’چل سنیاسی مندر میں‘… اعظم شہاب

نتیجے جو بھی آئیں لیکن یہ تجربہ کم دلچسپ نہیں ہوگا کہ پردھان سیوک کو تین دنوں تک وارانسی میں ڈیرہ ڈالنا پڑا اور یوگی جی کو ایودھیا چھوڑ کر گورکھپور سے قسمت آزمانی پڑی۔

اکھلیش یادو، تصویر یو این آئی
اکھلیش یادو، تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ جب برا وقت آتا ہے تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ یوپی میں آج ساتویں مرحلے کا انتخاب ہو رہا ہے جس میں ہمارے پردھان سیوک جی کا حلقۂ انتخاب ورانسی بھی شامل ہے، لیکن خبر یہ ہے کہ ورانسی کی ساتوں سیٹوں پر بی جے پی کے امیدواروں کا سماج وادی پارٹی کے امیدوار ناطقہ بند کئے ہوئے ہیں۔ جس وارانسی کے لئے یوکرین سے ہندوستانی طلبہ کی واپسی کی مہم کو ’آپریشن گنگا‘ کا نام دینا پڑا ہو، جہاں بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لئے ملک کے سب سے مضبوط وزیراعظم کو مسلسل تین دنوں تک ڈیرہ ڈالنا پڑا ہو، جہاں خود وزیراعظم کو روڈ شو کرنے پڑے ہوں، وہاں بی جے پی کے امیدواروں کی دگرگوں حالت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ بی جے پی کے حق میں ماحول اس قدر سازگار نہیں ہیں جس قدر ہمارا گودی میڈیا گزشتہ تین دنوں سے ہمیں بتا اور دکھا رہا ہے۔ صرف بنارس ہی نہیں بلکہ پوروانچل کے ان دیگر اضلاع سے بھی بی جے پی کے لئے کچھ زیادہ حوصلہ بخش خبریں نہیں آرہی ہیں جہاں آج چناؤ ہو رہے ہیں۔ بیشتر جگہوں پر بی جے پی و سماج وادی کے امیدواروں کے درمیان ہی مقابلے کی خبریں ہیں یہاں تک اعظم گڑھ سے بھی سائیکل کے دوڑنے کی خبریں آنے لگی ہیں جہاں کے لوگ ایک دن قبل اس مخمصے کے شکار تھے کہ کسے ووٹ دیں اور کسے نہ دیں۔

لیکن اس ساتویں اور آخری مرحلے کے انتخاب سے پرے کچھ اور بھی خبریں ہیں جو 10 مارچ سے یوپی میں چلنے والی ہوا کی تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح ناک کو سب سے پہلے اطراف کی بو کا اندازہ ہو جاتا ہے اسی طرح ملک میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اندازہ سب سے پہلے ملک کی ناک یعنی خفیہ محکمہ کو ہو جاتا ہے۔ یہ خفیہ محکمہ ریاستی سطح پر بھی سرگرم رہتے ہیں اور مرکزی سطح پر بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس محکمہ کی دلچسپی ان چیزوں کو سونگھنے میں زیادہ ہوتی ہے جس سے حکومت کو کوئی خاص دلچسپی ہو۔ لیکن جب حکومتوں کے تبدیلی کی مہک آنے لگتی ہے تو یہی محکمہ سب سے پہلے اپنی سونگھنے کی حِس کو بھی تبدیل کر لیتا ہے۔ اترپردیش میں حکومت کی تبدیلی کی مہک شاید محکمہ خفیہ نے سونگھ لی ہے اور اس کی اطلاع حکومت کے آئی اے ایس و آئی پی ایس افسران تک پہنچا دی ہے کہ ابھی چناؤ کے نتیجے بھی نہیں آئے کہ وکرما دتیہ روڈ پر واقع اکھلیش یادو کے بنگلے کی تزئین و آرائش کا کام نہایت تیزی سے ہونے لگا ہے۔


کہا جاتا ہے کہ حکومت کا محکمہ عوامی تعمیرات سرکاری عمارتوں کی مرمت ودیکھ بھال کرتا رہتا ہے اور یہ تزئین وآرائش اسی معمول کے تحت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ 44 ماہ سے بند پڑا بنگلہ عین الیکشن کے نتائج کے وقت پی ڈبلیو ڈی کے معمول میں کیونکر شامل ہوا؟ کیا چار ساڑھے چار سال میں اس طرح کی عمارتوں کی دیکھ بھال محض ایک بار ہوتی ہے؟ اس لئے سمجھنے والے خوب سمجھ رہے ہیں کہ تقریباً 4 سال سے بند پڑے اس بنگلے کی قسمت اچانک کیسے جاگ گئی ہے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اکھلیش یادو کے بنگلے کی تزئین و آرائش نہایت خفیہ طریقے سے ہو رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ضمن میں کئی تصویریں میڈیا میں آچکی ہیں جن میں کاریگر بنگلے کی صفائی و مرمت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ پھر بھی اگر اسے خفیہ کہا جا رہا ہے تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ بنگلے کے اندر کاریگر اپنے کام میں مصروف ہیں اور باہر گیٹ پر بڑا ساقفل لگا ہوا ہے۔

معلوم نہیں یہ تکلف کیوں کیا جا رہا ہے۔ جب ریاست کے ہرگلی چوراہے پر’چل سنیاسی مندر میں‘ کا نغمہ بج رہا ہے، ’یوپی میں بس ایک ہی ناتھ، ادتیہ ناتھ، ادتیہ ناتھ‘ کا نعرہ لگانے والے علانیہ ’بائیس میں بائیسکل‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں تو پھرعلانیہ طور پر اکھلیش یادو کے بنگلے کی تزئین وآرائش بھی ہوسکتی تھی۔ لیکن نہیں، جب وفاداری کی تبدیلی ندامت وشرمندگی کا باعث بن جائے تو علانیہ کام بھی خفیہ طریقے سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ کسی شرارتی نے تو یہ خبر بھی پھیلا دی کہ یوگی حکومت کے ایک وزیر تیسرے مرحلے کے انتخاب کے بعد سے ہی صبح و شام اکھلیش یادو کو ’گڈمارننگ‘ کا میسیج بھیج رہے تھے اور اکھلیش یادو نے تنگ آکر انہیں بلاک کر دیا۔ معلوم نہیں اس خبر میں کتنی صداقت ہے لیکن یوپی کے آئی ایس و آئی پی ایس افسران جس طرح اکھلیش کے تئیں اپنی وفاداری کا اظہار کرنے لگے ہیں، اس کے پیشِ نظر اس طرح کی باتیں بھی ممکن ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ خبریں بھی ہیں کہ سماج وادی حکومت کے دور میں جن پارکوں وتفریحی مقامات کی تعمیر ہوئی تھی اور جو یوگی حکومت میں لاوارث ہوگئی تھیں، ان کی بھی تزئین و دیکھ بھال میں تیزی آگئی ہے۔ یہ سب کام ریاست کا محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے ہی تحت ہو رہا ہے لیکن اس کے پسِ منظر سے ’آ رہے ہیں اکھلیش‘ کا نعرہ صاف طور پر سنائی دیتا ہے۔


بہر حال نتائج تو آج سے تین دن بعد آئیں گے اور کوئی ضروری بھی نہیں کہ یہ نتائج یوپی کے عوام کی توقعات پر پورے ہی اتریں کیونکہ 2024 کو بچانے کے لئے یوپی کا آشیرواد ضروری ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ای وی ایم میں قید آشیرواد سے ماں گنگے کا بلاوا ایک بار پھر سنائی دینے لگے۔ نتیجہ جو بھی ہو، لیکن یہ تجربہ پورے ملک اور خاص طور سے یوپی کے لوگوں کے لئے یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ایک ایسا شخص جسے اس کے بھکت ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کا طاقتور ترین لیڈر قرار دیتے ہوں، جسے اس کے مخالفین چناؤ جیوی کہتے ہوں، جسے انتخاب جیتنے کا فن آتا ہو اور جس کی لہر کے آگے ہر لہر کو ناکام قرار دیا جاتا رہا ہو اسے اپنے حلقہ انتخاب کی ایک مخصوص سیٹ (وارانسی جنوب) کو بچانے کے لئے مسلسل تین دنوں تک محنت کرنی پڑی ہو اور سڑکوں پر اتر کر لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑنے پڑے ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کم دلچسپ نہیں ہوگا کہ ایک ایسا وزیراعلیٰ جس نے خود کو رام کو لانے والا قرار دیا ہو، اسے رام کی نگری میں ہی اپنی کامیابی کا یقین نہ رہا ہو اور اسے پلٹ کر اسی جگہ سے قسمت آزمانی پڑی جہاں سے وہ پانچ بار ممبتر پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔