راہل گاندھی کے خلاف بی جے پی کی ’ڈرٹی ٹرکس‘ سے ظاہر ہو گیا کہ برسراقتدار طبقہ خوفزدہ ہے!

سبھی علاقائی پارٹیوں کو شکست دے کر یا پھر ڈرا دھمکا کر خاموش کرا چکی بی جے پی نے یہ سوچتے ہوئے اپنی سبھی توپوں کا منھ راہل کی طرف کر دیا ہے کہ ایک بار انھیں میدان سے باہر کر دو تو 2024 ان کا ہوگا۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی / ٹوئٹر / @INCIndia</p></div>

راہل گاندھی / ٹوئٹر / @INCIndia

user

ابھے شکلا

بی جے پی نے جیسے خود اپنی ہی پیٹھ پر لات مار لی ہے۔ اس نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے میں ذرا بھی وقت نہیں گنوایا کہ راہل گاندھی نے کیمبرج میں ہندوستانی جمہوریت کے زوال کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ سچ ہی تھا۔ کیمبرج معاملہ کے بعد سے ہی بی جے پی نے راہل گاندھی کو پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا ہے۔ ان کے پرانے بیان کو لے کر انھیں قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے، پھر انھیں نااہل ٹھہرا کر پارلیمنٹ سے نکال دیا جاتا ہے۔ ایک ایسا عمل جس کا خمیازہ صرف اپوزیشن لیڈران کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ان سب کے درمیان بی جے پی کو دو محاذ پر راحت مل جاتی ہے۔ پہلا مالیاتی بل بغیر کسی بحث کے محض 12 منٹ میں پاس کرا لیا جاتا ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے، اور دوسرا مودی کے ’دوست‘ پر کسی طرح کی ممکنہ بحث کو روک دیا جاتا ہے۔

پارٹی کے اس طرح کے بڑے قدم اٹھانے کے پیچھے کون سی پالیسی رہی ہوگی، اس کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے لیکن ایک لمحہ کے لیے بھی میں یہ نہیں مان سکتا کہ بی جے پی گھبرا گئی ہے۔ میرا تو یہی ماننا ہے کہ بی جے پی کبھی گھبراتی نہیں ہے، وہ مزید شاطر اور بے رحم ہو جاتی ہے۔ راہل گاندھی کے خلاف کارروائی سبھی اپوزیشن لیڈران کو ایک ایک کر کے ’کنارے لگاتے جانے‘ اور 2024 کے عام انتخابات سے پہلے ہی اپوزیشن سے پاک ہندوستان یقینی بنانے کی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔ انتخاب کوئی بھی پارٹی جیت سکتی ہے، لیکن کتنے لوگ ووٹ ڈالے جانے سے پہلے جیت پاتے ہیں؟ مایاوتی، ممتا بنرجی، اکھلیش یادو، وائی ایس آر اور نوین پٹنایک کو بھی مختلف طریقوں سے خاموش کرا دیا گیا ہے۔ کیجریوال، تیجسوی اور سورین پر اجگر اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ نتیش کمار انتخابی پہیلی بنے ہوئے ہیں اور کسی بھی طرف جا سکتے ہیں۔ راہل گاندھی تنہا بڑے لیڈر ہیں جس نے اولیور ٹوئسٹ کی طرح پہلے سے تیار ’اسکرپٹ‘ کو پڑھنے سے انکار کر دیا ہے اور اس لیے ’مسٹر بمبل‘ کو چھڑی پھٹکارنی پڑی۔


حالانکہ ایسا لگتا ہے اپنی بلا کی طاقت اور فتح کے جذبہ سے پیدا تکبر کی وجہ سے بی جے پی راستے سے بھٹک گئی ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی اب صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں رہی، اب یہ ایک فوجی جمگھٹ یا ملیشیا بن گئی ہے جو انتخاب ہو یا نہیں، ہر وقت جنگ کرتی رہتی ہے۔ ویسے جنگ کے بھی کچھ ایسے اصول ہوتے ہیں جو جانچے پرکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک نیپولین بوناپارٹ نے کہا تھا ’’آپ کو ایک ہی دشمن کے ساتھ بار بار نہیں لڑنا چاہیے، ورنہ آپ اسے اپنے سارے جنگی فن سکھا دیں گے۔‘‘ اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ مودی نہ صرف خود کو یونانی بادشاہ ہیرود سے بہتر سمجھنے لگے ہیں بلکہ انھیں تو شاید اس بات کا بھی یقین ہوگا کہ وہ نیپولین کو بھی کچھ باتیں سکھا سکتے ہیں۔

شاید ان سب کا ہی اثر ہے کہ اس بار جب راہل گاندھی کو نشانے پر لیا گیا تو وزیر اعظم عہدہ کے خواب سنجوئے اپوزیشن لیڈران کو محسوس ہوا کہ اب یہ صاف کر دینے کا وقت آ گیا ہے کہ یا تو ایک ہو کر رہیں یا پھر الگ الگ رہ کر بی جے پی حکمراں ریاستوں کی جیلوں میں دن کاٹیں۔ ان لوگوں کو آخر کار احساس ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے لیے ان کا جیل سے باہر رہنا ضروری ہے اور یہ یقینی کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ’جیلر‘ سے ریاست کی چابی لے لی جائے۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے ہی سہی، وہ ساتھ آ رہے ہیں۔


بی جے پی کی دوسری بھول اب بھی اسی غلط فہمی میں رہنا ہے کہ راہل گاندھی ’پپو‘ ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ راہل کبھی بھی ’پپو‘ نہیں تھے لیکن انھوں نے بکاؤ میڈیا کے ذریعہ اس جھوٹ کو تیار کیا اور پھر لوگوں تک پہنچا دیا۔ بھارت جوڑو یاترا نے اس غلط سوچ کو چکناچور کر دیا ہے۔ مودی-اڈانی پر پارلیمنٹ میں اپنے خطاب اور انگلینڈ میں ہندوستان کی جمہوریت کے بارے میں ظاہر کی گئی اپنی سوچی سمجھی فکروں سے راہل نے اس جھوٹ کو پوری طرح منہدم کر دیا ہے۔ اب تو بڑی تعداد میں بی جے پی کے لوگ بھی ماننے لگے ہوں گے کہ نہ صرف راہل گاندھی کے پاس ایک لیڈر ہونے کی اخلاقی بنیاد ہے بلکہ ان میں اپنی سوچ کے تئیں اعتماد اور اس اعتماد کے ساتھ پرعزم کھڑے رہنے کی ہمت بھی ہے۔ راہل تنہا ایسے اپوزیشن لیڈر ہیں جو حکومت کے تغلقی فیصلوں، بدعنوانی، جھوٹ، ظلم اور قومی سیکورٹی کو نظر انداز کرنے کے لیے اس پر لگاتار حملے کر رہے ہیں۔ وہ دوسرے لیڈروں کی طرح نہیں جن کے سُر کسی نظریہ یا اصول پر نہیں بلکہ ای ڈی اور سی بی آئی کے رخ کی بنیاد پر اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بکا ہوا میڈیا اور پول ایجنسیاں بھی ماننے لگی ہیں کہ راہل گاندھی کی مقبولیت کا گراف اوپر چڑھ رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مودی-شاہ لوگوں کے اس بدلے ہوئے نظریے کو غلط طریقے سے پڑھ رہے ہیں اور اب بھی پرانے ٹول کٹ پر چل رہے ہیں۔ کم و بیش سبھی علاقائی پارٹیوں کو شکست دے کر یا پھر ڈرا دھمکا کر انھیں خاموش کرا چکی بی جے پی نے یہ سوچتے ہوئے اپنی ساری توپوں کا منھ راہل گاندھی کی طرف کر دیا ہے کہ ایک بار انھیں میدان سے باہر کر دو تو 2024 ان کا ہوگا۔ اگر اسے بحریہ کی جنگی پالیسی کی زبان میں کہیں تو یہ ویسا ہی ہے کہ جب آپ ایسکارٹ کرنے والے ڈسٹرائر کو ختم کر دیں تو بڑے آرام سے بڑے طیارہ بردار آبدوز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن بی جے پی نے اس میں ایک غلطی کی ہے۔ وہ طیارہ بردار آبدوز اب وہاں نہیں رہا، وہ آگے بڑھ گیا ہے اور بی جے پی کے توپ کے ہدف والے رینج سے باہر ہو گیا ہے۔


راہل گاندھی اب اپوزیشن کو تقسیم کرنے والی نہیں بلکہ انھیں جوڑنے والی طاقت بن گئے ہیں۔ راہل گاندھی کو قصوروار ٹھہرانے اور پارلیمنٹ سے معطل کر دینے سے یہ عمل تیز اور آسان ہو گیا ہے۔ اس نے میڈیا کو بھی انھیں جگہ دینے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ان واقعات کے بعد وہ پرائم ٹائم پر وزیر اعظم سے بھی زیادہ چھائے رہے۔ اگر اس ملک میں 2024 کے بعد بھی جمہوریت کو زندہ رہنا ہے تو اس میں عدلیہ کا اہم کردار ہونے والا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد اس کے لیے بھی قابل ترغیب ثابت ہو۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کانگریس کو یہ محسوس کرنا ہوگا کہ آج کی بی جے پی سے وہ تنہا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اسے دوسروں کی ضرورت ہوگی، ٹھیک ویسے ہی جیسے دوسری پارٹیوں کو بھی بی جے پی سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے کانگریس کی ضرورت ہوگی۔ بھارت جوڑو یاترا کی رواداری کو اب انتخابی سیاست میں بھی اتارنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انتخابی پالیسی بنانا اور اسے زمین پر اتارنا، جن ریاستوں میں کانگریس کمزور ہے وہاں پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی ہمت دکھانا۔ مثال کے لیے کانگریس کو اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی، بنگال میں ترنمول کانگریس، بہار میں جنتا دل یو اور آر جے ڈی اتحاد، تو تلنگانہ میں کے سی آر کو بڑے کھلاڑی کے کردار میں قبول کرنا چاہیے اور ان کی شرطوں پر سیٹوں کی تقسیم کرنی چاہیے۔ اسی طرح دوسری پارٹیوں کو بھی قبول کرنا ہوگا کہ کانگریس اس ملک کی سب سے بڑی قومی پارٹی ہے اور جہاں کانگریس مضبوط ہے وہاں ان پارٹیوں کو بھی کانگریس کے جذبات کا احترام کرنا ہوگا۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش، گوا، آسام، گجرات اور کرناٹک میں کانگریس و بی جے پی میں براہ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ ان میں لوک سبھا کی 190 سیٹیں ہیں۔ اس طرح جب بھی انتخاب کے بعد کوئی اتحاد ہوگا، کانگریس فطری طور پر اس کی قیادت کرے گی۔


جہاں تک بی جے پی کی بات ہے، ’ڈرٹی ٹرکس‘ کی اس کی جھولی تیزی سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ اور وہ کیا کر سکتی ہے؟ بہار میں راہل کے خلاف چل رہے ہتک عزتی کے معاملے کو تیز کروا دے؟ نیشنل ہیرالڈ کیس کی سماعت کو فاسٹ ٹریک پر ڈال دے؟ یا پھر راہل گاندھی کو جیل میں ڈال دے؟ بی جے پی خیمہ میں کھلبلی صاف محسوس کی جا سکتی ہے اور مودی کے سامنے بھی بڑی کشمکش ہے۔ انھیں طے کرنا ہے کہ آزاد گھومتے راہل زیادہ خطرناک ہیں یا پھر جیل میں بند راہل؟

(مضمون نگار سبکدوش آئی اے ایس افسر ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔