چہلم امام حسین: شہداء کی بقا کے اعلان کا دن…نواب علی اختر

اگر شہیدوں کے اصل وارث درد ناک واقعات جیسے واقعہ عاشورہ کے دن امام حسین کی شہادت کے بعد اس کے نتائج کی حفاظت کی خاطر کمر بستہ نہ ہوتے تو بعد کی نسلیں ہرگز شہادت کے درخشاں نتائج سے فائدہ نہ اٹھا سکتیں

تصویر نواب علی اختر
تصویر نواب علی اختر
user

نواب علی اختر

محسن انسانیت، نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسین اور ان کے اعزاء اور اصحاب کی مظلومانہ شہادت اور اس کے بعد اہل حرم اور بچوں کی اسیری اور کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں میں 40 دن پورے ہوجانے کی یادوں میں پورا عالم اسلام 20 صفر المظفر کو ہرسال امام مظلوم کا چہلم مناتا ہے۔کربلائے معلیٰ میں بالخصوص آج محشر بپا ہے اور دسیوں لاکھ مشتاق زائرین نے کربلا پہنچ کر نواسہ رسول، فرزند علی و بتول ، قائد انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ عالیہ میں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔

ذہن نشین رہے کہ ایک قوم کی مظلومیت اس وقت دوسری ستم دیدہ زخمی اقوام کے لئے مرہم بن سکتی ہے جب یہ مظلومیت ایک فریاد بن جائے۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے لوگوں کے کانوں تک بھی پہنچے۔ شہادت اس وقت تک اپنا اثر نہیں دکھاتی جب تک اسے زندہ نہ رکھا جائے، اس کی یاد نہ منائی جائے اور اس کے خون میں جوش نہ پیدا ہو اور چہلم وہ دن ہے جب پیغام حسینی کو زندہ رکھنے کا پرچم لہرایا گیا اور وہ دن ہے جب شہداء کی بقا کا اعلان ہوا، چہلم وہ دن ہے جب پہلی بار امام حسین کے زائر ان کی زیارت کو آئے۔

پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات کے اصحاب میں سے جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ آئے امام کی زیارت کے لیے۔ جابر اگرچہ نابینا تھے لیکن عطیہ کا ہاتھ پکڑ کر امام حسین کی قبر پر آئے اور زیارت قبور شہدا کی سنت کا احیاء کیا، ایسا اہم دن ہے چہلم کا دن۔ چہلم سید الشہداء کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کی اہمیت کا راز یہ ہے کہ اس روز امام حسین کے قیام کی یاد ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئی، اس دن اس کی نشر و اشاعت کی بنیاد ڈالی گئی ۔

اگر شہیدوں کے اصلی وارث طرح طرح کے درد ناک واقعات جیسے واقعہ عاشورہ کے دن امام حسین کی شہادت کے بعد اس کے نتائج کی حفاظت کی خاطر کمر بستہ نہ ہوتے تو بعد کی نسلیں ہرگز شہادت کے درخشاں نتائج سے فائدہ نہ اٹھا سکتیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ خداوند متعال شہیدوں کو اسی دنیا میں زندہ رکھتا ہے لیکن دوسرے امور کی طرح خداوند متعال نے اس امر کے لیے جو طبیعی وسائل متعین فرمائے ہیں وہ چیز ہمارے اختیار اور ارادے سے متعلق ہے، یہ ہم ہیں کہ درست اور بجا ارادے کے ذریعے شہیدوں کی یاد اور فلسفہ شہادت کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔


دشمنوں نے ہمیشہ اپنے پروپگنڈوں اور اپنے نشریاتی نظام کے ذریعہ لوگوں کے اذہان کو منحرف کرنے کی کوشش کی لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر میں سید الشہدا کے چہلم پر لوگوں کا سیلاب، ان کی پورے سال کی تبلیغات اور پروپگنڈوں کو بہا لے جاتا ہے۔

یزید کی ظالمانہ اور جابرانہ حکومت نے بھی اپنی تبلیغات کے ذریعے حسین ابن علی کو مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن صحرائے کربلا میں حسین ابن علی کی شہادت کے بعد سید السجاد اور جناب زینب نے اپنے خطبات اور بیانات کے ذریعہ یزید اور اس کے رفقائے کار کے تمام پروپگنڈوں کو بے نقاب کر دیا اور حقیقت کے چاہنے والوں کے سامنے حق و حقیقت کو عیاں کر دیا۔امام حسین اور شہداء کربلا کا چہلم سوئی ہوئی قوموں کو جگانے کا بہترین ذریعہ ہے جس کے بارے میں شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے:

انسان کو بیدار تو ہولینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

چودہ سوسال بعد بھی آج جس اندازسے دنیا بھر میں بلا تفریق مذاہب ومسالک شہدائے کربلا کی یاد منائی جاتی ہے وہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ حضرت امام حسین کی ذات اور آپ کے اہداف آفاقی ہیں۔ دین اسلام کی سربلندی اور انسانی عزو شرف اور حقوق انسانی کی فراہمی و بحالی کی لہو رنگ جدوجہد امام عالی مقام کی عظیم قربانی کی مرہون منت ہے۔اسی لیے دنیا بھر میں مختلف مکاتب فکر کے نہ صرف کروڑوں مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انتہائی عقیدت و احترام سے امام عالی مقام اور ان کے باوفا اور جانثار ساتھیوں کی عظیم قربانی کی یاد مناتے ہیں۔

گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر سے بلاتفریق مذہب و مسلک کروڑوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کا سرزمین کربلا پر جمع ہوکر فرزند رسول اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اگرچہ اس وقت انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے لیکن فرزند رسول سید الشہداء کی ذات ان تمام اختلافات اور طبقات کی تقسیم سے بالاتر تمام انسانوں کے لیے نمونہ عمل ہے ۔اس لئے گذشتہ چودہ صدیوں سے انسانیت آپ کی ذات سے وابستہ رہنے کو اپنے لیے شرف اور رہنمائی کا باعث قرار دے رہی اور بلا تفریق مذہب و مسلک اور خطہ و ملک آپ کے کر دار سے استفادہ کررہی ہے۔


امام حسین علیہ السلام کی سربراہی میں شروع ہونے والی حسینی تحریک کا ایک اہم پہلو بیداری اور احیاء پر مبنی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد پانچ دہائیاں گزر جانے کے بعد حقیقی محمدی اسلام کو دوبارہ اجاگر کرنا تھا۔ روز عاشور اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تاریخی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا قیام ثمر بخش واقع ہوا اور اس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں بیداری کی عظیم لہر معرض وجود میں آئی جس نے طاغوتی حکومتوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔

سید الشہداء حضرت امام حسین کا چہلم پورے عالم اسلام بالخصوص عراق کے مقدس شہر کربلائے معلی میں اسلامی اور مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ چہلم تاریخ اہلبیت کی حیات اور امت مسلمہ کے اقتدار کا مظہر ہے۔ چہلم کا معرفت شناسی ، انسان شناسی اور ہستی شناسی کے مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔چہلم اور عاشورا کے ذریعہ اہلبیت کی تاریخ زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ اہلبیت اور قرآن مجید ہی اسلام کا اصلی محور ہیں اور اہلبیت اور قرآن مجید سے تمسک ہی انسان کی نجات ، فلاح و بہبود کا ذریعہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔