منی پور ’گجرات 2002‘ کا ریپلے ہے، وہاں نشانہ مسلمان تھے یہاں عیسائی... عبید اللہ ناصر 

نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کا ایک 3 رکنی وفد حقائق جاننے کے لئے منی پور گیا تھا، اس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ منی پور سرکار کی ناک کے نیچے کوکی قبیلہ کے خلاف نفرت آمیز مہم بہت دنوں سے چل رہی تھی۔

<div class="paragraphs"><p>منی پور تشدد، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

منی پور تشدد، تصویر آئی اے این ایس

user

عبیداللہ ناصر

اقتدار اور تعداد کے نشے میں اس ملک کو تباہ و برباد کرنے کی جو مہم گزشتہ کئی دہائیوں سے چل رہی ہے، منی پور میں لگی آگ اسی خطرناک سازش کا حصہ ہے۔ مختصر میں کہا جائے تو 2023 میں منی پور میں گجرات 2002 کو دوہرایا گیا ہے۔ اگر گجرات 2002 کو یاد کیا جائے تو وہ سارے منظر آپ کو منی پور میں بھی دکھائی دے جائیں گے۔ دو عیسائی کوکی خواتین کی برہنہ پریڈ اور اس کے بعد ان کا قتل خود منی پور کے وزیر اعلی کے مطابق اکلوتہ واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ گجرات میں بھی تو یہی ہوا تھا، بلقیس بانو کا معاملہ اکیلا نہیں تھا۔ درجنوں بلقیس بانو ہوئی تھیں اور سب کے مجرم آزاد گھوم روہے ہیں کیونکہ وہ پورا تانڈو سرکار کی سرپرستی میں ہوا تھا۔

آج منی پور میں بھی یہی ہو رہا ہے اور مرکزی و ریاستی حکومتیں جرم کی پردہ پوشی میں لگی ہوئی ہیں۔ تب اٹل جی وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے گجرات کے وزیر اعلی کو ’راج دھرم‘ نباہنے کی تلقین کی تھی، اب تو یہ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ الٹے ایک جرم کو دوسرے جرم کی مثال دے کر حق بجانب قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پوری بے شرمی کے ساتھ منی پور میں دو خواتین کے ساتھ ہوئے جرم کا دوسری ریاستوں میں خواتین کے ساتھ ہوئے جرم سے موازنہ کیا جا رہا ہے اور افسوس شرم کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم نے ہی اپنی پارٹی اور حکومت کے لوگوں کو یہی لائن پکڑا دی ہے۔ منی پور کے واقعہ پر کسی قسم کی ندامت اور شرمندگی کا اظہار نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ جرم اور نسل کشی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ دوسری ریاستوں میں جو ہوا وہ شرمناک اور غلط اور افسوسناک ہے، لیکن منی پور میں تو نسل کشی ہو رہی ہے۔ وہاں 150 سے زیادہ ایک ہی فرقہ کے لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو کر کیمپوں میں جہنمی زندگی گزار رہے ہیں۔ سینکڑوں چرچوں کو جلایا جا چکا ہے۔ ممتاز صحافی کرن تھاپر سے گفتگو کرتے ہوئے میتئی قبیلہ کا لیڈر کھلے عام کوکی قبیلہ کے لوگوں کو ختم کر دینے کی بات کرتا ہے اور آزاد گھوم رہا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے 60 لاکھ مسلمانوں کی نسل کشی کا ببانگ دہل اعلان کرنے والے ہندو سادھو آزاد گھوم رہے ہیں۔ پورے حالات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ریاستی اور مرکزی حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے کیونکہ دونوں جگہ نام نہاد ڈبل انجن کی سرکار ہے۔


نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کا ایک تین رکنی وفد حقائق جاننے کے لئے منی پور گیا تھا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ منی پور کی بی جے پی سرکار کی ناک کے نیچے عیسائی کوکی قبیلہ کے خلاف نفرت آمیز مہم بہت دنوں سے چل رہی تھی۔ 4 مئی کو تشدد شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت نے نیو چیکون علاقہ میں ناجائز تعمیر کا الزام لگا کر تین چرچوں کو منہدم کر دیا۔ اس کے بعد کانگ پوپکی اور تنگوپال علاقہ میں کوکی عیسایوں کے درجنن گاؤں کو تحفظ جنگلات قانون کے نام پر اجاڑ دیا گیا اور ان کے رہنے کا کوئی متبادل بندوبست بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے دو کوکی انتہا پسند تنظیموں سے امن کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ حالانکہ یہ غیر قانونی قدم تھا کیونکہ اس معاہدہ میں مرکزی حکومت بھی ایک فریق ہے۔ رہی سہی کثر ہائی کورٹ کے جج صاحب نے پوری کر دی جب ہائی کورٹ نے ہندو میتئی لوگوں کو درج فہرست قبائل کے تحت ریزرویشن دینے کا حکم صادر کر دیا۔ اس سے منی پور میں آگ لگ گئی۔ حالانکہ سپریم کوکرٹ نے اس فیصلہ پر عمل درآمد روک دیا لیکن ہائی کورٹ کے جج صاحب نے اپنا کام کر دیا اور منی پور میں جو آگ برسوں سے دبی پڑی تھی وہ شعلہ جوالہ بن گئی۔

منی پور میں کوکی عیسائی قبیلہ کے خلاف ویسے ہی مہم چلائی جاتی رہی ہے جیسی ہندی بیلٹ میں مسلمانوں کے خلاف چلائی جاتی ہے۔ انھیں غیر مہذب افیم پیدا کرنے والے میانمار سے آئے در انداز کہہ کر بدنام اور مین اسٹریم سے الگ کیا جاتا ہے۔ خود وزیر اعلی بیریندر سنگھ بھی کوکی عیسائیوں کو کئی بار قومی آبادی رجسٹر (این آر سی) کی دھمکی دے چکے ہیں۔ کوکی عیسایوں نے ان سب کے خلاف 3 مئی کو ایک احتجاجی مارچ نکالا۔ یہاں بی جے پی آئی ٹی سیل کا کام شروع ہو گیا۔ اس نے ایک ویڈیو جاری کیا کہ کیسے کوکی لوگوں نے ایک ہندو میتئی خاتون کو اغوا کر کے اس کی آبرو ریزی کی اور پھر اسے قتل کر دیا ہے۔ حکومت نے نہ اس فرضی ویڈیو کو وائرل ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی یہ واضح کیا کہ یہ ویڈیو فیک ہے، اور اس کے بعد ہی منی پور گجرات بن گیا۔


دو کوکی عیسائی خواتین کو سینکڑوں لوگوں اور پولیس کی موجودگی میں بے لباس کر کے ان کی سڑک پر پریڈ کرانے اور بعد میں کسی کھیت میں لے جا کر ان کی آبرو ریزی کرنے اور پھر قتل کر دینے کا واقعہ 4 مئی کو رونما ہوا تھا، مگر منظر عام پر 57 دنوں بعد آیا۔ کرائم بیٹ کی خبریں دینے والے رپورٹر جانتے ہیں کہ ضلع کے دور دراز علاقہ میں بھی رونما ہونے والی واردات ایس ایس آر کے تحت جتنی جلد ممکن ہو ضلع کپتان پولیس کو پہنچ جاتی ہے۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے یہ نظام نافذ ہو گیا تھا۔ جرم کی خبر سب سے پہلے علاقہ کا چوکیدار بیٹ کانسٹیبل کو اور بیٹ کانسٹبل تھانیدار کو پہنچا دیتا تھا۔ ہر روز صبح ایک پولیس کا ہرکارہ ساری رپورٹیں لے کر کپتان صاحب کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ اس کے بعد وائرلیس کا دور آیا تو ہرکارہ کے پہنچنے سے پہلے رپورٹ کپتان صاحب تک پہنچ جاتی تھی، اور اب تو انٹرنیٹ کا دور ہے۔ دنیا بھر میں منٹوں و سیکنڈوں میں خبر پہنچ جاتی ہے۔

مذکورہ نظام کے تحت کپتان صاحب تک پہنچی رپورٹ ریاستی وزارت داخلہ اور پولیس ہیڈکوارٹر پہنچ جاتی ہے اور پھر مرکزی وزارت داخلہ اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) میں درج ہو جاتی ہے۔ اب اگر اتنی اہم حساس خبر مرکزی وزارت داخلہ تک 57 دن تک نہیں پہنچی تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارا نظام کس حد تک دیمک زدہ ہو چکا ہے۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے۔ خبر وقت سے ہر جگہ پہنچ چکی تھی جسے دبانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ وہ تو جب یہ ویڈیو وائرل ہو گیا اور سپریم کورٹ نے از خود کارروائی کی دھمکی دی تب جا کر مودی جی کی نیند کھلی، لیکن کارروائی کے بجائے موازنہ آرائی شروع کر اتنے سنگین جرم کو کمتر کرنے کی شرمناک مہم جاری ہے۔


ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ واقعہ کی سنگینی اور شرمناکی کا احساس کرتے ہوئے وزیر اعظم خود پارلیمنٹ میں آ کر بیان دیتے، متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھ کر انھیں تحفظ کا یقین دلاتے اور نا اہلی کی بنا پر منی پور کے وزیر اعلی کو نکال باہر کرتے۔ اس کے برخلاف انہوں نے گھسا پٹا جملہ استعمال کر کے دوسری ریاستوں میں ہونے والے جرائم سے موازنہ آرائی شروع کر دی۔ پارلیمنٹ میں بھی حکومت کا رویہ غیر ذمہ داری اور ٹالنے والا ہے۔ اپوزیشن اس پر ضابطہ 267 کے تحت تفصیلی بحث اور وزیر اعظم کے بیان کے مطالبہ پر اڑا ہوا ہے، جبکہ حکومت ضابطہ 167 کے تحت مختصر بحث پر بضد ہے، اور جواب دینے کے لئے لوک سبھا میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو سامنے لا رہی ہے، جبکہ معاملہ وزارت داخلہ کا ہے۔ بہر حال اس معاملہ کو لے کر تادم تحریر ہندستانی پارلیمنٹ میں تعطل برقرار ہے، بس بی جے پی کے نمائندہ ٹیلی ویزن پر اپنی حلق پھاڑ رہے ہیں۔ ادھر برٹش پارلیمنٹ میں ایک بار پھر یہ معاملہ اٹھا اور امریکہ نے بھی مذہبی آزادی کو لے کر ایک بار پھر نہ صرف آنکھیں دکھائی ہیں بلکہ پابندی عائد کرنے کی بھی بات اٹھ رہی ہے۔ مگر ملک اور بیرون ملک اٹھنے والی ان مذمتی بیانوں اور تشویش کے اظہار سے بے فکر مودی حکومت سنگھی مشن پر مشنری جذبہ سے کام کر رہی ہے۔ اب اس کا انجام کیا ہوگا، یہ سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔