اس کی راہ میں خرچ کریں۔ اس کا ایک راستہ ضرورت مندوں کی مدد ہے، ان غربا کی مدد ہے جو راہ خدا پر گامزن ہیں لیکن دنیاوی مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر ہم کسی کی مشکل کو حل کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو ایسا ہی ہے جیسے انسان صفا و مروہ کے درمیان سعی کر رہا ہو۔

غربت و افلاس کی جتنی ہمارے دین میں مذمت کی گئی ہے اور جس قدر اس سے مقابلے کی تاکید ہے شاید ہی کسی مکتب میں ہو لیکن افسوس آج ہمارے ملک میں غربت کی جو صورتحال ہے وہ بھی ایسی ہے جو شاید ہی اتنی بڑی اقتصادی طاقت کے حامل کسی ملک میں ہو جسے دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 2022 ء کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کے لیے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ان کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان 121 ممالک میں سے 107 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان،افغانستان کو چھوڑ کر جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک سے کم غذائیت کا حامل ملک ہے جبکہ تمام پڑوسی ممالک اس معاملہ میں ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔


 گلوبل ہنگر انڈیکس اسکور کو چار ڈیٹا پوائنٹس کا استعمال کرتے ہوئے شمار کیا جاتا ہے تاکہ کسی ملک میں غذائیت کی صورتحال کا شمار کرکے اس کے خلاف اقدامات تجویز کئے جاسکیں۔ ان چار پوائنٹ میں سب سے پہلے غذائیت کی وسعت کو دیکھا جاتا ہے جسے ہم غذائیت کا پھیلاؤ کہہ سکتے ہیں (آبادی کا وہ حصہ جس کو غذا مکمل نہیں ملتی ) پھر بچوں کے وزن کے لحاظ سے ان کی کمی کو جانچا جاتا ہے (پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا وہ حصہ جن کے قد کے لحاظ سے ان کا وزن کم ہے) پھر بچوں کی نشوونما کو دیکھا جاتا ہے (پانچ سال سے کم عمر کے بچے) ان کی عمر کے لحاظ سے کم اونچائی) اور پھر بچوں کی اموات کو دیکھا جاتا ہے (پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات) وغیرہ اہم ہوتے ہیں۔

یہ اعداد و شمار زیادہ تر بچوں کی صحت کے ایک پیمانہ کے طور پر کام کرتے ہیں، جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہندوستانی بچے اور خاص کر چھوٹے بچے خطرناک حد تک غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جیسا کہ رپورٹ بتاتی ہے، ہندوستان میں بچوں کے کمال تک نہ پہنچ کر ضائع ہو جانے اور ان کی بربادی کی شرح 19.3 فیصد، دنیا کے کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں اس وقت بچوں کے ضائع ہونے کی شرح دو دہائیوں پہلے کے اعداد و شمار سے بھی بدتر ہے اور 2013-15 کے مقابلے آج زیادہ برادران وطن غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ اعداد شمار ہیں دوسری طرف حکومت نے اس رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اس کے طریقہ کار کو غلط قرار دیا ہے۔


غور سے دیکھا جائے تو حکومت کی جانب سے اکثر ایسا ہی رد عمل سامنے آتا ہے جبکہ کھانے کا حق، ٹیکہ کاری اور صحت عامہ کی ماہر دیپا سنہا نے اس سے قبل 2021 میں نشاندہی کی تھی اور کہا تھا کہ حکومت کے اعتراضات حقیقت پر مبنی نہیں تھے اور واضح کیا تھا کہ اعداد و شمار میں استعمال شدہ تمام ڈیٹا متعلقہ ریاستی حکومتوں کے سرکاری ڈیٹا ذرائع سے ماخوذ ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے اس بات کو بیان کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ اتنی بھکمری اور افلاس و غربت کے بعد کیوں ہمارے کسی حکمراں کو اس بات کی فکر نہیں کہ ملک کے عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہماری یہ حالت ہو گئی کہ پڑوسی بنگلا دیش و سری لنکا حتی کہ پاکستان ہم سے بہتر حالت میں ہیں، کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے؟

اگر یہ غلط ہے اور ہمیں اس بات پر افسوس ہے تو ہم سب کو اس سلسلہ سے چارہ جوئی کرنے کی ضرورت ہے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ایک تو قومی و ملکی ذمہ داری ہے دوسرے ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ ہمارا دین ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اس ملک کے عوام کے لیے فکر مند ہوں جس کے ہم باشندے ہیں، لہذا ہم سبھی اس مسئلہ کو لیکر سنجیدہ غوروفکر کریں اور راہ حل تلاش کریں امید ہے کہ ایک دن یہ غربت کا منحوس دیو ہمارے ملک سے باہر نکل جائے گا اور ہندوستانی عوام اس طرح سے عزت کے ساتھ زندگی گزاریں گے جو ان کا حق ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔