پی ایم مودی کا دورۂ فرانس و امریکہ، ریڈ کارپیٹ کے نیچے بہت کچھ پوشیدہ ہے!... آشیش رے

وزیر اعظم نریندر مودی کے فرانس اور امریکہ دورہ کو سرسری طور پر دیکھنے سے لگتا ہے کہ سب کچھ بہت اچھا چل رہا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی کی فائل تصویر</p></div>

پی ایم مودی کی فائل تصویر

user

قومی آوازبیورو

فرانس اور امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے رشتوں میں آسمان زمین کا فرق آیا ہے۔ یہ وہی فرانس ہے جو ایک وقت پاکستان میں نیوکلیائی پلانٹ لگانے کو تیار بیٹھا تھا، اور یہی امریکہ ہے جس نے 1971 میں ہندوستان کے خلاف اپنے ساتویں بحری بیڑے کو روانہ کر دیا تھا۔ لیکن تب سے ہندوستان اور اس کی اسٹریٹجی نے ایک طویل مسافت طے کی اور آج یہ ملک ہندوستان کے بے حد قریب ہیں، فرانس تو خاص طور پر۔ یہ راتوں رات نہیں ہوا۔

ان ممالک سے ہندوستان کے رشتوں کو آج کے دور میں پہنچانے میں اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ کی حکومتوں کا اہم کردار رہا۔ حالانکہ واجپئی کے وقت نیوکلیائی تجربہ کی وہج سے ہندوستان کے رشتے، خاص طور پر ان دو ممالک سے، دوبارہ پہلے عالمی جنگ کے دور میں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں وقت لگا۔ لیکن جہاں تک فرانس کی بات ہے، واجپئی کے پرنسپل سکریٹری برجیش مشرا کی اسٹرٹیجک سمجھداری اور خارجہ سکریٹری کے. رگھوناتھ اور پیرس میں ہندوستانی سفیر کنول سبل کی کوششوں سے 1998 میں ہی ہندوستان کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری کو آخری شکل دی جا سکی۔ اس لیے وزیر اعظم مودی جب ایلسی پیلس میں فرانسیسی صدر امینوئل میکروں کے ساتھ رشتوں کی سلور جبلی پر جشن منا رہے تھے، انھیں ہندوستان کے ان سابق وزرائے اعظم کے تئیں شکرگزار ہونا چاہیے تھا۔

آج فرانس کے ہندوستان سے ایسے رشتے ہیں کہ کوئی بھی ملک اس حالت میں پہنچنا چاہے، یہاں تک کہ برطانیہ، امریکہ اور غالباً روس بھی۔ ہندوستان آج اقوام متحدہ میں پیچیدہ سے پیچیدہ معاملوں میں فرانس پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ خفیہ اطلاعات کے لین دین کے معاملے میں ہندوستان اور فرانس کے رشتے الگ ہی سطح کے ہیں اور چین سے پیش چیلنجز کے مدنظر بحر ہند میں پیٹرولنگ کے معاملے میں دونوں ممالک میں تعاون بھی کسی سے کم نہیں۔ معاشی نظریہ سے فرانس کو اس اتحاد سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ ایئربس کا ہندوستانی آسمان پر اثر بڑھ رہا ہے۔ انڈیگو اور ایئر انڈیا سے ایئر بس کو بڑا ٹھیکہ ملا ہے۔

سوشل میڈیا پر بی جے پی جو تشہیر کر رہی ہے، اس کے مطابق مودی سے پہلے کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کو ’بیسٹل ڈے پریڈ‘ میں مدعو نہیں کیا گیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو 2009 میں یہ اعزاز ملا تھا اور ہندوستانی مسلح افواج کی ٹکڑیوں نے بھی مارچ کیا تھا۔ بہرحال، واپس مودی کے فرانس دورہ کی بات کرتے ہیں۔ اتنے مضبوط یکسر رشتوں میں بھی کچھ باتیں کھٹکنے والی رہیں، جن پر غور کرنا ضروری ہے۔


فرانسیسی دانشور، لیڈران، حقوق انسانی تنظیمیں اور لا مونڈ جیسے مقبول اخبار نے میکرون کے ذریعہ ایک ایسے شخص کو مدعو کرنے کی تنقید کی جو ہندوستان میں جمہوریت اور آزادی کو ختم کر رہا ہے۔ ماہر معیشت تھامس پکیٹی اور سابق سفیر فرینکوئس جمیرے نے اپنے مضمون میں میکرون سے گزارش کی کہ وہ ہندوستان میں سول سوسائٹی کے استحصال کو روکنے، میڈیا کی آزادی اور مذہبی آزادی کی حفاظت میں کردار نبھائیں۔

فرانس کی اسمبلی میں اراکین پارلیمنٹ کے دوسرے سب سے بڑے گروپ کے بایاں محاذ لیڈر جین لیوک میلین چون نے ٹوئٹ کیا کہ ’’ان کا (مودی کا) استقبال نہیں ہے، کیونکہ یہ آزادی، برابری اور بھائی چارہ کا جشن ہے جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ حقوق کے ایک گروپ ایل ڈی ایچ نے ٹوئٹ کیا کہ ’’وہ اس دعوت نامہ کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ تباہی کا اشارہ دیتا ہے۔‘‘ لا مونڈ کے ایک مضمون کا عنوان تھا ’نریندر مودی نے دہائیوں تک اسٹیٹ اسپانسر تشدد کو فروغ دیا‘۔ اخبار نے سوال کیا کہ ’’کیا ہم نظر انداز کر سکتے ہیں کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان سنگین بحران سے گزر رہا ہے جہاں حقوق انسانی کارکنان، غیر سرکاری تنظیموں اور صحافیوں پر حملے بڑھ رہے ہیں؟‘‘

فرانس کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل ’فرانس 24 ٹی وی) نے کہا کہ بیسٹل ڈے پر میکرون کے ذریعہ مودی کی میزبانی کے دوران اسلحوں کی پریڈ ہوئی، جمہوری اقدار کی نہیں‘۔ ہندوستان اور فرانس کے درمیان خیر سگالی والا سمجھوتہ اسٹریٹجی پر مبنی ہو سکتا ہے، لیکن یہ لین دین سے متعلق بھی ہے اور یہ فرانس کے حق میں خاصہ جھکا ہوا ہے۔ تمام یوروپی مماکل میں بدعنوانی مخالف سخت قوانین ہیں۔ لیکن فرانسیسی حکومتوں پر اکثر قومی مفاد میں ان کی طرف سے آنکھیں موندنے کا الزام لگتا رہا ہے۔

ایک فرانسیسی پرازیکیوٹر نے ہندوستان کو رافیل کی فراہمی کا ٹھیکہ لینے میں ریاست کی ملکیت والی ڈسالٹ کی مبینہ بے ضابطگیوں کی جانچ کی مقامی این جی او ایسو شیرپا کی شکایت قبول کی۔ کمپنی پر 4 الزامات تھے: 1. سودا پانے کے لیے بچولیے کو پیسے دیے، 2. ہندوستانی وزارت دفاع کی مذاکرہ ٹیم کی خفیہ شماریات کا پتہ لگانے کے لیے غیر قانونی طریقوں کا استعمال، 3. قیمت میں منافع خوری، 4. ناتجربہ کار انل امبانی کی کمپنی کو ہندوستانی آفسیٹ شراکت دار کی شکل میں انتخاب۔


سب سے پہلے، مودی نے ڈاکٹر سنگھ کی حکومت کے 126 طیاروں کے معاہدے کو رد کیا اور صرف 36 جنگی طیاروں کا آرڈر دیا۔ دوئم، صدر فرانسوا اولاند کے مطابق مودی نے آفسیٹ پارٹنر کی شکل میں امبانی پر زور دیا، ورنہ سودا خطرے میں پڑ جاتا۔ آخری لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی دفاعی سودوں (راجیو گاندھی کے ذریعہ شروع) میں بدعنوانی کی روک تھام کے معیاری حصے کو ہٹانے سے متعلق فرانسیسی مطالبہ کو قبول کر کے انھوں نے ڈسالٹ کے ذریعہ بچولیے کو استعمال کی حالت میں بھی کارروائی سے چھوٹ دے دی۔ حالانکہ فرانسیسی حکومت نے قومی مفاد کے بہانے ایک بار پھر پرازیکیوٹر کے نوٹس کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔

جب مودی نے میکرون سے ملاقات کی تو رافیل کے 26 بحری ایڈیشن کے ساتھ ساتھ بحریہ کے لیے تین مزید اسکارپین کیٹگری کے آبدوز کے اربوں ڈالر کے آرڈر کا اعلان ہوا۔ لیکن ترمیم شدہ مشترکہ بیان میں انھیں شامل نہیں کیا گیا۔

امریکہ نے بھی مودی کو وہ سب دیا جس کی انھیں خواہش تھی- امریکہ میں سرکاری دورہ، ہلکے جنگی طیارہ تیجس کے لیے انجن، حملہ آور ڈرون۔ خیر، امریکہ میں بھی مودی کے خلاف نیویارک اور واشنگٹن میں مظاہرہ ہوا اور یاد دلایا گیا کہ یہ وہی مودی ہیں جن کے امریکہ میں داخلے پر ایک دہائی تک روک تھی۔ رائٹرس نے دعویٰ کیا کہ ’’بائڈن انتظامیہ پر مودی کے دورہ کے دوران حقوق انسانی کے ایشوز کو اٹھانے کا دباؤ تھا۔‘‘ مودی کے واشنگٹن چھوڑنے کے کچھ ہی دنوں کے اندر امریکی محکمہ خارجہ کی شہری سیکورٹی، جمہوریت اور حقوق انسانی کی ایڈیشنل سکریٹری عذرا ضیا، سول سوسائٹی لیڈرس کی دہلی میٹنگ میں تھیں اور انھوں نے ٹوئٹ کیا کہ ان کا انتظامیہ ہندوستان کی حالت، خصوصاً منی پور کے حالات پر فکرمند ہے۔

لندن میں سفارتی حلقوں میں پوچھا جا رہا ہے کہ برطانیہ نے امریکہ اور فرانس جیسی نرمی کیوں نہیں دکھائی؟ جواب ہے: لندن کے ایک مجسٹریٹ نے نہ صرف 2002 کے گجرات فسادات کے لیے برطانوی جانچ کے مطابق ’سیدھے ذمہ دار‘ ہونے کے لیے 2003 میں یونائٹیڈ کنگڈم کے دورے پر مودی کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا تھا بلکہ ابھی تک انھیں سرکاری دورے پر مدعو کرنا بھی اہم نہیں سمجھا۔ اس لیے، سوال تو یہ ہے کہ کیا امریکہ اور فرانس نے ہندوستان کے خزانے سے پیسے نکالنے کا کوئی جادوئی طریقہ تلاش کر لیا ہے؟ اس ’چھوڑے ہوئے‘ کو پچکاریں، لاڈ پیار دیں، اسے سوشل میڈیا پر مشتہر کرنے کے لیے ڈھیر ساری تصویریں کھنچوانے کا موقع دیں اور اربوں ڈالر کے دفاعی سودے حاصل کر لیں؟


امریکہ کی بات کریں تو چین اور روس کے اسباب اسے ہندوستان کو لبھانے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں آر ایس ایس پرچارک کی شکل میں اپنے پہلے سفر میں ہی مودی امریکہ سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور اس وجہ سے انھیں اس کے لیے ’سمجھانے‘ کی ضرورت نہیں پڑی۔

جدید جنگی طیارہ یا اس کے انجن، آبدوزوں اور ڈرون امن بنائے رکھنے والے تدارکی اسلحے ہوتے ہیں، نہ کہ جنگ کرنے کے۔ امریکیوں اور فرانسیسیوں نے شاید اسے نظر انداز کر دیا ہے کہ مودی نے چین سے زور آزمائش میں اول درجے کی بزدلی دکھائی ہے۔ تین سال بعد بھی انھوں نے اب تک یہ قبول نہیں کیا ہے کہ چینی فوجی ایل اے سی کے ہندوستانی حصے میں جمے ہوئے ہیں۔ تو، کیا جیسا امریکہ سمجھ رہا ہے، مودی واقعی میں شی جنپنگ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو پائیں گے؟ اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جو اس طرح کا اشارہ دیتا ہو۔

جب ملک آزاد ہوا تھا تو ہندوستان کے پاس امریکہ کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ پھر بھی امریکی صدر ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر انتظار کرتے تھے۔ جب 2008 میں معاشی بحران آیا تو امریکی صدر براک اوباما سے لے کر برطانوی وزیر اعظم گارڈن براؤن تک نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں عشائیہ میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بغور سنا۔ مودی کو ایسا احترام کبھی نہیں ملا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔