غزہ کے مظلوم شہری، جنھیں دنیا نے تنہا چھوڑ دیا... سراج نقوی

صورتحال یہ ہے کہ غزہ کی شہری آبادی پر اسرائیلی بمباری کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے، ہر چند کہ حماس کے بہادر حریت پسند اسرائیل کو اس کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دے رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

سراج نقوی

اسرائیل حماس جنگ کو تین ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن تادم تحریر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ امن کے ٹھیکے دار امریکہ اور مغربی ممالک غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کے تعلق سے سنجیدہ ہیں۔ اسرائیل کے حق دفاع کی ڈفلی بجانے والے چاہتے ہیں کہ فلسطین کی مزاحمت کے جواب میں اسرائیل کی سفاکیت اس منزل پر پہنچ جائے کہ خطہ عرب میں اسرائیل کو چیلنج کرنے کا کوئی حوصلہ نہ کر سکے۔ حالانکہ ایران کی موجودگی میں صلیبی طاقتوں کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ناممکن ہے، لیکن یہ الگ موضوع ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اسی طرح فلسطینیوں کے خون ناحق کو بہتا ہوا دیکھتی رہے گی؟ کیا بزدل عالمی چودھریوں میں یہ کہنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوگا کہ غزہ کے عام شہریوں کا قتل عام اسرائیل بند کرے۔

صورتحال یہ ہے کہ غزہ کی شہری آبادی پر اسرائیلی بمباری کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ ہر چند کہ حماس کے بہادر حریت پسند اسرائیل کو اس کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دے رہے ہیں، لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ حماس کی کارروائیوں میں شہریوں کو نشانہ بنانے اور انھیں قتل کرنے کے واقعات بہت کم ہوئے ہیں۔ ابھی تک جنگ سے متعلق جو رپورٹیں سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حماس نے جن اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا ہے ان کے ساتھ بھی انسانی بنیادوں پر ظلم و تشدد سے حتی الامکان گریز کیا گیا ہے۔ حماس نے ایسے معاملوں میں بڑی حد تک اسلامی جنگ کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل نے فلسطین کے تمام شہریوں کے لیے ہر طرح کے ظلم کو روا رکھا ہے۔


الجزیرہ چینل کے ایک صحافی کے کنبے کی اسرائیلی حملے میں موت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیل کسی غیر ارادی غلطی کے نتیجے میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے۔ اس بات کو امریکہ اور مغربی ممالک اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں، لیکن اگر اس کے باوجود جنگ بندی کی کسی تجویز پر اتفاق رائے نہیں بن پا رہا ہے تو اس کا بنیادی سبب اسرائیل اور اس کے حامیوں کے دلوں کا کھوٹ اور فلسطینیوں کے تعلق سے سفاکیت کا وہ جذبہ ہی ہے کہ جو ان مظلوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ اسرائیلی فوج کا یہ کہنا کہ وہ زمینی حملے کا دائرہ بڑھا رہی ہے، دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ غزہ کے مزید علاقوں میں عام شہریوں کی زندگی کے لیے خطرہ بڑھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دنیا خاموش ہے،  اور یہ خاموشی کسی بڑی انہونی کے خطرے بڑھا رہی ہے۔

غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد نہ پہنچنے، زخمیوں کا علاج نہ ہو پانے یا پھر بغیر انستھیسیا آپریشن کیے جانے کی خبریں پرانی ہو چکی ہیں۔ تازہ خطرہ جس کی طرف ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ غزہ کا مواصلاتی نظام ٹھپ ہونے کے سبب وہاں سے متعلق بہت سی خبریں دنیا کے سامنے نہ آنے کا بھی اندیشہ ہے۔ مذکورہ تنظیم کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ غزہ میں مواصلاتی خدمات کو تقریباً پوری طرح بند کر دیا گیا ہے، اور اس کے نتیجے میں وہاں بڑی تعداد میں ہونے والے مظالم پر پردہ پڑ سکتا ہے۔ ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے ایک سینئر اہلکار ڈیبورا براؤن کا کہنا ہے کہ غزہ میں جس طرح سے اطلاعات کو بلیک آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے لوگوں پر ہونے والے مظالم کو چھپائے جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو مزید بڑھاوا  بھی مل سکتا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسسٹ‘ نے بھی غزہ میں اطلاعات کے بلیک آؤٹ پر تشویش ظاہر کی تھی، اور جلد از جلد مواصلات کے نظام کو بحال کرنے کا مطالبہ اسرائیل سے کیا تھا۔ لیکن اگر ابھی تک اس طرف توجہ نہیں دی گئی ہے تو اس کا سبب اسرائیل کی بد نیتی کے سوا کچھ نہیں۔ حالانکہ صحافیوں کی مذکورہ تنظیم نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اس صورتحال کا نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔


تنظیم نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سات اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر کیے گئے حملے کے بعد سے اب تک اس جنگ کو کور کرنے والے 29 صحافیوں کی موت ہو چکی ہے۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اس قدر خراب حالات کے باوجود عالمی برادری کا بڑا حصہ جنگ میں اسرائیل کی سفاکیت پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اور اس سلسلے میں اب تک اقوام متحدہ میں پیش کی گئی کئی متوازن تجاویز کو بھی اپنے اپنے مفادات کے سبب رکن ممالک مسترد کر چکے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک تازہ تجویز جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اس پر کئی ممالک کا رویہ باعث حیرت ہے۔ ان ممالک میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ اس تجویز میں غزہ کے شہریوں کے تحفظ اور وہاں قانونی و انسانی بنیادوں پر کیے جا رہے اقدامات کو جاری رکھنے اور جنگ بندی کی بات کہی گئی تھی، لیکن ہندوستان نے اس تجویز پر ووٹنگ میں حصہ لینے سے ہی کنارہ کر لیا۔ اس تجویز کے حق میں حالانکہ 120 اورمخالفت میں 14 ووٹ پڑے، جبکہ ہندوستان سمیت 45 ممالک نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ عراق کا بھی اس تجویزپر ووٹنگ سے غیر حاضر ہونا باعث حیرت ہے۔

بہرحال یہ تجویز پاس تو ہو گئی لیکن اس پر واقعی کوئی مثبت نتیجہ سامنے آنے کی توقع کم ہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کناڈا کی اس تجویز کی ہندوستان نے حمایت کی جس میں حماس کے حملے کی مذمت کی گئی تھی۔ ظاہر ہے یہ رخ اسرائیل کی اس خواہش کے عین مطابق ہے کہ جس کے تحت اس نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی اس تقریر کو بھی مسترد کر دیا تھا کہ جس میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کو اسرائیل کے فلسطین پر گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ظلم و ستم کا نتیجہ قرا دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اسرائیل تو ہندوستان سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی بھی اپیل کر چکا ہے۔ اس اپیل پر ہندوستان کا کوئی راست موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے، لیکن کناڈا کی مذکورہ تجویز کی حمایت کر کے مودی حکومت نے اس معاملے میں اپنا موقف بالواسطہ طور پر ظاہر کر دیا ہے۔


بہرحال اس وقت غزہ میں جو حالات ہیں ان کی تفصیلات حالانکہ مواصلاتی نظام کے ٹھپ ہو جانے کے سبب سامنے نہیں آ رہی ہیں، لیکن جس طرح اسرائیل اپنے جنگی جنون کے تحت غزہ میں جنگ کا دائرہ نہایت بے شرمی کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے اس کے نتائج پورے خطے ہی نہیں بلکہ ان ممالک کے لیے بھی خطرناک ہو سکتے ہیں کہ جو اس وقت اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ حماس یا اس کے حامی بھی اسرائیل اور امریکہ کے رویے کے سبب یہ طے کر چکے ہیں کہ اس جنگ کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے۔ ظاہر ہے اس میں مزید بڑے پیمانے پر خون خرابے کا خطرہ بھی ہے، لیکن مظلوم فلسطینیوں کو جس طرح تنہا کرنے اور ان کے جائز حقوق کو غصب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے فلسطینیوں کے پاس ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔