’دی کیرالہ اسٹوری‘ فلم نہیں بلکہ بھگوا ایجنڈا کے تحت پروپیگنڈہ پھیلانے کا ایک ہتھیار ہے... رام پنیانی

فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کا ٹیزر اور پرومو کیرالہ کو ایسی ریاست کی شکل میں دکھاتے ہیں جہاں لوگوں کو مسلمان بنایا جا رہا ہے، ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>دی کیرالہ اسٹوری، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

دی کیرالہ اسٹوری، تصویر آئی اے این ایس

user

رام پنیانی

کیرالہ کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسی ریاست کا چہرہ ابھرتا ہے جہاں امن اور خیر گالی عام ہے، جہاں ناخواندگی دور دور تک نہیں، جہاں تعلیم اور صحت انڈیکس بہت اچھے ہیں، اور جہاں کووڈ-19 وبا کا مقابلہ اعلیٰ معیاری طریقے سے کیا گیا۔ ہمیں یہ بھی یاد آتا ہے کہ ریاست میں عیسائی مذہب کی آمد سنہ 52 عیسوی میں سَنت سیبسٹین کے ذریعہ ہوئی اور ساتویں صدی میں اسلام یہاں عرب تاجروں کے ذریعہ آیا۔ اس سب کے برعکس فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کا ٹیزر اور پرومو اسے ایک ایسی ریاست کی شکل میں ظاہر کرتا ہے جہاں لوگوں کو مسلمان بنایا جا رہا ہے، ہندو لڑکیوں اور خواتین کو زبردستی اسلامک اسٹیٹ میں مختلف کردار نبھانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے اور انھیں شام، لبنان وغیرہ بھیجا جا رہا ہے۔

’دی کیرالہ اسٹوری‘ فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کے طرز پر بنائی گئی ہے، جس میں نصف سچائی دکھائی گئی ہے اور اہم ایشوز کو کنارے رکھ کر نفرت پھیلانے اور تخریب کاری سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ’دی کشمیر فائلز‘ کو گوا میں منعقد 53ویں بین الاقوامی فلم تقریب کی جوری کے چیف نے ’اشتہاری فلم‘ بتایا تھا۔ جوری کے ایک دیگر رکن نے اسے ’فحش‘ کہا تھا۔


’دی کیرالہ اسٹوری‘ 5 مئی کو ریلیز ہوگی۔ اس کا ٹیزر گزشتہ سال 2 نومبر کو جاری ہوا تھا اور اس کا ٹریلر 27 اپریل کو منظر عام پر آیا۔ انھیں دیکھ کر اس بات کا صاف اشارہ ملتا ہے کہ فلم میں آدھی سچائی دکھائی گئی ہے اور بغیر ضروری تحقیق کے مذہب تبدیلی، اسلامک اسٹیٹ میں جنگجوؤں کی بھرتی، عراق پر امریکہ کے حملے کے بعد ابھری دہشت گردانہ تنظیموں اور مغربی ایشیا کے تیل پروڈیوسر علاقوں میں روس کو پیر نہ جمانے دینے کے لیے امریکہ کے ذریعہ کٹرپسند اسلامک گروپوں کو فروغ دیے جانے وغیرہ ایشوز کو اٹھایا گیا ہے۔

’دی کیرالہ اسٹوری‘ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے ذریعہ 32 ہزار ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ اس نمبر کا مآخذ مشتبہ ہے۔ عادل رشید کے ذریعہ انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس (آئی ڈی ایس اے) کے لیے تیار کیے گئے ایک ریسرچ پیپر ’وائی فیور انڈینز ہیو جوائنڈ آئی ایس آئی ایس‘ کے مطابق دنیا بھر سے تقریباً 40 ہزار لوگ آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوئے ہیں۔ ہندوستان سے 100 سے بھی کم لوگ آئی ایس آئی ایس کے اثرات والے شام اور افغانستان کے علاقوں میں گئے، اور تقریباً 155 کو آئی ایس آئی ایس سے ان کے رشتوں کے سبب گرفتار کیا گیا۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے دنیا بھر سے آئی ایس آئی ایس میں ہوئی بھرتی سے متعلق اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جن ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوئے، وہ ہیں عراق، افغانستان، روس، ٹیونیشیا، اردن، سعودی عرب، ترکی اور فرانس وغیرہ۔ سب سے زیادہ بھرتیاں مشرق وسطیٰ سے ہوئیں اور اس کے بعد یوروپ سے۔ آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوئے ہندوستانیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کیرالہ کی مذہب تبدیل کرنے والی خواتین کے آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے سے متعلق دعوے محض بکواس ہیں۔


’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے فلمساز خود کو سچا ثابت کرنے پر اس قدر آمادہ ہیں کہ انھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فلم ایک حقیقی کہانی پر مبنی ہے۔ وہ ایک لڑکی کی کہانی سناتے ہیں جسے احساس ہو گیا ہے کہ اسے پھنسا لیا گیا ہے۔ وہ اب افغانستان کی ایک جیل میں ہے۔ اس لڑکی کا دعویٰ ہے کہ کئی مزید لڑکیاں اسی کی جیسی حالت میں ہیں۔ صرف اس بنیاد پر فلمساز دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس کئی لڑکیوں کے بیان ہیں اور اس بنیاد پر وہ 32 ہزار کی تعداد تک پہنچ گئے۔

کیرالہ میں مذہب تبدیلی کی حالت پر کئی الگ الگ طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ کیرالہ کے سابق وزیر اعلیٰ اومن چانڈی نے ریاستی اسمبلی میں 2006 سے لے کر 2012 تک کے مذہب تبدیلی سے متعلق تفصیلی اعداد و شمار پیش کیے تھے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ ’’2006 سے لے کر 2012 تک مجموعی طور پر 7713 اشخاص نے مذہب تبدیلی کر اسلام اختیار کیا، جبکہ 2803 افراد مذہب تبدیل کر ہندو بن گئے۔‘‘ یہ دلچسپ ہے کہ انھوں نے کہا کہ عیسائی مذہب اختیار کرنے والوں کے سلسلے میں کوئی نمبر دستیاب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’جن لوگوں نے 12-2009 کے درمیان اسلام مذہب اختیار کیا، ان میں سے 2667 نوجوان خواتین تھیں، جن میں سے 2195 ہندو اور 492 عیسائی تھیں۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کا بھی زبردستی مذہب تبدیل نہیں ہوا ہے۔


لو جہاد (ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر مسلمان بنانا) کے نام پر جنون پیدا کرنے کا کام کیرالہ سے شروع ہوا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتوں کو اپنی جڑیں جمانے کے لیے تخریبی اور جذباتی ایشوز کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اب چونکہ کیرالہ میں رام مندر اور گائے جیسے ایشوز پر لوگوں کو مشتعل کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے جھوٹ اور آدھے سچ کو کئی طرح سے سماج میں پھیلانے میں ماہر نظام نے ’لو جہاد‘ کی خیالی کہانی تیار کر لی۔ چانڈی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ہم زبردستی مذہب تبدیل نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی ہم لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم کو چلنے دیں گے۔‘‘ ریاست کے مختلف شہروں کے پولیس کمشنروں کے ذریعہ کی گئی جانچ میں یہ سامنے آیا کہ ہندو اور عیسائی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر مسلمان بنانے کی کوئی منظم اور منصوبہ بند کوشش نہیں ہو رہی ہے۔

لیکن بی جے پی نے اس ایشو کو لپک لیا۔ لو جہاد بھلے ہی کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہو، لیکن 11 ریاستوں میں لو جہاد کے خلاف قانون بن چکے ہیں۔ حال میں مہاراشٹر میں ’سکل ہندو سماج‘ نامی تنظیم نے اس ایشو پر بڑی تحریک چلائی۔ لو جہاد ہندو طبقہ کے لیے خطرہ ہے، اس جھوٹ کو اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ وہ مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا ہتھیار بن گیا ہے۔ لو جہاد ہو رہا ہے یا لو جہاد جیسی کوئی چیز ہے، اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے 11 نومبر 2020 کو دیے گئے جواب میں قومی خاتون کمیشن نے کہا کہ وہ لو جہاد کے سلسلے میں کوئی نمبر نہیں رکھتا۔


کیرالہ میں برسراقتدار مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) اور انڈین یونین مسلم لیگ اس فلم کی نمائش کے خلاف ہیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلے گی۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا مذہبی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے کے لیے غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس فلم کی نمائش کے خطرناک نتائج کا احساس کرتے ہوئے کیرالہ سے کانگریس رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے ٹوئٹ کر کہا ہے کہ ایسے شخص کو ایک کروڑ روپے کا انعام دیا جائے گا جو یہ ثابت کر سکے کہ 32000 لڑکیاں خیالی لو جہاد کی شکار ہوئی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ صاف جھوٹ پر مبنی اس فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

ابھی کچھ ہی وقت پہلے سپریم کورٹ نے اپنے سب سے بہترین فیصلوں میں سے ایک میں کہا ہے کہ نفرت پھیلانے والی تقریروں کا ریاستی حکومتوں کو از خود نوٹس لینا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو اسے عدالتی حکم کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ عدالت کو ایک قدم مزید آگے بڑھ کر یہ بھی واضح کر دینا چاہیے کہ ’آرٹ کی آزادی‘ کے نام پر تشہیری فلموں پر روک لگائی جانی چاہیے یا کم از کم سنسر بورڈ کو یہ جانچ کرنی چاہیے کہ فلم کو جن دلائل یا اعداد و شمار پر مبنی بتایا جا رہا ہے، وہ کتنے مصدقہ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔