یوپی میں ہندوتوا کا نشہ ہرن... ظفر آغا

یوپی میں بی جے پی کے خلاف صرف ایک لہر ہی نہیں بلکہ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ پارٹی کے امیدوار اسٹیج پر کھڑے ہو کر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک لگا رہے ہیں

بی جے پی انتخابی مہم / Getty Images
بی جے پی انتخابی مہم / Getty Images
user

ظفر آغا

اس کالم کے پڑھتے وقت اتر پردیش میں چوتھے راؤنڈ کی پولنگ شروع ہو چکی ہوگی۔ پچھلے تین راؤنڈ میں بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا رہا اور باقی راؤنڈ میں بھی حالات بہتر ہوتے نہیں نظر آ رہے ہیں۔ دراصل یوپی میں بی جے پی کے خلاف صرف ایک لہر ہی نہیں بلکہ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ پارٹی کے امیدوار اسٹیج پر کھڑے ہو کر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک لگا رہے ہیں۔ صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ اب وزیر اعظم نریندر مودی چار دنوں تک کاشی میں رک کر بی جے پی کے چناوی حالات بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اب دیر ہو چکی ہے۔ عوام بی جے پی کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں۔ اب مودی-یوگی کسی کا جادو نہیں چل رہا ہے۔

لیکن وہ اتر پردیش جو سنہ 2014 سے سنہ 2019 تک ہر چناؤ میں مودی کے کہنے پر بی جے پی کو ووٹ دے رہا تھا، وہ اب بی جے پی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیوں ہے! اس کا راز یہ ہے کہ اتر پردیش کی عوام کی آنکھوں سے ہندوتوا کی مسلم منافرت کا چشمہ اتر چکا ہے۔ ان کا مذہب کا نشہ ہرن ہو چکا ہے۔ اب ان کو سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان پر جو مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا ہے اس کی ذمہ دار بی جے پی ہے۔ اب یوپی کے کسان کو سمجھ میں آ رہا ہے کہ مودی حکومت کسانی قانون کے ذریعہ اس کی زمین چھین کر امبانی-اڈانی کو دینے کی گھات میں ہے۔ کروڑوں نوجوان جو بغیر روزگار کے گھوم رہے ہیں، ان کو یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان کی بے روزگاری کا ذمہ بھی یوگی-مودی پر ہے۔ وہ لاکھوں لوگ جو کووڈ میں یوپی میں مر گئے ان کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ بس مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر پیدا کی جاتی رہی جس کا آخر سب سے زیادہ نقصان خود ہندو عوام کو ہوا۔ آخر پیٹ کی آگ اتنی تیز ہوئی کہ غریب ہندو عوام کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کے دماغ سے ہندوتوا سیاست کا اور مسلم منافرت کا بھوت اتر گیا۔ اب وہ اپنے مسائل سمجھ کر بی جے پی کے خلاف ووٹ کر رہا ہے۔ اور اتر پردیش کے باقی راؤنڈ پولنگ کے طرز میں تبدیلی کے امکان ممکن نہیں۔ اس لیے اب یوپی بی جے پی کے ہاتھوں سے نکلا ہی سمجھیے۔


یوکرین: جنگ کا ذمہ دار روس نہیں امریکہ

امریکہ بغیر جنگ کے رہ نہیں سکتا کیونکہ امریکہ کی ہتھیار انڈسٹری کو جنگ چاہیے۔ ادھر کچھ دنوں سے دنیا میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ امریکن ہتھیار لابی میں کھلبلی رہی ہوگی۔ آخر روس نے امریکن ہتھیار لابی کی یہ پریشانی دور کر دی۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد محض یوروپ ہی نہیں بلکہ عالمی امن کو خطرہ پیدا ہو گیا اور ہتھیاروں کا بازار پھر گرم ہو گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یوکرین میں چل رہی جنگ کا ذمہ دار کون ہے، امریکہ یا روس! بھئی حملہ روس نے یوکرین پر کیا ہے تو پھر اس بات میں شک کیا کہ جنگ کا ذمہ دار بھی روس ہی ہے۔ لیکن ٹھہریے، یہ دلیل بھی ویسی ہی ہے کہ جیسے امریکہ نے یہ کہا تھا کہ صدام حسین امن عالم کے لیے خطرہ بن گئے ہیں لہٰذا امریکہ کا عراق پر حملہ نہ صرف جائز بلکہ امن عالم کے حق میں ہے۔ اس لیے یہ تو سمجھیے کہ آخر روس نے یوکرین پر حملہ کیا کیوں! کیا روس حملے کے لیے مجبور ہو گیا تھا، یا پھر روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو پاگل کتے نے کاٹا تھا، اور بس وہ یوکرین پر چڑھ بیٹھے۔ اس لیے پہلے ذرا جنگ کے اسباب پر غور فرمائیے۔


دنیا واقف ہے کہ اگر روس کی فوجیں اس کی اپنی سرحد کے باہر قدم رکھیں گی تو معاملہ کہیں کا ہو بات امریکہ اور روس کے بیچ ٹھن جائے گی۔ محض ان دو عالمی طاقتوں کا معاملہ ہی نہیں بلکہ پھر تو تمام مغربی دنیا ایک طرف اور روس اکیلا دوسری طرف ہوگا، جیسا کبھی سابق سوویت یونین کے وقت ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ پوتن کو اس بات کا پوری طرح اندازہ رہا ہوگا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے ساتھ ہی ان کو نہ صرف امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا اور ناٹو فوج کا سامنا کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات نہ صرف روس بلکہ خود پوتن حکومت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔ پھر بھی پوتن نے روس پر حملہ کیا۔ آخر کیوں!

اصل بات یہ ہے کہ پوتن کو امریکہ نے یوکرین پر حملے کے لیے مجبور کر دیا۔ وہ کیوں اور کیسے! اس گتھی کو سلجھانے کے لیے ذرا اس خطے کی پرانی تاریخ اور جغرافیہ کو سمجھنا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت یورپ کا بٹوارا اس دور کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان ہوا۔ مغربی یوروپ یعنی برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک امریکن کیمپ میں آ گئے اور ان کا ایک فوجی بلاک ناٹو بن گیا۔ جب کہ اس وقت کمیونسٹ سوویت یونین کے زیر اثر مشرقی یوروپ کے ممالک آئے جن کا فوجی بلاک وارسا کہلاتا تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے بیچ یہ ایک قسم سے معاہدہ تھا کہ ان دونوں بلاک کے بیچ وہ دونوں کوئی دخل اندازی نہیں کریں گے۔ حد تو یہ ہے کہ اس وقت یوکرین سوویت یونین کا حصہ تھا۔ لیکن سنہ 1989 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس میں چھوٹے چھوٹے بہت سے ضم سنٹرل ایشیائی اور مشرقی یوروپی ممالک سوویت یونین یعنی روس سے الگ ہو کر آزاد ہو گئے۔ روس کی سرحد پر یوکرین بھی ایک ایسا ہی ملک تھا جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد ہوا۔ اس طرح سوویت یونین ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ روس نے لی اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہو گیا۔ لیکن پھر بھی روس اور امریکہ کے درمیان یہ مفاہمت رہی کہ امریکہ یا مغربی یوروپ کی ناٹو فوجیں روس کی سرحد سے ملے مشرقی یوروپی ممالک میں داخل نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یوکرین بھی ایسا ہی ایک ملک ہے جہاں روس کو مغربی یوروپی فوجوں کا داخلہ ہمیشہ سے منظور نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ روس کی گھیرے بندی کے مترادف ہوگا۔


سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے یہ بات چل رہی تھی۔ لیکن ابھی حال میں یوکرین میں امریکی حمایت سے ایک نئی حکومت اقتدار میں آئی اور اس کے صدر (جو ایک یہودی ہیں) نے اعلان کر دیا کہ یوکرین ناٹو یعنی مغربی فوجی بلاک کا ممبر بننے جا رہا ہے۔ بس یہ بات روس اور اس کے صدر پوتن کو منظور نہیں تھی۔ کیونکہ یوکرین کے اس فیصلے سے مغربی فوجیں روس کی سرحد تک پہنچ جاتیں اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی اور مشرقی یورپ کے درمیان جو ایک قسم کی امن برقرار رکھنے کی شرط طے کی گئی تھی وہ شرط ٹوٹ گئی۔ بس پھر کیا تھا، پوتن یوکرین کے اس اعلان کے بعد شمشیر بکف ہو گئے۔ روس نے اعلان کر دیا کہ روس کو یوکرین کا ناٹو فوجی بلاک میں داخلہ منظور نہیں۔ لیکن امریکہ کے اشارے پر یوکرین کے مغرب نواز صدر اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ پوتن نے بھی اعلان کر دیا کہ اگر ایسا ہوا تو روس یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ حد یہ ہے کہ روسی حملے سے دو روز قبل بھی پوتن نے ایک تقریر میں اعلان کیا کہ یوکرین ابھی بھی یہ اعلان کر دے کہ وہ ناٹو ممبر نہیں بنے گا، تو بات حل ہو جائے گی۔ لیکن امریکہ کے زیر اثر یوکرین کے صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ بس پھر جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب روس کی فوجیں یوکرین میں ہیں۔ امریکہ کی ہتھیار انڈسٹری کو ایک نئی جنگ مل گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہونے کا انتظار ختم ہو گیا ہے۔ یعنی جنگ کا ذمہ دار روس نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ اور اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Feb 2022, 2:11 PM