2024 کا سیمی فائنل اور صاحب کی ہڑبڑاہٹ... اعظم شہاب

راہل گاندھی نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کامیابی کا یقین ظاہر کرتے ہوئے مودی جی و بی جے پی کے لیڈروں کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس

user

اعظم شہاب

وزیر اعظم بننے کے بعد کبھی چھٹی نہ لینے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی آج کل بھوپال میں ہیں۔ ویسے رہنے کو تو وہ کہیں بھی رہ سکتے ہیں، لیکن جس طرح املی کے پیڑ کے بھوت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ املی کے پیڑ پر ہی پایا جاتا ہے، اسی طرح بڑے صاحب کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر انہیں کہیں تلاش کرنا ہو تو یہ پتہ کر لینا کافی ہوگا کہ کن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ لیکن چونکہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے انہوں نے کبھی کوئی چھٹی نہیں لی۔ اس لیے بھوپال میں ان کی موجودگی کو بھی بحیثیت وزیر اعظم ہی سمجھا جانا چاہیے۔ ویسے بھی جب ان کا ہرعمل انتخابی سیاست کے لیے ہی ہوتا ہے تو پھر اگر وہ پردھان منتری کے بجائے پرچار منتری بن جائیں تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونِ ملک سفر سے لے کر پارلیمنٹ کی تقریر تک اور وندے بھارت ٹرینوں کو ہری جھنڈی دکھانے سے لے کر اپنی حکومت کی حصولیابیاں گنانے تک وہ ہر جگہ اپوزیشن کو کوستے رہتے ہیں۔

لیکن کہا جاتا ہے کہ جب آدمی بار بار ایک ہی کام کرتا ہے تو پھر اس کو اس کی عادت سی ہو جاتی ہے جو بسا اوقات اس کی رسوائی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ بھوپال کے جمبوری میدان میں مودی جی نے کانگریس پر اربن نکسلیوں کے قبضے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کانگریس کو اب کانگریس کے نیتا نہیں چلا رہے ہیں بلکہ اب وہ ایک کمپنی بن چکی ہے۔ نعروں سے لے کر پالیسیوں تک وہ ہر چیز آؤٹ سورس کر رہی ہے۔ یہ ٹھیکہ اب کچھ اربن نکسلیوں کے پاس ہے۔ کانگریس میں اب اربن نکسلیوں کی چل رہی ہے۔‘‘ یہ باتیں کہتے ہوئے پردھان سیوک صاحب اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ لیتے کہ یہ ان کی بوکھلاہٹ کو ظاہرکر رہی ہیں تو غالباً وہ یہ سب نہیں بولتے۔ کیونکہ یہ بات ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اربن نکسل خود بی جے پی کی استعمال کردہ اصطلاح ہے جو 2018 میں اس وقت سامنے آیا جب عام انتخابات کے لیے وہ کسی موضوع کی تلاش میں تھی۔ لیکن یہ اصطلاح اس قدر کمزور ثابت ہوا کہ اس کے استعمال کے بعد بھی اسے پلوامہ کے شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگنا پڑا تھا۔ گویا اربن نکسل ایک ناکام ہتھیار ہے اور ناکام ہتھیار کا استعمال اسی وقت کیا جاتا ہے جب کوئی کارگر ہتھیار نہ ہو۔ کانگریس کا رشتہ اربن نکسل سے جوڑ کر پردھان سیوک نے یہی ثابت کیا ہے۔


اپنے پردھان سیوک صاحب کے ساتھ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ جس طرح وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کب کیا اور کیسے بولنا ہے، بالکل اسی طرح یہ بھی نہیں سمجھ پاتے کہ اپوزیشن پر کیا کب اور کیسے الزام عائد کرنا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ ’’کانگریس نے اپنی تمام قوتِ ارادی کھو دی ہے۔ کانگریس کے زمین سے جڑے لیڈر چپ چاپ منھ پر تالا لگائے بیٹھے ہیں۔ کانگریس پہلے برباد ہوئی، بینکرپٹ ہوئی، اب اپنا ٹھیکہ دوسرے لوگوں کو دے دیا ہے۔ یہ گراؤنڈ پر کانگریس کا ہر کارکن محسوس کر رہا ہے۔ کانگریس زمین پر لگاتار کھوکھلی ہو رہی ہے۔‘‘ پردھان سیوک صاحب کی زبان سے یہ باتیں سن کر ہنسی آتی ہے کہ وہ کانگریس جس کے بارے میں آج گودی میڈیا بھی یہ باتیں تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں وہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو رہی ہے، اس کے بارے میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بکھر رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں تو کانگریس نے ابھی اپنی قوت کا مظاہرہ بھی شروع نہیں کیا ہے کہ اس کے حق میں ماحول بن چکا ہے۔ اگر وہ صرف اس ماحول کو ہی برقرار رکھ لے تو بھی اکثریت اس کے ہاتھ میں رہے گی۔ اس سچائی کے باوجود اگر اس کے بارے میں پردھان سیوک یہ کہیں کہ وہ قوتِ ارادی کھو چکی ہے تو اسے کانگریس کا خوف نہیں تو کیا کہیں گے؟

مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ دونوں ایک دوسرے کی پڑوسی ریاستیں ہیں۔ 25 ستمبر کو جب مودی جی بھوپال کے جمبوری میدان میں ’کاریہ کرتا مہاکمبھ‘ میں کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے عین اسی وقت چھتیس گڑھ کے بلاسپور میں راہل گاندھی غریبوں کو مکان کی تعمیر کے لیے 1200 کروڑ روپے تقسیم کر رہے تھے۔ ایک طرف مودی جی کانگریس پر حملے کر رہے تھے تو دوسری جانب راہل گاندھی کانگریس کی حکومت کی حصولیابیاں لوگوں کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ یہی کام مودی جی بھی کر سکتے تھے لیکن اس کے لیے ان کی حکومت کے کھاتے میں کچھ ایسا ہونا چاہئے جسے وہ عوام کی عدالت میں پیش کر سکیں۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی تمام تر حصولیابی تو او بی سی و دلتوں کے ساتھ زیادتی اور شیوراج ماما کی کرپشن میں سمٹ گئی ہے۔ ایسی صورت میں مودی جی کے لیے آسان راستہ یہی تھا کہ وہ کانگریس پر تنقید کریں اور اپنی انتخابی مہم کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگ دیں۔ لیکن مودی جی عوام کو جتنا بیوقوف سمجھتے ہیں اتنی وہ ہے نہیں۔ وہ خوب جانتی ہے کہ آپریشن لوٹس کیا ہوتا ہے اور عوام کے ذریعے منتخب حکومت کسے کہتے ہیں۔


سچائی یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں پردھان سیوک صاحب نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے خود اپنی کمزوری اور شکست کے خوف کو عوام کے سامنے اجاگر کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ مقابلے کی صورت میں شکست کے امکان کے باوجود اپنے ہاؤ بھاؤ سے مدمقابل کو مرعوب کرتے رہنا چاہئے، لیکن جب شکست کا امکان یقین میں تبدیل ہو جائے تو پھر خوف سر چڑھ کر بولے گا ہی۔ ایسی صورت میں وہی ہوتا ہے جس کا مظاہرہ مودی جی بھوپال میں اور بی جے پی پورے مدھیہ پردیش میں کر رہی ہے۔ دوسری جانب جب آدمی کو کامیابی کا یقین ہو جائے تو پھر اس کے ہرعمل سے اطمینان کا اظہار ہوتا ہے۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ مودی جی کانگریس پر اربن نکسل کا الزام لگا رہے اور دوسری جانب راہل گاندھی ذات پات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دونوں لیڈروں کی ترجیحات کیا ہیں اور ملک کے لوگوں کے مسائل کی ان کے نزدیک کیا اہمیت ہے۔ یوں بھی راہل گاندھی نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کامیابی کے یقین کا اظہار کر کے مودی جی و بی جے پی کے لیڈروں کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ ایسی صورت میں بڑے صاحب کے ذریعے ہڑبڑاہٹ کا یہ مظاہرہ بی جے پی کی کھسکتی زمین کا اعلامیہ ہے۔

(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔