حضرت فاطمہؑ کی سیرت خواتین کے لیے مشعل راہ...نواب علی اختر

آج کے دور میں مسلم خواتین دعویدار ہیں کہ ہم پیرو حضرت زہرا ؑ ہیں، اگر حضرت فاطمہ ؑ کی پیروکار ہونے کا دعوا کرتی ہیں تو ان کی سیرت پر عمل بھی کرنا چاہیے

فاطمہ زہرا
فاطمہ زہرا
user

نواب علی اختر

محمد و آل محمد کے گھرانے کے تمام معصومین ایک الہٰی تسبیح کے عبودیت سے معمور دانے یا ایک ہی مقدس آفتاب کی نورانی کرنیں یا ایک قدسی گلستان کے پاکیزہ پھول ہیں مگرافسوس کہ اسی گلستان کا ایک پھول وہ فاطمہؑ جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے ،رسول کے جانے کے بعد اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔ پیغمبر اسلام کے فراق میں حضرت زہرا ؑکا رنج و غم اتنا زیادہ تھا کہ جب بھی پیغمبر اسلام کی کوئی نشانی دیکھتیں گریہ کرنے لگتی تھیں اور بے حال ہوجاتی تھیں۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب سیدہ عالم ؑ نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3 ماہ بعد تیسری جمادی الثانی سن 11 ہجری قمری میں وفات پائی۔

دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا ؑ نے شادی کے بعد جس نظام زندگی کا نمونہ پیش کیا، وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ، لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔

حضرت فاطمہ زہراؑ آسمان انسانیت پر آفتاب کی مانند ضو فشاں ہیں، خواتین میں کوئی بھی ان سے بلند و برتر نہیں ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ ؑ کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ’انا اعطیناک الکوثر‘ کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں۔

اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے پر فخر کیا جاتا تھا اور خواتین پر ظلم کو اپنے لیے شرف شمار کیا جاتا تھا۔ ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لیے قرآن مجید نہیں کہتا ’خیر‘ بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی’خیر کثیر‘۔ جناب سیدہ زہراءرہتی دنیا تک کے لیے بہترین سیرت چھوڑ گئیں۔حضرت زہرا ؑ، حضرت امیر المومنین علی ؑ سے شادی کے بعد پوری دنیا میں نمونہ خاتون کی حیثیت سے افق عالم پر چمکیں، پیغمبر اکرم کی دختر گرامی جس طرح ازواج کے مراحل میں سب کے لئے نمونہ اور اسوہ عمل تھیں، اسی طرح اپنے پروردگار کی اطاعت میں بھی نمونہ تھیں۔ جب آپ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تھیں تو عبادت میں مشغول ہو جاتی تھیں۔


حضرت زہرا ؑ رات کے ایک حصہ میں عبادت میں مشغول رہتی تھیں، آپ کی نماز شب اس قدر لمبی ہو جاتی تھی کہ آپ کے پاہائے اقدس متورم ہو جاتے تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ اس امت کے درمیان کوئی بھی زہد و عبادت اور تقویٰ میں حضرت فاطمہ زہرا ؑسے زیادہ نہیں تھا۔معصومہ عالم ؑنے شروع ہی سے وحی الٰہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا ، جن اسرار و رموز کو پیغمبر اکرم حضرت فاطمہ زہرا کے لیے بیان فرماتے تھے، حضرت علی ؑ ان کو تحریر فرماتے اور حضرت فاطمہ ؑ ان کو جمع فرماتیں، جو مصحف فاطمہ کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع ہوگئی۔ حضرت زہرا ؑ جوانی کے ایام میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

اس لئے آپ ؑ کے علمی آثار بہت کم ہم تک پہنچے ہیں لیکن خوش قسمتی سے انکا ایک طولانی اور مفصل خطاب تاریخ میں ثبت ہوا ہے، جسے صرف اہل تشیع نے ہی نقل نہیں کیا بلکہ بغدادی نے تیسری صدی میں اسے نقل کیا ہے۔ یہی ایک خطبہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمان عورت خود کو شرعی حدود میں رکھتے ہوئے اور غیروں کے سامنے خود نمائی کئے بغیر معاشرہ کے مسائل میں کس قدر داخل ہو سکتی ہے۔

حضرت فاطمہ ؑ احکام اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے عورتوں کو ان کی ذمہ داری سے آشنا کراتیں۔ آپ کی کنیز اور شاگردہ فضہ 20 سال تک قرآن کی زبان میں کلام کرتی رہی اور جب بھی وہ کوئی بات کہنا چاہتی تو قرآن کی آیت کے ذریعے اپنی بات کو بیان کرتیں۔ حضرت فاطمہ ؑ نہ یہ کہ صرف علم حاصل کرنے سے نہ تھکتی تھیں بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سکھانے میں حوصلہ، ہمت اور پیہم کوشش کرتی رہتی تھیں۔

پیغمبر اکرم کی 10سالہ حکومت میں 27 یا 28 غزوہ1 اور 35 سے90 تک سریہ2 تاریخ میں ذکر ہوئے ہیں۔ حضرت علی ؑ نے حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے ساتھ مشترکہ زندگی اکثر و بیشتر میدان جنگ یا تبلیغ میں گذاری اور آپ کی غیر موجودگی میں حضرت فاطمہ ؑ گھر کی ذمہ داری اور بچوں کی تربیت میں مشغول رہتیں، آپ اس کام کو اس طرح انجام دیتی تھیں کہ آپ کے مرد مجاہد، شوہر نامدار اچھی طرح سے جہاد کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے اور پھر آپ اس عرصہ میں شہیدوں کی عورتوں اور بچوں کی مدد فرماتیں، ان سے ہمدردی کا اظہار کرتیں اور کبھی کبھی مدد کرنے والی عورتوں کی تشویق کے لیے اور ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے اپنے محرم افراد کے زخموں کا مداوا کرتیں۔


جنگ احد میں حضرت فاطمہ ؑ عورتوں کے ساتھ احد کے میدان (احد، مدینہ سے 6 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) میں گئیں اس جنگ میں پیغمبر اکرم بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور حضرت علی ؑ کے جسم اقدس پر بھی بہت زیادہ زخم لگے تھے۔ حضرت فاطمہ ؑ پیغمبر اکرم کے چہرہ سے خون صاف کرتی تھیں۔ سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں۔ آپ کا مکان مسجد رسول سے بالکل متصل تھا لیکن آپ کبھی برقعہ و چادر میں نہاں ہو کر بھی اپنے والد بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا آپ کا وعظ سننے کے کیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں، بلکہ اپنے فرزند امام حسن ؑ سے جب وہ مسجد سے واپس جاتے تھے، اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے، یہ بات سیدہ ؑکو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا، کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔ آپ کی سیرت خواتین کے لیے مشعل راہ ہے، آج کی عورت اگر آپ کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ بنا لے تو اس وقت خواتین جن مشکلات میں گرفتار ہیں، وہ برطرف ہو جائیں گے۔ آج کے دور میں مسلم خواتین دعویدار ہیں کہ ہم پیرو حضرت زہرا ؑ ہیں، اگر حضرت فاطمہ ؑ کی پیروکار ہونے کا دعوا کرتی ہیں تو ان کی سیرت پر عمل بھی کرنا چاہیے۔

حضرت زہرا ؑ نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی اور اپنے حق کے لیے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی۔ عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے حجاب اسلامی میں رہ کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کرے۔آجکل باحجاب خواتین کی بھی مختلف قسمیں ہیں، کچھ وہ کہ جو حجاب واقعی کرتی ہیں اور ان کا یہ حجاب تمام غیر محرموں سے ہے اور یہی حجاب اسلام کو مطلوب ہے، کچھ ایسی بھی ہیں، جو صرف سر پر اسکارف لینے کو حجاب کامل سمجھ لیتی ہیں، اس کے ساتھ میک اپ بھی ہے، نامحرموں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو رہی ہے، شاید اس فارمولے کے تحت کہ مسلمان سب بہن بھائی ہیں، یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت سننے کو ملتا ہے،حالانکہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں، عورت کے لیے جس کو خدا نے نامحرم قرار دیا ہے، وہ اسکے لئے نامحرم ہے۔

خدا نے عورت کو نامحرم سے بات کرنے سے منع نہیں کیاہے لیکن اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ روایت میں ملتا ہے کہ عورت کو چاہئے کہ نامحرم سے نرم و زیبا لہجے میں بات نہ کرے۔ عورت کے لئے اسلام میں حجاب کی بہترین نوع چادر ہے، یہ چادر حضرت زہرا ؑ کی عصمت و عفت کی یادگار ہے۔ جس کو آج کی مسلمان عورت نے ایک طرف رکھ دیا ہے، خواتین کو پردے کے بارے میں امر کرنا مرد پر واجب ہے، روایت میں ملتا ہے کہ قیامت کے روز ہر شخص چار عورتوں کے اعمال کا ذمّہ دار ہے اور وہ چار عورتیں اس کی بیوی، بیٹی، بہن اور ماں ہیں۔ آج کی عورت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو فاطمی اصولوں کے تحت گزارے، اس میں ہی اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */