سنہ 2020: قدرت کا قہر، قیامت کے آثار!... ظفر آغا

سائنس اور قدرت کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ہوگا، اس توازن میں ہی انسان کی بقا ہے اور اگر یہ توازن اب بھی نہیں تلاش کیا گیا، تو پھر بس قیامت ہی ہوگی

سنہ  2020 میں خانہ کعبہ کی ایسی تصویر دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دل لرز کر رہ گئے/ Getty Images
سنہ 2020 میں خانہ کعبہ کی ایسی تصویر دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دل لرز کر رہ گئے/ Getty Images
user

ظفر آغا

منحوس! بس محض ایک یہی لفظ ہے جو سنہ 2020 کے تعلق سے یکایک ذہن میں کوند پڑتا ہے۔ اگر اس سال کو منحوس نہ کہا جائے تو اور کس برس کو منحوس سمجھا جائے گا۔ ارے یہ وہ برس ہے جب انسانیت تالے میں بند ہو گئی۔ سارا عالم موت کے خوف سے سہما خود اپنی مرضی سے گھروں میں قید ہو گیا۔ انسانی تاریخ میں جو آج تک نہیں ہوا، وہ اس ایک سنہ 2020 میں ہو گیا۔ دنیا میں کوئی ایسا دوسرا سال نہیں کہ جب انسان پیٹ کے لیے دو روٹی تک کمانا بھول کر گھر میں دُبک جائے۔ لیکن سنہ 2020 میں یہ بھی ہو گیا۔ بازار بند، کارخانے بند، آفس دفتر بند، ریل گاڑی بند، ہوائی جہاز، ہوائی اڈوں پر خاموش گردن جھکائے بند، سڑکوں پر چلنے پھرنے کا ہر ذریعہ بند۔ چہار سو ہُو کا وہ عالم کہ بھرے دن میں پتّہ بھی کھڑکے تو دل دہل جائے۔ چاروں طرف موت کا سناٹا، ڈری سہمی زندگی۔ ایک ایسی منحوس زندگی جس کا تصور کر اب دل دہل جاتا ہے۔

یہ کیوں اور کیسے ہوا! اس سوال کا بھی جواب کسی کے پاس نہیں۔ انسان جو اس اکڑ میں تھا کہ اس نے پوری فطرت اور قدرت اپنی مٹھی میں کر لی ہے، اس کو ایک معمولی سے وائرس نے لاچار و مجبور کر دیا۔ چین میں پیدا ہونے والے وائرس نے دو مہینوں میں ایسی چھلانگ لگائی کہ انسان کی ساری ترقی دھری کی دھری رہ گئی۔ کتنے ہزاروں برس لگے تھے اس انسان کو فطرت کو قابو کرنے میں۔ وہ جنگلوں سے ڈرتے ڈرتے باہر نکلا، دو پتھروں کو رگڑ کر اس نے آگ جلانی سیکھی، پھر اس کو کھانا پکانے کی چاہ ہوئی۔ اب کھانے کے لیے محض شکار ہی نہیں بلکہ جنگل میں اگی سبزیوں کو اکٹھا کر اس نے کھانا بنانا شروع کیا۔ پھر کھانے کا سامان اکٹھا کرنے کے لیے اس نے ندیوں کے کنارے کھیتی باڑی شروع کر دی اور اس طرح دھیرے دھیرے ندیوں کے کنارے پہلے بستیاں بسیں اور پھر انسانی تہذیب و تمدن کا کارواں چل پڑا۔


آہستہ آہستہ انسان کو یہ سمجھ میں آ گیا کہ بس فطرت اور قدرت ہی سب سے بڑا خزانہ ہے اور اسی میں چھپے رموز کو سمجھ کر وہ ترقی کر سکتا ہے۔ بس فطرت کے انہی اصولوں کو سمجھنے کے علم کا نام سائنس پڑ گیا۔ ارے آج آپ جس کو نیوٹن لاء کہتے ہیں، وہ کوئی نیوٹن نے تھوڑی ایجاد کیا تھا۔ وہ سیب جس کو نیوٹن نے درخت سے گرتے دیکھ کر بڑے سائنسی قوانین بنا دیے، وہ سیب تو نیوٹن سے ہزاروں برس قبل بھی یوں ہی گر رہا تھا۔ بس نیوٹن کا کمال صرف اتنا تھا کہ وہ پہلا انسان تھا جس کو فطرت کا یہ اصول سمجھ میں آ گیا کہ زمین چیزوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ بس انسان نے فطرت کے اصولوں کی ایسی چھان بین شروع کی، اس نے بھاپ کی طاقت سے ریل انجن چلایا اور اسی بھاپ سے بجلی پیدا کر لی۔ بس پھر کیا تھا، سائنس کے کاندھوں پر سوار مغرب نے ایک انڈسٹریل انقلاب بپا کر دیا جس کو وہ انڈسٹریل تہذیب کہنے لگا۔ اور بس اس تہذیب نے ایسی چھلانگیں لگانی شروع کیں کہ اکیسویں صدی آتے آتے موبائل فون، واٹس ایپ، فیس بک اور اب کہانی زوم تک پہنچ گئی۔

لیکن انسان کو اپنی ترقی پر غرور ہو گیا اور وہ اپنی اکڑ میں یہ بھول گیا کہ وہ جس ترقی پر پھولتا ہے وہ ساری ترقی فطرت کے اصولوں پر مبنی ہے جس کو اس نے سائنس کا نام دے رکھا ہے۔ اب وہ فطرت کو ہی بھول گیا۔ اس نے اب جنگل کے جنگل کاٹ ڈالے۔ ندیوں کو ایسا گندا کیا کہ وہ سوکھنے لگیں۔ قدرت نے اس کو زمین کے نیچے جو پانی دیا تھا، اس کو اتنا کھینچا کہ شہر کے شہر پیاسے رہ گئے۔ پہاڑوں کو کاٹ کر مکان بنا ڈالے۔ سمندر پاٹ کر بستی بسا ڈالیں۔ ترقی کی دوڑ میں ایسے لق و دق کارخانے بنا ڈالے کہ جن سے اگلتے کالے دھوئیں سے دن سیاہ پڑ گئے۔ بس اب وہ اکڑ تھی کہ وہ سمجھنے لگا کہ یہ فطرت اور قدرت کی دین نہیں بلکہ وہ اس کی خود کی ایجاد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب وہ جنگلوں میں تھا تب بھی اور آج بھی قدرت کے آگے بونا ہے۔


غالباً انسان کے اسی غرور نے قدرت کو ایسا بے چین کر دیا کہ اس کی کوکھ سے جس میں ایک چھوٹے سے وائرس نے اس کو ایسا لاچار کر دیا کہ اس کی تمام ترقی ٹھپ اور بے معنی ہو گئی اور آخر وہ چیخ اٹھا، یا اللہ رحم۔ اس نے سال بھر کی محنت کے بعد اس وائرس پر قابو پانے کو ایک ویکسین بنائی تو ولایت میں اسی وائرس نے ایک نیا رنگ لے لیا۔ اس کی ساری اکڑ پھر دھری کی دھری رہ گئی۔ اور پھر وہ چیخ اٹھا کہ کیا پھر سے لاک ڈاؤن لگے گا۔ یعنی سنہ 2020 کی شروعات میں جس منحوسیت کا سایہ اس کے سر پر تھا وہی سایہ پھر سے سنہ 2021 کے آغاز میں بھی سوار ہے۔ پھر وہی بے بسی اور لاچارگی! اب کیا ہو، کیسے بچیں۔ وہی سوال جس کا کوئی جواب کہیں نہیں۔ لیکن انسان ٹھہرا آخر انسان۔ وہ ہار مان کر بیٹھنے والا تو ہے نہیں۔ اس کو اس مصیبت سے نکلنے کا حل چاہیے۔ آخر جواب ملے گا تو اسی قدرت سے۔ اسی قدرت کے اصولوں کو سمجھ کر ہی کوئی کاٹ نکلے گی۔ آخر ہیضہ، ٹی بی اور ایڈس جیسی مہلک وبا کو اس انسان نے قابو میں کیا ہی۔ اسی طرح کورونا وائرس سے پھیلنے والی با کی بھی کوئی کاٹ نکلے گی ہی۔ لیکن اس بار قدرت نے انسان کو جو وارننگ دی ہے، وہ سبق سیکھنے کا مقام ہے۔

یوں جانیے کہ کورونا وائرس سے پھیلی وبا انسان کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے۔ اس وبا کی آڑ میں غالباً قدرت انسان کو یہ بتا رہی ہے کہ بس اب اور نہیں، ورنہ! وہ ہم کو شاید یہ یاد دلا رہی ہے کہ ہم جن جنگلوں سے نکل کر آئے، آخر انہی کے دشمن بن گئے۔ ہم کو جن پہاڑوں نے گنگا جمنا جیسی بڑی بڑی ندیاں دیں، ہم نے ان پہاڑوں کو ہی کاٹنا شروع کر دیا۔ جن قدرت کے اصولوں کو سمجھ کر انسان ترقی کی چھلانگیں لگائیں، اس نے اسی پر تباہی مچانا شروع کر دی۔ اگر انسان ابھی بھی قدرت سے ایسا ہی کھلواڑ کرتا رہا تو پھر غالباً قیامت ہی بپا ہو۔ آخر مذہب نے یہی تو بتایا ہے کہ قیامت کے روز پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے اور سمندر زمین کو نگل جائے گا۔ شاید کورونا وائرس کے ذریعہ قدرت یہ اشارہ کر رہی ہے کہ سنبھل جاؤ ورنہ پھر قیامت کے لیے تیار رہو۔ ابھی تو ایک معمولی سا وائرس ہے جس نے ہوش اڑا دیے۔ اگر پہاڑ، جنگل، دریا اور سمندر برس پڑے تو پھر قیامت ہی تو ہوگی۔


سنہ 2020 میں انسانی زندگی محض رکی تھمی ہے۔ اس کی تمام ترقی بے بس و بے کار سی ہو گئی ہے۔ ابھی اس کو قیامت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ابھی دنیا میں صرف چند لاکھ لوگ ہی مرے ہیں۔ اس کو قدرت کی ایک وارننگ سمجھیے۔ لیکن اگر قدرت کے ساتھ یہی مذاق چلتا رہا تو قیامت بھی ممکن ہے۔ اس لیے نئے سال میں اس وبا سے سبق حاصل کر اس مصیبت کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ لیکن حل ہے کیا! اس حل کی تلاش سب کو مل بیٹھ کر ہی کرنا ہوگی۔ لیکن سنہ 2020 کے خاتمے پر یہ طے ہے کہ انسان کو سائنس کے کاندھوں پر سوار انڈسٹریل تہذیب کو لگام دینی ہوگی۔ جن قدرت کے اصولوں کو سمجھ کر انسان منافع کمانے کی دوڑ میں بھاگا جا رہا ہے، اس دوڑ کی رفتار کم کرنی ہوگی۔ یہ تو طے ہے کہ انسان سائنس کے بغیر اب جی نہیں سکتا۔ یہ بھی طے ہے کہ قدرت کو ایک حد سے زیادہ دوہا نہیں جا سکتا۔ اس لیے سائنس اور قدرت کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ہوگا۔ بس قدرت اور سائنس کے توازن میں ہی انسان کی بقا ہے۔ اور اگر یہ توازن اب بھی نہیں تلاش کیا گیا، تو پھر بس قیامت ہی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 27 Dec 2020, 10:11 AM