لالہ رام دیو: کیا پونچھ پھاڑے گا میری!... نواب علی اختر

صحافی پر رعب جمانے کی کوشش کرنے والے رام دیو شاید یہ بھول گئے کہ انٹر نیٹ کے موجودہ دور میں انہیں اپنی حرکت کی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔

 بابا رام دیو، تصویر آئی اے این ایس
بابا رام دیو، تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

کچھ وقفہ کے بعد ایک بار پھر لوگوں پر مہنگائی کا قہر ٹوٹ پڑا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور عوام پر بوجھ ڈالنے کا سلسلہ روز بہ روز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر گزشتہ برس نومبر سے ان قیمتوں کو بڑھنے سے روک دیا گیا تھا، لیکن انتخابات کا عمل پورا ہوتے ہی اضافہ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ تقریبا روزآنہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی سے پریشان عام آدمی پر لگاتار بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اہم اپوزیشن جماعت کانگریس حکمرانوں کو خواب خرگوش سے اٹھانے کے لیے سڑک پر اتر آئی ہے اور مہنگائی کے خلاف مورچہ کھول کر حکومت پر دباؤ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے حکومت کی بے حسی کے خلاف کانگریس کی طرح عوام کو بھی میدان میں آکر اپنے درد کا اظہار کرنا ناگزیر ہوگیا ہے کیونکہ حکومت کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی خاطر تنہا کانگریس کو کافی وقت اور سخت محنت درکار ہوگی۔ اس دوران حکومت اپوزیشن جماعت کی جدوجہد کو سیاست سے تعبیر کرکے عوام پر کوئی نیا بوجھ بھی ڈالنے سے گریز نہیں کرے گی۔ کسانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے کئی ماہ تک سڑکوں پر شدت کی دھوپ، گرم ہواؤں کے تھپیڑوں، کڑاکے کی سردی کو برداشت کرتے رہے، مگر انہیں کامیابی تب ملی جب اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ملک گیر سطح پرعوام کی حمایت حاصل ہوئی۔ یہ اجتماعی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جن لوگوں کو منہ لگانے کو تیار نہیں تھی، حکومت ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔


آج کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کرعوام کو مہنگائی کے خلاف اسی طرز کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر حکومت کی خوش فہمی یقین میں بدل جائے گی پھر وہ عوام پر چاہے جتنا بوجھ ڈالے، اس کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا ہتھکنڈا معلوم ہے اور اسے شکست دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ اسی تاثر کے باعث حکومت مہنگائی میں اضافہ کو روکنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔ مودی حکومت کے لیے مشہور ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے یا سوال کرنے والوں کی خیر نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کے چاٹوکار بھی اپنے ضعم میں نظر آرہے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی بانگی اس وقت دیکھنے کو ملی جب یوگا گرو سے کاروباری بنے رام دیو نے سرعام صحافی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اور سوال پوچھے تو اچھا نہیں ہوگا۔

صحافی پر رعب جمانے کی کوشش کرنے والے رام دیو شاید یہ بھول گئے کہ انٹر نیٹ کے موجودہ دور میں انہیں اپنی اس حرکت کی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ اس پورے واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا جہاں رام دیو کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ کچھ پرستاروں نے بھی اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی، مگر ناقدین کی کثرت کے سامنے انہوں نے بھی خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ دراصل پتنجلی کے بانی رام دیو کرنال کے ایک اسکول پہنچے تھے۔ اس موقع پر جب رام دیو کو 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ان کے اس بیان کی یاد دلائی گئی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ لوگوں کو ایسی حکومت منتخب کرنا چاہئے جو 40 روپے فی لیٹر پٹرول اور 300 روپئے فی سلنڈر کے حساب سے گھریلو گیس دستیاب کرائے۔ اس سوال پر رام دیو بھڑک گئے۔


رام دیو اس سوال کا جواب دینے میں ٹال مٹول کرتے نظر آئے مگر صحافی کے اصرار پر وہ غصہ میں بولے کہ ’ہاں میں نے کہا تھا تو کیا پونچھ پھاڑے گا میری؟ میں نے کیا تیرے سوالوں کا جواب دینے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟، میں نہیں دیتا جواب، کر لے کیا کرے گا؟ اب آگے کچھ اور پوچھے گا تو ٹھیک نہیں ہوگا۔ اس وقت کچھ اور میڈیا نمائندے بھی موجود تھے مگر زیادہ تر میڈیا (ٹی وی یا اخبار) میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ زیادہ میڈیا گروپ کے لیے پتنجلی سب سے بڑے مستہرین میں سے ایک ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صحافیوں میں اس طرح کے سوال کرنے کی ہمت نہیں ہے لیکن اس سے پہلے کسی نے بھی یہ سوال اس لئے نہیں پوچھا کیونکہ پتنجلی میں ہونے والے ہزاروں کروڑ کے فائدے کا کچھ حصہ اشتہار کی شکل میں انہیں بھی جاتا ہے۔

وائرل ویڈیو کے نیچے آنے والے کمینٹس میں کئی کمینٹس رام دیو کے وفادار لوگوں اور بی جے پی حامیوں کے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ سوال رام دیو سے نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ رام دیو سے کئے گئے سوالوں نے نام نہاد راشٹر بھکتوں کے مرچی لگا دی۔ اس سے صاف ہوجاتا ہے کہ رام دیو ہوں یا بی جے پی یا ان کے چاٹوکار، کسی کو بھی عوام کی آنکھوں سے نکلنے والے مہنگائی کے آنسو کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے وہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں خوش ہیں، خواہ مہنگائی کی اس آگ میں ان کے اپنے گھر بھی کیوں نہ جل رہے ہوں۔ ناقدین نے حکمرانوں پر طنز کستے ہوئے کہا ہے کہ یہ سوال صرف ایک صحافی کا نہیں ہے بلکہ 135 کروڑ ہندوستانیوں کی آواز ہے جس کا جواب دیئے جانے کی ضرورت ہے۔


مہنگائی کے سوال پر بھڑکنے کا رام دیو کا یہ ویڈیو کچھ ہی دیر میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرگیا۔ صحافی کو دھمکانے پر سوشل میڈیا صارفین بھی بھڑک گئے اور وہ رام دیو کی کمپنی ’پتنجلی‘ پر جم کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے نظر آئے۔ اسی سلسلے میں پتنجلی کے بائیکاٹ کی بھی بات کہی گئی۔ صحافی نے تو صرف سوال کیا تھا جس کا سیدھا جواب دیا جاسکتا تھا مگر اس سوال میں آخر کیا نیا تھا جس پر رام دیو اتنا تلملا گئے کہ رپورٹر کو دھمکی دے ڈالی۔ یہ وہی سوال تھا جو گزشتہ تقریباً 8 سالوں سے رام دیو سے نہیں پوچھا جارہا تھا۔ 2014 سے پہلے 3 سالوں تک تقریباً ہر پروگرام میں یہاں تک یوگا کرتے ہوئے بھی رام دیو کا یہی کہنا تھا کہ مودی جی کے راج میں کالا دھن واپس آئے گا، 30 سے 40 روپئے فی لیٹر پٹرول ملے گا، سلنڈر 300 روپئے میں ملے گا، کیا چاہتے ہو آپ؟

آخرکار 2014 میں مودی حکومت آگئی اسی کے ساتھ پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ ابھی کچھ دن پہلے تک یوپی میں انتخابات تھے جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھانے کا سلسلہ رُک گیا مگر جیسے ہی انتخابات ختم ہوئے ایک بار پھر پٹرول ڈیزل کے دام بڑھنے لگے۔ حکومت کہتی ہے کہ قیمتوں پر تیل کمپنیوں کا کنٹرول ہے، لیکن انتخابات کے بعد جس تیزی سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں اس سے تیل کمپنیوں اور حکومت کے رشتے بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف مودی حکومت بنانے کے لیے مہم چلانے والے رام دیو اپنا پیشہ چھوڑ کر مودی حکومت کے بدلے لوگوں کو سبزباغ دکھا رہے تھے۔ مودی حکومت بننے کے بعد بابا رام دیو تو لالہ رام دیو بن گئے مگر حکومت بنانے والے لوگ مہنگائی پر آنسو بہا رہے ہیں۔


رام دیو پہلی بار اس وقت منظر عام پر آئے جب ٹی وی پر ان کی یوگا کلاسس بہت مقبول ہو گئیں جن سے انھیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ سن 2006 میں انھوں نے جڑی بوٹیوں پر مبنی ادویات بیچنے کے لیے پتنجلی نامی کمپنی لانچ کی۔ کچھ ہی سال بعد پتنجلی نے ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی آٹے سے لے کر ملبوسات، صابن، تیل، بِسکِٹ یہاں تک کہ گائے کا پیشاب بھی بیچنا شروع کر دیا۔ رام دیو کے کاروبار میں وسعت اتفاقاً اسی عرصے میں ہوئی جب سن 2014 میں بی جے پی نے مرکز میں اقتدار سنبھالا۔ رام دیو بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کے قریبی کہے جاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت میں رام دیو کا کاروبار کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ سال پتنجلی کی طرف سے جاری کئے گئے ریکارڈ کے مطابق رام دیو کی کمپنی کا سالانہ کاروبار 30 ہزار کروڑ روپئے پہنچ گیا ہے۔ رام دیو کی یہ ترقی صدیوں میں نہیں بلکہ کچھ سالوں میں ہوئی ہے جس کا سارا کریڈٹ مودی حکومت کو دیا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔