ہماچل کی شکست نے بی جے پی کو کیا پریشان، آئندہ سال 4 ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کو لے کر فکرمند!

راجستھان، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہوں گے، یہاں بی جے پی میں زبردست گروپبندی ہے اور اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ پارٹی کو سبھی جگہ ناکامی کا منھ نہ دیکھنا پڑ جائے۔

نریندر مودی اور امت شاہ
نریندر مودی اور امت شاہ
user

تنویر

ہماچل پردیش اسمبلی انتخاب میں ملی شکست نے بی جے پی کے لیے گجرات کی تاریخی کامیابی کا جشن پھیکا کر دیا۔ یوپی میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی بی جے پی کے لیے بہت زیادہ خوش کن نہیں رہے۔ ایسے میں آئندہ سال 4 ریاستوں، یعنی راجستھان، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو لے کر بی جے پی کی فکر میں اضافہ لازمی ہے۔ دراصل ان چاروں ریاستوں میں بی جے پی کی حالت ہماچل پردیش جیسی دکھائی دے رہی ہے اور اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں چاروں کی چاروں ریاستوں میں ناکامی کا منھ نہ دیکھنا پڑ جائے۔

آئندہ سال جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں ان میں سے دو ریاستوں (مدھیہ پردیش، کرناٹک) میں بی جے پی برسراقتدار ہے اور دو ریاستوں (راجستھان، چھتیس گڑھ) میں کانگریس۔ ایسے میں دو ریاستوں میں تو اقتدار مخالف لہر کا بھی بی جے پی کو سامنا کرنا پڑے گا۔ بی جے پی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ چاروں ریاستوں میں پارٹی کے اندر جاری گروپ بندی ہے۔ ہماچل پردیش میں بھی داخلی رسہ کشی کا بہت منفی اثر بی جے پی پر پڑا تھا۔


اس وقت بی جے پی ’مشن 2024‘ کو بھی پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔ یعنی اسمبلی انتخابات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تاکہ 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں کسی طرح کی مشکل نہ ہو۔ لیکن مرکز میں مضبوط حکومت ہونے کے باوجود ریاستوں میں داخلی رسہ کشی نے پارٹی ہائی کمان کی ٹینشن میں اضافہ کر دیا ہے۔ اگر بی جے پی جلد اس گروپ بندی اور داخلی رسہ کشی پر قابو نہیں پا سکی تو پھر ’مشن 2024‘ پارٹی کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہو سکتا ہے۔

راجستھان میں اس وقت کانگریس برسراقتدار ہے اور اس ریاست میں بھلے ہی گہلوت-پائلٹ تنازعہ کی وجہ سے پارٹی کو پریشانی کا سامنا ہے، لیکن ریاستی حکومت جس طرح عوامی فلاح کے لیے کام کر رہی ہے اس سے کانگریس کی راہ بہت مشکل نظر نہیں آ رہی ہے۔ لیکن یہاں اپوزیشن بی جے پی وسندھرا راجے بمقابلہ گجیندر شیخاوت-ستیش پونیا کی جنگ سے پریشان ہے۔ 2018 میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے ہی بی جے پی راجستھان میں گروپ بندی کا شکار ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے اور مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت کے درمیان اب بھی عداوت کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ریاستی صدر ستیش پونیا کے خلاف بھی وسندھرا گروپ لگاتار محاذ کھولے ہوئے ہے۔ اگر یہ لڑائی جاری رہی تو بی جے پی 2023 میں بھی اپوزیشن کا کردار نبھاتی دکھائی دے گی۔


کرناٹک میں بھی گروپ بندی کا یہی حال ہے۔ یہاں بومئی بمقابلہ یدی یورپا کی بساط بچھی ہوئی ہے۔ انتخاب میں محض دو ماہ باقی رہ گئے ہیں اور کرناٹک بی جے پی میں گروپ بندی عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ ویسے بھی کرناٹک میں بی جے پی نے ’آپریشن لوٹس‘ کو انجام دیتے ہوئے 2019 میں حکومت بنائی تھی اور یدی یورپا کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ لیکن اب جبکہ بومئی وزیر اعلیٰ ہیں تو دونوں کی رسہ کشی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ فروری 2023 سے پہلے اگر بومئی-یدی یورپا لڑائی پر پارٹی قابو نہیں پا سکی تو پھر کانگریس کے لیے اقتدار کی راہ آسان ہو جائے گی۔

مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی نے ’آپریشن لوٹس‘ کے ذریعہ ہی اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ کرناٹک کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس برسراقتدار تھی جب توڑ پھوڑ کے ذریعہ بی جے پی نے ایوان میں اپنے اراکین کی تعداد بڑھا لی۔ پھر شیوراج سنگھ چوہان کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہائی کمان نے نروتم مشرا کا بھی قد بڑھا دیا، اور پھر اس ریاست میں گروپ بندی کا آغاز ہو گیا۔ نروتم کا قد بڑھنے کے بعد سے ہی شیوراج خیمہ کو کرسی جانے کا خوف ستانے لگا۔ اب دونوں گروپ ایک دوسرے پر داخلی حملے کر رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں ایک گروپ جیوترادتیہ سندھیا کا بھی ہے جو کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں پہنچے ہیں اور ان کے حامیوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے۔ یعنی مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے اندر تین گروپ دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کا ’تین تگاڑا، کھیل بگاڑا‘ ہو جائے تو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔


چھتیس گڑھ میں تو بی جے پی کو گزشتہ اسمبلی انتخاب میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں کانگریس نے بھوپیش بگھیل کو وزیر اعلیٰ بنایا اور وہ لگاتار عوام کے حق میں نئی نئی پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو کانگریس کی حالت اس ریاست میں پہلے ہی بہت مضبوط ہے، اور بی جے پی کی اندرونی لڑائی کانگریس کو مزید مستحکم کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی خود کو مضبوط کرنے کے لیے لگاتار کوششیں کر رہی ہے، لیکن گروپ بندی ہر کوشش کی ہوا نکال دیتی ہے۔ یہاں سابق وزیر اعلیٰ رمن سنگھ، سابق اپوزیشن لیڈر دھرم لال کوشک اور سابق صدر وشنودیو سائے کا گروپ سرگرم دکھائی دے رہا ہے۔ اس گروپ بندی کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے رواں سال کے شروع میں چھتیس گڑھ میں زبردست پھیر بدل کیا تھا۔ ریاستی انچارج سے لے کر صدر اور حزب مخالف لیڈر تک کو ہٹا دیا گیا تھا، لیکن پارٹی کی کارکردگی پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ ایسے حالات میں تو بھوپیش بگھیل کو ٹکر دینا مشکل ہی دکھائی دے رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔