راشٹر بھکتی کا ٹانک پی کر بے ہوش ہو چکے عوام کو بیدار کرنے کی ضرورت

حیرت کی بات ہے کہ 2014 سے پہلے تک ان مہارتھیوں کو بھی آج سانپ سونگھ گیا ہے جو سڑکوں پر خالی سلینڈر اٹھائے حکومت کو کوستے نظرآتے تھے۔

مہنگائی پر ہلّا بول ریلی
مہنگائی پر ہلّا بول ریلی
user

نواب علی اختر

موجودہ وقت میں مہنگائی نے عام آدمی کے ساتھ ساتھ خاص آدمی کی کمر پر بھی ہتھوڑے مارنے شروع کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے تقریباً ہر شعبہ زندگی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ کم وبیش یہی صورتحال تقریباً تمام اقوام میں دیکھی جا رہی ہے اور اس پھن کاڑھے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سربراہان مملکت کی جانب سے سخت فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں اور عوام کو راحت پہنچانے کے لیے ضروری منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں، مگر ہمارے ہندوستان میں صورتحال کچھ مختلف ہے، ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی طرف سے دی گئی ’راشٹر بھکت‘ ٹانک کو پی کرعوام گہری بیہوشی میں چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے مستقبل کی ممکنہ تباہی بھی نہیں دیکھ پا رہے ہیں اور نہ ہی منہ سے چھینے جا رہے نوالے کو محسوس کرنے کی حالت میں ہیں۔

دھیان رہے کہ بعض ممالک میں مہنگائی اور بحران جیسی وجوہات کی بنا پر موجودہ حکومتوں کو بھی جانا پڑا ہے مگر بی جے پی کی قیادت والی نریندرمودی جی کی حکومت پراس کا کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ملک میں بے روزگاری اور کساد بازاری کی جو حالت ہے وہ شاید ہی پہلے کبھی رہی ہولیکن حیرت کی بات ہے کہ 2014 سے پہلے تک ان مہارتھیوں کو بھی آج سانپ سونگھ گیا ہے جو سڑکوں پر خالی سلینڈر اٹھائے حکومت کو کوستے نظر آتے تھے۔ اس کی وجہ بھی صاف ہے کیونکہ کل تک جو لوگ اپوزیشن میں رہ کر کام کی تلاش میں تھے انہیں پارٹی کے ’آقا‘ برتن اور سلینڈر تھما کر یہ کہہ کر سڑکوں پر بھیجتے تھے کہ خالی مت بیٹھو، کچھ کرتے رہو، اس کچھ میں بہت کچھ ہے۔


اگر 2014 سے پہلی کی مہنگائی کا آج کی مہنگائی سے موازنہ کیا جائے تو گنا بھاگ کرنے والوں کی بھی دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی پھر بھی اکثریتی حلقے سے مودی حکومت کے خلاف کوئی آواز نہیں سنی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی کانگریس پارٹی مہنگائی، بے روزگاری اور نفرت انگیزی کی تکلیف میں مبتلا عام آدمی کے درد کا مداوا کرنے کے لیے تحریک چلا رہی ہے۔ اس تحریک کو عوام کی حمایت بھی مل رہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ حمایت ایوان اقتدار کے درو دیوارتک نہیں پہنچ پا رہی ہے اس میں مزید شدت کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہر حقیقی محب وطن ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر وطن اور اس کے شہریوں کے لیے متحدہ آواز بلند کرے گا ورنہ موجودہ حکومت ہرحربے میں ماہر ہے۔

مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو وہ بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے میں مہارت رکھتی ہے اور مہنگائی کے بنیادی مسئلہ سے بھی عوام کی توجہ ہٹانے میں مصروف ہے۔ بی جے پی کی ان کوششوں میں میڈیا کا ایک بڑا حلقہ بھی اہم اور سرگرم رول ادا کر رہا ہے۔ وہ بھی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سلگتے مسائل پر مباحث کروانے کی بجائے عوام میں نفرت کو فروغ دینے اور ہندو۔ مسلم کا راگ الاپنے میں رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ یہی میڈیا حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے ایوان اقتدارمیں براجمان لوگوں کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کو راہ راست پر لانے کے لیے متحدہ اپوزیشن کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔


تازہ صورتحال کو دیکھا جائے تو گزشتہ ماہ اگست میں ہی خوردہ افراط زر کی شرح میں دوبارہ اضافہ کیا گیا ہے جو اب 7 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ملک میں عوام کو مسلسل مہنگائی کی مار سہنی پڑ رہی ہے۔ خاص طور پر خوردہ افراط زر کی شرح میں اضافہ عام آدمی پر پڑنے والے بوجھ کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ خوردہ بازار میں مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ ضروریات زندگی کی ہر شئے کی قیمت دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہے اور جہاں تک آمدنی کی بات ہے تو یہ اضافہ کی بجائے گھٹتی جا رہی ہے۔ روزگار اور ملازمتیں بھی تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ جہاں تک تجارت اور کاروبار کی بات ہے تو بازار کی صورتحال دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تجارتی اداروں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور وہ بھی انحطاط کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

لوگ جو خط افلاس سے کسی قدر اوپر اٹھنے لگے تھے اب دوبارہ غربت کی سطح سے نچلی زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ مودی حکومت میں عوام کو راحت ملنے کی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ جب حکومت کو مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں اضافہ کی یاد دلائی جاتی ہے تو پہلے تو حکومت مہنگائی سے ہی انکار کر دیتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ملک میں کوئی مہنگائی نہیں ہے۔ اگر کہیں ’غلطی‘ سے اعتراف بھی کرلیا گیا تو اس کے لیے بھی ناقابل فہم دلائل پیش کئے جاتے ہیں اور صورتحال کو ایک نیا رخ دیتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مہنگائی نہیں ہے ’راشٹرہت‘ (قومی مفاد) میں قوم کی تعمیر میں عام لوگوں کا حصہ ہے۔ یہ دراصل عوام کو سبز باغ دکھانے اور کڑوی دوا مٹھاس میں بھر کر دینے کے مترادف ہے۔


مجموعی طورپر حکومت عوام کو کسی طرح کی راحت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ حکومت کا رویہ ہر ایک کے لیے یکساں ہے بلکہ کارپوریٹ گھرانوں اور بڑے تاجروں کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضہ جات مسلسل معاف کئے جا رہے ہیں۔ جو کارپوریٹ تاجر ہزاروں کروڑ روپئے قرض لے کر ملک سے فرار ہوچکے ہیں نہ انہیں واپس لایا جا رہا ہے اور نہ ملک میں ان کی جائیداد و املاک پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے۔ حالانکہ آج بلڈوزر حکومت کا سب سے آسان ہتھیار بنا ہوا ہے، جو ’لوجہاد‘ جیسے معاملے میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ سماج کو جوڑنے والے لوگوں کے گھروں پر بڑی تیزی سے بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے مگر وطن عزیز کو توڑنے اور ملک کی بنیاد کھوکھلی کرنے والوں پر حکومت کا ’آشیرواد‘ بنا ہوا ہے۔ اس دوہرے رویئے سے حکومت کی نیت اور ارادوں کا پتہ چلتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔