پردھان سیوک کی ’من کی بات‘... اعظم شہاب

شاید پہلی بار پردھان سیوک نے ملک کو درپیش چیلنجس کی بات کی، مگر انہوں نے ’سنکٹ سے نئے سبق سیکھنے’ کا جو تذکرہ فرمایا وہ بی جے پی اور پردھان سیوک کے لیے تو یقیناً ہوسکتا ہے، مگرملک کے لیے ہرگز نہیں۔

من کی بات، تصویر آئی اے این ایس
من کی بات، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

جیسا کہ ان کالموں میں اس سے قبل بھی عرض کیا گیا تھا کہ ہمارے پردھان سیوک جی کچھ کریں نا کریں لیکن ایک کام وہ نہایت ایمانداری و پابندی سے ضرور کرتے ہیں اور وہ ہے ’من کی بات‘۔ انہیں اپنے من کی بات کرتے ہوئے اس بات کا بھی ہوش نہیں رہتا کہ کبھی ملک کی بھی بات کرنی چاہیے۔ اسی لیے کبھی وہ تالیوں وتھالیوں کی بات کرتے ہیں تو کبھی آوارہ کتوں کی خوبیاں بیان کرتے ہیں، کبھی مہابھارت کی جنگ کی بات کرتے ہیں تو کبھی کارگل کے شہیدوں کے جذبہ شہادت کو کیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں توکبھی اس ’آتم نربھرتا‘ کا درس دینے لگتے ہیں جس کا تلفظ ادا کرتے ہوئے خود ان کے وزیر داخلہ تک لکنت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مہاشے جی کے ’من کی بات‘ کو لوگوں نے اب نہ صرف لطیفوں کے زمرے میں لینا شروع کر دیا ہے بلکہ ٹوئٹر پر ’مودی بکواس بند کر‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے ہیں۔

پردھان سیوک جی نے آج یعنی27 دسمبر2020 کو اس سال کے اپنی آخری ’من کی بات‘ کی۔ اس لفظ ’آخری‘ کو سن کر اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہوئی ہو کہ الف لیلہ کا یہ سیریل اب اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے تو برائے مہربانی وہ اپنی خوش فہمی کو رفع کرلیں، کیونکہ اب یہ سیریل 2.0 کے ٹائیٹل کے ساتھ آنے لگا ہے۔ ’من کی بات‘ بالکل اسی آب وتاب سے آئندہ سال بھی جاری رہے گی جو اس کا خاصہ ہے یعنی کہ کوئی سنے، نہ سنے، ٹرول کرے، بائیکاٹ کرے، ناپسند کرے، لعن و طعن کرے، یہ ہر ماہ پابندی کے ساتھ جاری رہے گی۔ ٹی وی پرآنے والی سیریلوں کے ٹیلی کاسٹ کی مقبولیت کے لیے باکس آفس کا ایک پیمانہ ہوتا ہے، لیکن یہ ہندوستانی ٹی وی وریڈیو کا پہلا اور شاید آخری بھی، سیریل ہے جسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس کے تعلق سے لوگوں کی ناپسندیدگی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ Dislikeکا بٹن ہی غائب کر دیا جاتا ہے، مگر سیریل کا ٹیلی کاسٹ جاری رہتا ہے۔


بہر حال آئیے آج کے ’من کی بات‘ پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پردھان سیوک نے اپنے اس ون وے ٹرافک میں ملک کو درپیش چیلنجس کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ’اس سال بہت سارے چیلنجس آئے، مشکلات بھی آئیں، کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی لیکن ہم نے ہر ’سنکٹ‘ سے نئے سبق سیکھے‘۔ پردھان سیوک کی یہ بات مجھ جیسے مبتدیوں کے لیے تو کسی انکشاف سے کم نہیں ہوگی کہ ہمارا ملک بھی کورونا سے متاثر ہوا ہے۔ پردھان سیوک کے اس پروچن سے ہمیں آج معلوم ہوا کہ ملک مشکلات کا شکار ہوا اور کورونا سے دنیا بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی۔ اگر موصوف یہ نہ بتاتے تو شاید اتنے بڑے انکشاف سے ہم محروم رہ جاتے۔ بہر حال انہوں نے ہرسنکٹ سے نئے سبق سیکھنے کی جو بات کی، اس کے بارے میں جہاں تک ہمیں معلوم ہے کورونا کے اس ’سنکٹ‘ میں انہوں نے اور ان کی پارٹی نے یہ سبق ضرور سیکھا کہ ملک کے مزدوروں وغریبوں کو بے سہارا کیسے چھوڑا جاتا ہے اور ان غریبوں نے یہ سبق سیکھا کہ ہزاروں میل تک پیدل کا سفر کیسے کیا جاتا ہے۔ عین کورونا کے دورران کس طرح مدھیہ پردیش کی ایک منتخب حکومت کا تختہ پلٹا جاتا ہے، کس طرح راجستھان میں حکومت گرانے کی کوشش کی جاتی ہے، کس طرح جموں وکشمیر کو ہر قسم کے رابطے سے محروم رکھا جاتا ہے، کس طرح امریکہ کے صدر کو گجرات میں نمستے کہا جاتا ہے۔ واقعی یہ بہت بڑے سبق ہیں۔ ان اسباق کے لیے ہمیں کورونا کے ساتھ پردھان سیوک اور ان کی پارٹی کا بھی شکریہ ضرور ادا کرنا چاہیے۔

پردھان سویک جی نے ملک کے نوجوانوں، کاروباریوں وعام لوگوں سے ملک کے مفاد میں آگے آنے کی بھی اپیل کی۔ اگر وہ اسی کے ساتھ اس کی بھی وضاحت فرمادیتے کہ اس ’آگے آنے‘ سے ان کا کیا مطلب ہے تو ہم جیسے مبتدیوں کی سمجھ میں بھی ان کی یہ فلسفیانہ بات آجاتی۔ کیونکہ ہم تو ابھی تک یہی سمجھ رہے تھے کہ ملک کے عوام کی رہنمائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور ملک کا ہرشہری ہمہ وقت ملک کے مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔ مگر آج یہ پہلی بار معلوم ہوا کہ ملک کے نوجوان، کاروباری اور ماہرین تعلیم ملک کے مفاد کو بالائے طاق رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو واقعی بہت تشویشناک بات ہے۔ لیکن اگر زمینی حقیقت پر نظر ڈالیں تو آ ج ہمارے ملک کا نوجوان اس کگار پر پہنچا ہوا ہے کہ اس کے لیے اپنا پیٹ بھرنا تک مشکل ہو رہا ہے۔ ملک میں معاشی انقلاب لانے کے اعلان کے ساتھ شروع ہوئی نوٹ بندی وجی ایس ٹی نے چند ایک صنعتکاروں کو چھوڑ کر ملک کے کاروبار یوں کو تقریباً تباہ کردیا ہے۔ اس کے باوجود ملک کا ہرشہری ملک کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، اب معلوم نہیں مہاشے جی انہیں آگے لاکر انہیں کون سی سرحد پر تعینات کرنا چاہتے ہیں۔


بہر حال پردھان سیوک جی کے اس ’من کی بات‘ کی دو اہم باتیں بھی ہیں۔ موصوف نے جن لوگوں سے ملک کے مفاد میں آگے آنے کی اپیل کی، اس میں کہیں بھی کسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ کسان ملک کے مفاد میں پہلے سے آگے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ملک کے مفاد میں گزشتہ مہینے بھر سے راجدھانی کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں، حکومت ان کو آگے لانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ جو کسان احتجاج کر رہے ہیں وہ ملک مخالف ہیں اور جو مودی جی کے زرعی قوانین کی حمایت کرتے ہیں وہ دیش بھکت ہیں۔ جو لوگ مخالفت کر رہے ہیں وہ زرعی قوانین کی نہیں بلکہ مودی کے حوالے سے ملک کی مخالفت کر رہے ہیں، اسی لیے مودی جی نے ان احتجاجی کسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ یوں بھی مودی جی کے نزدیک ملک کے مفاد کا پیمانہ اڈانی وامبانی جیسے صنعتکاروں کے مفاد سے منسلک ہے، پھربھلا یہ کسان کیسے ملک کے مفاد میں ہوسکتے ہیں۔

’من کی بات‘ میں دوسری اہم بات کچھ لوگوں کے خطوط تھے جنہیں پردھان سیوک نے پڑھ کر بتایا کہ کس طرح لوگوں نے ملک کے عزم اور ملک کے لوگوں کی اجتماعی طاقت کی تعریف کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خطوط واقعتاً لکھے گئے ہوں گے مگر ان کے جو نکات مودی جی نے عوام کے سامنے پیش کیے اس میں تو ان کی حکومت کی کوئی قوتِ ارادی سامنے نہیں آئی۔ خطوط لکھنے والوں نے ملک کے عزم اور حوصلے کی بات کہی جس کا انکار شاید ہی کوئی کرسکے۔ اب بھلا یہ ملک کے لوگوں کا عزم وحوصلہ نہیں تو اور کیا تھا کہ کورونا کی وبا کے دوران پردھان سیوک نے کہا کہ سب بھول بھال کر تالی بجاؤ تو سب تالی بجانے لگے، انہوں نے کہ تھالی بجاؤ تو لوگوں نے تھالیاں بھی پیٹ دیں، کسی نے پردھان سیوک کو سجھادیا کہ چراغ جلوایا جائے تو لوگوں نے وہ بھی کردیا۔ سچائی یہ ہے کہ پورے ملک نے اپنے عمل اور اپنے صبر کے ذریعے اپنے عزم وحوصلے کا تو بھرپورمظاہرہ کیا، مگرہمارے پردھان سیوک کا عزم وحوصلہ یہ رہا کہ ملک کی سرحد پر قابض چین کا وہ آج تک نام نہیں لے سکے ہیں۔


مودی جی کا ایک خاص انداز ردیف وقافیہ کا بھی رہا ہے۔ سو اس ’من کی بات‘ میں بھی موصوف اپنے اس ظریفانہ انداز سے باز نہیں آئے۔ انہوں نے لو’ووکل فارلوکل‘ اور ’زیرو ایفیکٹ، زیرو ڈیفیکٹ‘ کا چٹکلا پیش فرمایا ہے۔ شاید آپ یہ کہیں کہ یہ چٹکلا کیونکر ہوا، یہ تو مودی جی کی لوگوں سے اپیل تھی؟ تو جناب ذرا مودی جی کی اس اپیل پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے جو کورونا کی روک تھام کے لیے انہیں نے کی تھی کہ ’جب تک دوائی نہیں، تب تک ڈھلائی نہیں‘۔ لیکن معلوم یہ ہوا کہ بی جے پی کے ممبران اسمبلی تک پر کورونا کے دوران لاپرواہی برتنے کے معاملے درج ہورہے ہیں۔ بہرحال بات طویل ہو جائے گی، اس لیے ہم اپنی بات اس پر ختم کریں گے کہ مودی جی نے سال کے اپنے آخری ’من کی بات‘ میں ان کسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جن کی حمایت میں آج پورا ملک امنڈا ہوا ہے، یہاں تک کہ این ڈی اے میں شگاف پڑتا جارہا ہے۔ شاید مودی جی کے نزدیک کسانوں کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اسی لیے کسانوں کے پردھان سیوک کے ’من کی بات‘ کا اسی طرح ’سواگت‘ کیا جس طرح انہوں نے لوگوں سے تالی وتھالی بجوائی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔