بی جے پی مزدوروں کی بھی ہے بڑی دشمن... اعظم شہاب

کورونا وبا نے ملک کے عوام پر یہ ظاہر کردیا ہے کہ بی جے پی نہ صرف اقلیتوں کی بلکہ وہ مزدوروں کی بھی دشمن ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یدی یورپّا نے اگر مزدوروں کے پیر کاٹ دیئے تو یوگی نے پیٹ پرلات مار دی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

زخم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک جو نظر آجاتے ہیں اور دوسرے جو دکھائی نہیں دیتے۔ کرناٹک کے وزیراعلیٰ بی ایس یدی یورپّا کا مزدوروں کی ٹرین مسترد کرنا ان کے پیر کاٹ دینے جیسا تھا تاکہ وہ اپنے وطن نہ جاسکیں۔ لیکن خیر وہ مزدور اپنے نہیں پرائے تھے یعنی کرناٹک کے نہیں دیگر صوبوں کے تھے۔ یدی یورپاّ نے اپنے بلڈرس اور ٹھیکیداروں کی خوشنودی کے لیے یہ غیر انسانی فیصلہ کیا تھا، جسے ذرائع ابلاغ میں شور شرابے کے بعد بدلنا پڑا۔ اس کے برعکس اتر پردیش کے یوگی ادتیہ ناتھ نے تو اپنے ہی صوبے کے لوگوں کے پیٹ پر اس قدر زور سے لات ماری کہ آر ایس ایس کو بھی اپنے بھگوا دھاری وزیر اعلیٰ پر تنقید کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

کورونا کا بہانہ بناکر یوگی جی تین سال کے لئے 41 میں سے 38 مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے قوانین کو معطل کردیا۔ اس ظالمانہ اقدام کے خلاف سب سے پہلے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے آواز اٹھائی اور صوبے کی بی جے پی حکومت سے فوراً استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ پرینکا گاندھی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں نے ملک کی تعمیر کی ہے وہ سرکار کے زرخرید نہیں ہیں اس لیے یہ آرڈیننس فوراً رد کیا جانا چاہیے۔


اس آرڈیننس کی بابت یوگی سرکار بھی یدی یورپاّ کی طرح ایک غیر انسانی آرڈیننس کے ذریعہ معیشت اور سرمایہ کاری کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یوگی سرکار کے جواز کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داروں کو اختیارات دینے اور للچانے کے لیے مزدوروں کے حقوق کو بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ جن مزدوروں کے حقوق کو یوگی جی پامال کر رہے ہیں ان میں سے کئی تو ایسے تھے کہ انہیں ووٹ دینے اور ان کا پرچار کرنے کے لیے اپنا روزی روزگار چھوڑ کر گاوں آتے تھے۔ ان وفادار رائے دہندگان کے ساتھ یہ سلوک کیا غداری اور نمک حرامی نہیں ہے؟

اس آرڈیننس کی مخالفت میں اکھلیش یادو یا بائیں بازو کی مزدور یونین کا احتجاج کرنا فطری ہے لیکن اس بار سنگھ پریوار کا حصہ بھارتیہ مزدور سنگھ کو ابھی اس کے خلاف بیان دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ اس کی مجبوری اس لیے تھی کہ اس صورتحال سے اس کے جھانسے میں آنے والے محنت کش اپنی وفاداری بدل کر کہیں مخالف خیمے میں چلے جائیں گے اور ساری دنیا میں سب سے بڑی لیبر یونین ہونے کا اعزاز اس سے چھن جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد بھارتیہ مزدور یونین کے لوگ بھی اپنا سرپیٹ رہے ہوں گے، کیونکہ بی جے پی کی انتخابی کامیابی میں ان کا بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے۔


مثل مشہور ہے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ یوگی سے حوصلہ پاکر مدھیہ پردیش کے شیوراج سنگھ چوہان نے نئے سرمایہ کاروں کو ایک ہزار دن کے مزدور قوانین سے فارغ کردیا یعنی تین سال تک انہیں محنت کشوں کے استحصال کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ صنعتکاروں کو اپنا لائسنس سالانہ تجدید کرانے کے بجائے اس میں دس سال تک کی مہلت دے دی گئی اور درمیانہ ا ور چھوٹی صنعتوں کو بلا اجازت اپنے ملازمین کو بڑھانے کی سہولت مہیا کردی گئی۔ بھارتیہ مزدور سنگھ نے ان دونوں صوبوں میں لائی جانے والی تبدیلیوں کو بین الاقوامی مزدور قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قانون کی بالا دستی ختم ہوجائے گی۔ لیکن وہ بھول گئی کہ بی جے پی وزرائے اعلیٰ کے نزدیک قومی یا عالمی قوانین کی پامالی بے معنی شئے ہے۔

بھارتیہ مزدور سنگھ کے صدر ساجی نارائنن اس کو کورونا سے زیادہ خطرناک وباء مانتے ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج کرنے کی خاطر انہوں نے ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا ہے۔ ساجی کے مطابق مزدور قوانین کی اصلاح کے لیے یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ ہم جنگل کا قانون نافذ کرکے مزدوروں کو سرمایہ داروں کے حوالے نہیں کرسکتے۔ اس طرح تو ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہوجائے گا۔ انہیں مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعہ مزدوروں کے تنازعات سلجھانے کے کم و بیش سارے ہی قوانین کے خاتمے کا دکھ ہے۔ ساجی کے مطابق ہندوستان میں مزدوروں کے اندر نہیں بلکہ نوکر شاہی میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وہ اس کو خام خیالی سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہندوستان میں چین سرمایہ کاری کرے گا بلکہ یہ سوچتے ہیں کہ ان ترمیمات کے سبب بیروزگاری میں بے شمار اضافہ ہوجائے گا۔


ایک ایسے وقت میں جبکہ لٹے پٹے مزدور ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے اپنے آبائی صوبوں میں اس امید کے ساتھ آرہے ہیں کہ ان کی اپنی حکومت ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے گی، لیکن وہاں سیاستداں سرمایہ داروں کا آلہ کار بن کر استحصالی منصوبوں کے تحت ان کو سماجی تحفظ سے محروم کررہے ہیں۔ بی ایم ایس کے صدر نارائنن نے وزیر محنت سنتوش گنگوار سے مطالبہ کیا ہے کہ مزدور اصلاحات میں تحفظات کا اہتمام کیے بغیر جلد بازی نہ کریں ورنہ پنڈورا کا بکس کھل جائے گا۔ یہ وقت مزدوروں کو حاصل تحفظات کو کمزور کرنے کا نہیں بلکہ انہیں یقینی بنانے کا ہے۔

بی جے پی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتی۔ اس کے ترجمان گوپال اگروال کا کہنا ہے کہ ملک میں صنعتی پیداوار بڑھانے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کرنے سے قبل مزدوروں کے تحفظ کا قانون بننا ضروری ہے۔ بی ایم ایس کے نارائنن اس کی مخالفت میں کہتے ہیں حکومت کو مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ ہندوستان نہ چین بن سکتا ہے اور نہ اسے بننا چاہیے کیونکہ چین میں محنت کشوں کے حقوق و تحفظات کے بارے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ یوپی اور ایم پی کے علاوہ ہماچل پردیش، پنجاب اور راجستھان میں بھی تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن اول تو وہ تین ماہ کی مختصر مدت کے لیے ہیں اور مزدور مخالف نہیں ہیں اس لیے بی ایم ایس بھی ان کی مخالفت نہیں کرپا رہی ہے۔ کورونا کی وباء نے ملک کے عوام پر یہ ظاہر کردیا ہے کہ بی جے پی نہ صرف اقلیتوں کی مخالف ہے بلکہ وہ مزدوروں کی بھی بہت بڑی دشمن ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 May 2020, 9:40 PM