کیا امریکہ پوتن کا حشر صدام جیسا کرے گا!... ظفر آغا

الغرض یوکرین کی جنگ عالمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ پوتن کو صدام حسین بنانے کی حکمت عملی ساری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے امریکہ کو روس کو اس وقت سبق سکھانے کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے

تصویر بشکریہ ڈیلی ایکسپریس
تصویر بشکریہ ڈیلی ایکسپریس
user

ظفر آغا

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

اس لیے اے شریف انسانو

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

— ساحر لدھیانوی

انسان کتنا ہی ’شریف‘ کیوں نہ ہو جائے لیکن ابن آدم شاید کبھی ساحر لدھیانوی جیسے شاعر کی شرافت کے پیمانے پر پورا نہیں اتر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس وقت یوکرین میں ٹینک آگے اور پیچھے نہیں دوڑ رہے ہوتے۔ لیکن یوکرین کی جنگ اب محض ٹینکوں کے آگے پیچھے ہٹنے کی جنگ نہیں رہ گئی ہے۔ یہ جنگ تو اب بقائے انسانیت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ کیونکہ چند روز قبل جس طرح روس نے یوکرین کے ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ پر قبضہ کیا اس سے جنگ کب نیوکلیئر جنگ کا روپ لے لے یہ کہنا مشکل ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اور ادھر امریکہ نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ پوتن کو دوسرا صدام حسین بنا کر ہی مانے گا۔ جی ہاں، امریکہ کی پوری حکمت عملی یہی ہے کہ وہ پوتن کو یوروپ کا صدام حسین بنا دیں تاکہ پھر کوئی بھی یوروپ میں امریکہ کی مرضی کے خلاف چوں بھی نہ کر سکے۔ امریکہ پوتن سے اس وقت سے ناراض ہے جب سے امریکہ نے پوتن پر یہ الزام لگایا ہے کہ انھوں نے ہیلری کلنٹن کا چناؤ ہروانے میں ٹرمپ کی مدد کی تھی۔ تب ہی سے امریکی نظام نے یہ طے کر لیا کہ وہ پوتن کو وہی سبق سکھائیں گے جو صدام حسین کو مشرق وسطیٰ میں سکھایا تھا۔ اور اسی حکمت عملی کے تحت پہلے یوکرین میں وہ ماحول پیدا کیا گیا کہ پوتن جنگ پر مجبور ہو جائیں۔ جیسا کہ پہلے بھی میں اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغربی دنیا اور اس کے لیڈر امریکہ و روس کے بیچ یہ معاہدہ تھا کہ ناٹو کی فوجیں روس کے ارد گرد نہیں آئیں گے۔ لیکن امریکہ نے یوکرین کے صدر جو امریکی مہرے کہلاتے ہیں، ان کی مانگ پر یوکرین کو ناٹو ممبر بنانے کی بات ٹھان لی۔ اس کے معنی یہ تھے کہ روس کے سر پر مغربی فوج سوار ہو جاتی۔ پوتن نے یہ اعلان کیا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو روسی فوج یوکرین میں داخل ہو جائے گی۔ پوتن کا کہنا ہے کہ اگر ابھی بھی یوکرین یہ اعلان کر دے کہ وہ ناٹو کا ممبر نہیں بنے گا تو وہ اپنی فوجیں واپس بلا لیں گے۔

لیکن اب یہ ممکن نہیں نظر آتا۔ روس کی فوجیں یوکرین میں در آ چکی ہیں اور آگے بڑھتی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ حالات اور خراب ہو سکتے ہیں۔ ادھر صرف امریکہ اور مغربی یوروپ ہی نہیں دنیا کے تقریباً تمام ممالک روس کے خلاف سخت معاشی ناقہ بندی لاگو کر رہے ہیں۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو امریکہ کی قیادت میں دنیا بھر نے صدام حسین کے خلاف اختیار کی تھی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ روس کی معیشت اس قدر تباہ و برباد ہو جائے کہ وہاں کے عوام پریشان آ کر پوتن کے خلاف بغاوت کر پوتن کا تختہ الٹنے پر آمادہ ہو جائیں۔ پھر ان کی مدد کے لیے ناٹو فوجیں اسی طرح روس میں داخل ہو جائیں جیسے کہ عراق میں صدام حسین کے خلاف امریکی فوجیں داخل ہو گئی تھیں۔ اور پھر پوتن کا وہی حشر کیا جائے جو صدام حسین کا کیا گیا تھا۔


لیکن روس دوسرا عراق نہیں ہے۔ روس کے پاس دنیا کا ہر وہ ہتھیار اور نیوکلیئر ہتھیار ہے جو امریکہ اور یوروپ کے پاس ہے۔ پوتن کی حکومت یہ اشارے کر چکی ہے کہ اگر حالات ناگفتہ بہ ہو جائیں تو روس نیوکلیئر ہتھیار کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔ یہ تو ابھی کسی کو سہی اندازہ نہیں ہے کہ اگر جنگ نیوکلیئر ہو گئی تو دنیا کا کیا حشر ہوگا۔ لیکن یہ سبھی سمجھتے ہیں کہ نیوکلیئر جنگ سارے عالم کے لیے قیامت صغریٰ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ نیوکلیئر دھماکے کا اثر ساری دنیا پر ہوگا اور پھر جو عالمی تباہی پھیلے گی اس کا اندازہ ابھی سے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے ’اے شریف انسانو‘ یوکرین جنگ کو جتنی جلدی روکا جا سکے اتنا ہی انسانیت کی بقا کے لیے بہتر ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ آخر یہ جنگ روکے تو روکیے۔ کیونکہ دنیا اس وقت دو بلاک یعنی امریکہ اور روس کے درمیان بٹ چکی ہے۔ ان دو بلاک میں مفاہمت کے لیے ایک تیسری پارٹی چاہیے جو امن عالم کے لیے دونوں پارٹیوں کو منظور ہو۔ یہ رول اب بھی محض ہندوستانی حکومت ادا کر سکتی ہے۔ ہندوستان نے یو این او میں روس کے خلاف ابھی تک ووٹ دینے سے انکار کر اپنے کو دونوں بلاک سے دور رکھا ہے۔ پوتن وزیر اعظم مودی سے اب بھی بات کرتے ہیں۔ ادھر مودی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لیڈران سے بھی بات کر سکتے ہیں۔ اس لیے موقع کی نزاکت کا تقاضہ یہی ہے کہ نریندر مودی یوکرین جنگ کے اختتام کے لیے جلد از جلد کوئی قدم اٹھائیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے ہمارے وزیر خارجہ کو پہلے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ لیکن یوکرین میں جس طرح ہندوستانی طلبا پھنسے ہوئے ہیں اس سے یہ ظاہر ہے کہ وہ عالمی امور کے ویسے ماہر ثابت نہیں ہوئے جیسے کہ ان سے توقع تھی۔ غالباً مودی کو وزیر داخلہ کو بدلنا چاہیے تاکہ حکومت ہند یوکرین جنگ کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھا سکے۔

الغرض یوکرین کی جنگ عالمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ پوتن کو صدام حسین بنانے کی حکمت عملی ساری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے امریکہ کو روس کو اس وقت سبق سکھانے کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ جب عالمی سطح پر ہندوستان امن عالم کے بقا کے لیے اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں نریندر مودی کو ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے تاکہ ٹینک آگے پیچھے چلنے بند ہوں اور ’ہم سب ہی کے آنگن میں شمع جلتی رہے‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Mar 2022, 10:11 AM