نواب ملک: بی جے پی کے لئے لوہے کا چنا... اعظم شہاب

بی جے پی نے نواب ملک کو انیل دیشمکھ کی مانند نوالہ تر سمجھ لیا تھا، جو ابھی سے اس کے لئے لوہے کے چنے ثابت ہو رہے ہیں۔

مہاراشٹر کے وزیر نواب ملک / تصویر قومی آواز
مہاراشٹر کے وزیر نواب ملک / تصویر قومی آواز
user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ جب ہاضمہ کمزور ہو تو ایسی چیز نہیں نگل لینی چاہیے جو ہضم نہ ہوسکے اور اسے باہر نکالنے کے لئے کسی طبیب کی ضرورت پڑجائے۔ ایسی صورت میں جان کے لالے پڑجاتے ہیں اور جسے طب کی زبان میں خودکشی کا عمل قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن معنوی طور پر نہ سہی سیاسی طور پر اس عمل کا مظاہرہ آج کل خوب ہو رہا ہے۔ اترپردیش سے لے کر مہاراشٹر تک دیش کی سب سے بڑی پارٹی ایسی ایسی چیزیں نگلتی جا رہی ہے جنہیں دیکھ کہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ حد درجہ بوکھلاہٹ میں مبتلا ہوگئی ہے یا پھر کسی زعم کی شکار۔ کیونکہ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہی ہے کہ اگر ہاضمہ نے ساتھ نہیں دیا تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ مہاراشٹر کی ہی مثال لے لیجے، جہاں بی جے پی نے آج کل کچھ ایسا نگل لیا ہے کہ نہ وہ اگلتے بن پا رہا ہے اور نہ ہضم ہو پا رہا ہے۔ اس نے نواب ملک کو انیل دیشمکھ کی مانند کوئی چاکلیٹ سمجھ لیا تھا، مگر اسے بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو اصل میں چاکلیٹ میں لپٹا ہوا عرقِ چلغوزہ تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ اسے اپنی دگرگوں کیفیت چھپاتے نہیں بن پا رہی ہے۔

نواب ملک سے ابھی ای ڈی تفتیش ہی کر رہی تھی کہ بی جے پی کی خوشیاں چھلک پڑیں۔ بی جے پی کے ایک لیڈر ہیں موہت کمبوج۔ مارے خوشی کے یہ مٹھائیاں تقسیم کرنے لگے اور تلواریں لہرانے لگے۔ لیکن نواب ملک کی گرفتاری کے ساتھ ہی ممبئی پولیس نے ان پر بھی مقدمہ درج کر دیا۔ اب یہ بیچارے اپنا مقدمہ خارج کرانے میں رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ممبئی پولیس پر مرکزی حکومت کا زور نہیں چلے گا اور یہ عمل ان کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ جب مت ہی ماری جائے تو آدمی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگتا ہے، سو کمبوج صاحب سے وہی سرزد ہوگیا۔ موہت کمبوج کے بارے میں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کی این سی بی کے ذریعے گرفتاری کے معاملے میں بھی ان موصوف کا نام آیا تھا۔ ان کے عزیز آرین خان کو کروز پر لے کر گئے تھے اور دلچسپ بات یہ رہی کہ اس پورے معاملے میں بی جے پی کی سازش کا نواب ملک نے ہی پردہ فاش کیا تھا۔


ایسے ہی ایک صاحب ہیں کریٹ سومیا۔ انہوں نے تو گرفتاری کی خبر سے قبل ہی اعلان فرما دیا کہ اگلا نمبر شیوسینا کے وزیر انل پرب کا ہے۔ ان کے صاحبزادے نیل سومیا کے خلاف ممبئی پولیس نے تفتیش شروع کردی، کیونکہ ان پر کروڑوں روپئے کی زمین کوڑیوں کے دام خریدنے کا الزام ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گھوٹالہ انہیں پی ایم سی بینک گھوٹالے سے بھی جوڑنے کے لئے کافی ہے۔ شیوسینا کے ممبر پارلیمنٹ سنجے راؤت نے ایک پریس کانفرنس میں نیل سومیا پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے پی ایم سی بینک کے گھوٹالے کے اہم ملزم سے کروڑوں کی زمین نہایت سستے داموں خریدی اور اس پر ’نکاج فیز ون اور فیز ٹو‘ کے نام سے کروڑوں روپئے کا پروجیکٹ شروع کر دیا۔ اس پروجیکٹ کے لئے ریاست کے محکمہ ماحولیات سے اجازت تک نہیں لی گئی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ نیل سومیا کو پولیس طلب کرکے ان کے بیانات درج کر رہی ہے اور وہ بیچارے اپنی ضمانت قبل ازگرفتاری کے لئے عدالت کے چکر لگا رہے ہیں۔ دوسری جانب والد محترم دہلی میں بی جے پی لیڈروں سے مدد کی گہارلگا رہے ہیں۔ لیکن خبر یہ ہے کہ والد صاحب کے ہاتھ مایوسی لگی ہے کیونکہ ان کی مدد فرمانے والے لوگ تو آج کل اترپردیش میں مصروف ہیں۔

نواب ملک کی گرفتاری پر گوکہ کسی کو کوئی حیرت نہیں ہے لیکن اس بات پر حیرت ضرور ہے کہ ریاست کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کھل کر نواب ملک کی حمایت میں آگئی۔ گرفتاری کے بعد بی جے پی کے لوگوں نے نواب ملک کے استعفے کا مطالبہ کیا جس پر حکومت نے صاف انکار کر دیا کہ استعفے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بی جے پی والوں نے سوچا تھا کہ جس طرح انہوں نے انیل دیشمکھ کا شکار کیا تھا اسی طرح وہ نواب ملک کو بھی راستے سے ہٹا دیں گے کیونکہ پوری حکومت میں یہ واحد شخص تھے جو بی جے پی کی آنکھ میں کھٹکتے تھے۔ بی جے پی کی غلط پالیسوں سے لے کر حکومت کے موقف کی وضاحت تک میں ہرجگہ نواب ملک ہی نظر آتے تھے جو بی جے پی کی قلعی بھی اتارتے رہتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ بی جے پی کے ریاستی صدر کو تو یہاں تک کہتے سنا گیا تھا کہ اگر نواب ملک خاموش ہوجائیں تو پھر وہ حکومت سے نمٹ لیں گے۔ (یہاں نمٹنے سے مراد حکومت گرانے سے لیا جائے) لیکن نواب ملک نہ تو خاموش ہوئے اور نہ ہی خوفزدہ۔ لیکن نواب ملک بی جے پی کے لئے سوہانِ روح اس وقت ہوگئے جب انہوں نے این سی بی کے خلاف آواز بلند کی، جس میں بی جے پی کے لوگوں کی شمولیت کو انہوں نے ثبوت وشواہد کے ساتھ اجاگر کر دیا۔ اسی وقت سے ہی نواب ملک کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کی کارروائی کا امکان ظاہر کیا جانے لگا تھا۔


نواب ملک کو جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، اس ضمن میں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت تھی تو اس وقت نواب ملک کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ اگر نواب ملک پر داؤد ابراہیم سے تعلقات کے الزام ہیں تو یہ آج کی تو بات ہے نہیں۔ یہ 2005 کی بات ہے جب انہوں نے داؤد ابراہیم کے کسی مبینہ ڈرائیور کے بیٹے سے زمین کا سودا کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ زمین باقاعدہ قانون کے مطابق خریدی گئی تھی اور یہ زمین نواب ملک نے خریدی بھی نہیں تھی۔ تو پھر گزشتہ 8 سالوں سے بی جے پی خاموش کیوں رہی؟ فڈنویس جن کے الزامات کے بعد این آئی اے اور ای ڈی نے کارروائی کی، وہ اپنی پانچ سالہ حکومت میں کیوں چپ رہے؟ اگر نواب ملک کے خلاف اتنے ہی پختہ ثبوت تھے تو انہیں گرفتار کیا جاسکتا تھا یا ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی تھی، تو پھر کیوں ایسے وقت میں جبکہ پارلیمانی الیکشن کا سیمی فائنل جاری ہے، نواب ملک کو گرفتار کرکے کیوں خود بی جے پی کٹہرے میں کھڑی ہوگئی؟ اس کا جواب اس بوکھلاہٹ میں پوشیدہ ہے جس کا مظاہرہ ہمارے پردھان سیوک جی سے لے کر امت شاہ صاحب کر رہے ہیں۔ لیکن اب پردھان سیوک و امت شاہ صاحب سمیت مہاراشٹر بی جے پی کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ریاست کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت اب کھل کر بی جے پی کے خلاف آگئی ہے اور نواب ملک کی یہ گرفتاری ریاست میں بی جے پی کے تابوت کی آخری کیل بن سکتی ہے۔

سچائی یہ ہے کہ دہشت گردی، انڈرورلڈ اور داؤد ابراہیم بی جے پی کی ایسی سواریاں ہیں، جن پر وہ ہر برے وقت میں سوار ہو جایا کرتی ہے۔ اترپردیش میں انتخابات اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں، بی جے پی نے ہر داؤ ہر حربہ استعمال کرلیا پھر بھی بات نہیں بنی، تو اب لے دے کر اس کے پاس آتنک واد اور انڈرورلڈ کی ہی سواری رہ جاتی تھی سو ہمارے پردھان سیوک جی نے اس کا استعمال فرما ہی لیا۔ انہوں نے سائیکل کو آتنک واد سے جوڑ دیا۔ اب بھلا ان سے کون پوچھے کہ پلوامہ میں جو دھماکہ ہوا وہ کون سی سائیکل پر لگا تھا؟ اتنی بڑی مقدار میں آرڈی ایکس وہاں کس سائیکل پر پہنچا؟ ظاہر ہے وہ ان کا جواب نہیں دے سکتے، کیونکہ اس صورت میں ان کی حکومت کی کمزوری واضح ہو جائے گی۔ یہی نہیں بلکہ بی جے پی کے لوگ تو پرینکا گاندھی کا تعلق بھی آتنک واد سے جوڑ دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے جواب نے بی جے پی کے چودہ طبق روشن کر دیئے ہوں گے۔ لیکن جہاں پورا بالائی منزلہ ہی خالی ہو گیا ہو وہاں ایک آدھ طبق بھی روشن ہونا مشکل ہے۔ بی جے پی نے نواب ملک کو انیل دیشمکھ کی مانند نوالہ تر سمجھ لیا تھا جو ابھی سے اس کے لئے لوہے کے چنے ثابت ہو رہے ہیں۔ یوں بھی شردپوار کی نواب ملک کی علانیہ حمایت سے ابھی سے بی جے پی کے لوگ اپنے ہاضمے کا علاج کراتے گھوم رہے ہیں۔ آگے کا منظر مزید دلچسپ ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔