پرینکا گاندھی نے کانگریس کو زندہ کر دیا... سہیل انجم

یوپی کے اس الیکشن میں کئی خاص باتیں رہیں۔ سب سے خاص بات یہ تھی کہ کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ریاست میں کانگریس کے وجود کا نہ صرف احساس کرا دیا بلکہ ایک طرح سے اسے زندہ بھی کر دیا۔

پرینکا گاندھی، تصویر ٹوئٹر @INCUttarakhand
پرینکا گاندھی، تصویر ٹوئٹر @INCUttarakhand
user

سہیل انجم

لیجیے جناب انتخابی سیمی فائنل ختم ہوگیا۔ چند روز میں نتائج سامنے آجائیں گے۔ یوں تو 5 ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا میں اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں۔ لیکن سب کی نگاہیں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش پر مرکوز تھیں اور اصل مقابلہ وہیں تھا۔ اس ریاست کو ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کی آبادی جتنی ہے اتنی کئی ممالک کی بھی آبادی نہیں ہے۔ اس کی یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ جس نے اس قلعے کو فتح کر لیا وہ دہلی کی گدی پر براجمان ہو گیا۔ یعنی مرکز میں بھی اسی پارٹی کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ اس ریاست نے ملک کو کئی وزرائے اعظم دیئے ہیں۔ اسی لیے مرکز اور ریاست میں حکمراں بی جے پی نے اس قلعے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

یوپی کے اس الیکشن میں کئی خاص باتیں رہیں۔ سب سے خاص بات یہ تھی کہ کانگریس کی جنرل سکریٹری و یو پی کی انچارج پرینکا گاندھی نے ریاست میں کانگریس کے وجود کا نہ صرف احساس کرا دیا بلکہ ایک طرح سے اسے زندہ بھی کر دیا۔ انھوں نے جو محنت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نے پوری ریاست کا دورہ کرکے ان سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا جو کہتے تھے کہ کانگریس تو ختم ہو گئی۔ پرینکا گاندھی نے اپنی کوششوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ کانگریس ایک تاریخی سیاسی جماعت ہے جس کا ایک شاندار ماضی ہے اور جو ملک پر ایک عرصے تک حکومت کرتی رہی ہے اور یہ کہ اس کو مخالفین اتنی آسانی سے ختم نہیں کر سکیں گے۔


پرینکا گاندھی نے اس الیکشن میں 40 فیصد خاتون امیدوار اتار کر ان سیاسی پارٹیوں کو آئینہ دکھایا ہے جو خواتین کے حقوق کا رونا روتے ہیں اور جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ خواتین کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کو جو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرانے پر زور دیتے ہیں، لیکن عملاً وہ خود ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاتے، پرینکا گاندھی نے یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنا وعدہ وفا کریں اور اس کا آغاز اسی الیکشن سے کریں۔ انھوں نے خود چالیس فیصد خواتین امیدوار اتار کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ خواتین کو ایوانوں میں صرف ایک تہائی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ نمائندگی دینے کے حق میں ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں پرینکا گاندھی کے اس تاریخی فیصلے کا کوئی اثر بھلے نہ پڑے اور کانگریس کی خاتون امیدواروں کو زیادہ کامیابی بھلے نہ ملے لیکن 2024 کے پارلیمانی اور پھر اس کے علاوہ دوسری ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ان کے اس قدم کا ضرور اثر پڑے گا اور اگر کانگریس پارٹی نے اگلے انتخابات میں بھی اسی طرح زیادہ خواتین کو میدان میں اتارا تو انتخابی ماحول میں ایک خوشگوار تبدیلی آئے گی اور دوسری جماعتوں کو بھی زیادہ سے زیادہ عورتوں کو امیدوار بنانا پڑے گا۔ آج بھلے ہی اس کا کوئی اثر نہ دکھائی دے لیکن مستقبل کے انتخابی ماحول پر اس کا ضرور اثر پڑے گا۔


پرینکا گاندھی نے صرف ٹکٹ تقسیم کرنے میں ہی خواتین کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ ”لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں“ کا نعرہ دے کر خواتین کے اندر ایک نئی امنگ جگا دی ہے۔ اگر سیاست میں سنجیدہ، مخلص، ایماندار اور بے لوث خواتین زیادہ تعداد میں آتی ہیں تو ہندوستانی سیاست کے لیے یہ ایک اچھا قدم ہوگا۔ لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں کے نعرے نے عورتوں میں جو خود اعتمادی پیدا کی ہے اس کے اثرات آنے والے دنوں میں ضرور محسوس کیے جائیں گے۔

پرینکا گاندھی نے جس طرح مرکزی و ریاستی حکومت کی غلط پالیسیوں کو اجاگر کیا اور وزیر اعظم نریندر مودی کے وعدوں کی پول کھولی وہ بھی کافی جرأت مندانہ بات رہی۔ جب وزیر اعظم نے انتہائی مایوسی کے عالم میں اپنی ایک تقریر میں یہ کہا کہ ہم نے غریبوں کو نمک کھلایا ہے لہٰذا اس نمک کے ساتھ وفاداری کرنا تو اس کی کسی بھی سیاسی جماعت یا کسی بھی لیڈر نے گرفت نہیں کی۔ گویا وزیر اعظم مودی نے لاک ڈاون کے دوران غریبوں کو گیہوں چاول چنے اور نمک تقسیم کرکے رائے دہندگان کی وفاداری خریدنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مودی نے اپنی جیب سے نمک تقسیم کیا تھا۔ وہ تو حکومت کے خزانے سے دیا گیا اور عوام کے پیسے سے دیا گیا تھا۔ لیکن مودی نے اس کی آڑ میں گویا عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ نمک حلالی نہ کریں، بلکہ جس کا نمک کھایا ہے اس کے گنگائیں۔ یہ انتہائی بھونڈی بات ہے اور کسی وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتی۔ پرینکا گاندھی نے اس معاملے پر وزیر اعظم مودی سے جو سوال کیا وہ اپنے آپ میں انتہائی جرأت مندانہ ہے۔


اب کچھ باتیں انتخابی ایشوز کی۔ اس الیکشن میں جو ایشوز حاوی رہے ان میں کسانوں کی تحریک، مہنگائی، بے روزگاری، کورونا وبا کے دوران حکومت کی مبینہ بد انتظامی، آوارہ مویشی، نظم و نسق کا مسئلہ اور خواتین کے خلاف جرائم قابل ذکر ہیں۔ بیشتر تجزیہ کار بڑے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ریاست سے بی جے پی کا اقتدار ختم ہو رہا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یوگی حکومت کی غلط پالیسیاں رہیں۔ یوگی حکومت مختلف محاذوں پر بری طرح ناکام رہی۔ مغربی یو پی میں کسانوں کی تحریک کا بڑا اثر رہا۔ جوں جوں مہم مشرق کی جانب بڑھی مزید ایشوز انتخابی مہم میں شامل ہوتے گئے۔ جیسے کہ وسطی اور مشرقی یوپی میں آوارہ مویشیوں کا مسئلہ بہت بڑا تھا۔

ان علاقوں کے کسان میڈیا سے گفتگو میں کہتے رہے کہ پانچ سال قبل ان علاقوں میں آوارہ مویشی نہیں تھے۔ تب ہم لوگ نعرہ لگاتے تھے کہ گئو کشی بند کرو اور ہم نے 2017 اور 2019 میں بی جے پی کو ووٹ دیا۔ لیکن اس بار ہم نے بی جے پی کو ہرانے والے امیدواروں کو ووٹ دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آوارہ مویشیوں کا مسئلہ خود یوگی حکومت کا پیدا کردہ ہے۔ اس نے جانوروں کی خرید فروخت پر پابندی لگا دی اور گئو رکشکوں نے گاڑیوں میں جانور لے جانے والوں کی موب لنچنگ کرکے ایک ایسا خوف کا ماحول بنا دیا کہ لوگوں نے جانوروں کا کھلا چھوڑ دیا۔ گویا یوگی حکومت کا یہ فیصلہ خود اسی کے گلے کی ہڈی بن گیا۔


اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں یوپی میں 11 لاکھ آٹھ ہزار آوارہ مویشی تھے لیکن 31 جنوری 2022 تک ان میں سات لاکھ مویشیوں کا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ ریاست کے عوام یوگی آدتیہ ناتھ کے کام کرنے کے طریقے سے خوش نہیں ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے صرف اپنی برادری کے لیے کام کیا دوسری برادریوں کا کوئی کام نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پولیس محکمہ کو پوری چھوٹ دے دی۔ خیال رہے کہ یوگی نے اخبار ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اونچی ذات یعنی شتری ذات میں پیدا ہوئے ہیں اور اس پر ان کو فخر ہے اور اگر ان پر اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے کام کا الزام لگتا ہے تو اس پر انھیں کوئی ندامت نہیں ہے۔ ان کے اس بیان کا الٹا اثر پڑا۔

اس بار بی جے پی اپنے پرانے اور آزمودہ ایجنڈے یعنی ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے مغربی یوپی میں مہم کا آغاز کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقے کیرانہ سے ہندو تاجروں کی مبینہ ترک سکونت اور مظفر نگر فسادات کا ذکر کیا اور ہندووں کو مسلمانوں کا خوف دکھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس الیکشن میں عوام کی مشکلات و مسائل کو اہمیت حاصل رہی۔ دیہی علاقوں میں آوارہ مویشیوں کے علاوہ بے روزگاری، کورونا وبا میں حکومت کی مبینہ بد انتظامی اور کم ہوتی سرکاری ملازمتوں کے مسائل چھائے رہے۔ شہری علاقوں میں ایک بڑا طبقہ سرکاری ملازمین کا ہے۔ ان کے نزدیک پینشن ایک بڑا مسئلہ رہا۔


بی جے پی نے رام مندر کے نام پر ووٹ مانگا۔ پھر اعلان کیا گیا کہ متھرا میں شاہی عیدگاہ کی جگہ پر کرشن مندر بنے گا۔ کاشی وشوناتھ کاریڈور کا وزیر اعظم مودی نے افتتاح کیا۔ اس کے بعد پاکستان اور جناح کا نام لیا گیا۔ لیکن کسی بھی ایشو نے عوام کو بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مائل نہیں کیا۔ پھر وزیر اعظم نے اپوزیشن پر دہشت گردی کے تئیں نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا لیکن عوام نے اس کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ہندووں کے ایک طبقے میں اپنے مذہب کے تئیں عقیدت ہے اور وہ بی جے پی کے مذہبی ایجنڈے کو پسند بھی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ذاتی معاملہ ہے۔ یہ تو چاہیے ہی لیکن پیٹ بھرنے کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ روزگار بھی ملنا چاہیے اور جرائم سے پاک معاشرہ بھی ہونا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Mar 2022, 10:40 PM