کیرالہ طیارہ حادثہ: مودی جی بہت ہوَا میں نہ اڑیں، زمین پر آئیں... اعظم شہاب

دراصل کالی کٹ ایئرپورٹ کا حادثہ موسم کی خرابی یا پائلٹ کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ مرکزی شہری ہوابازی کے وزیر ہردیپ پوری نے بھی ضمناً اس بات کا اعتراف کیا ہے

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

جب حکومتیں ملک کی فلاح وبہبود کو فوقیت دینے کے بجائے ایک خاص نظریے کوفروغ دینے میں لگ جائیں اور ملک کا وزیراعظم ملک کی نمائندگی کرنے کے بجائے ایک خاص مذہب کی نمائندگی کرنے لگے تو یقینی طور پر ملک کی حالت بغیرملاح کے کشتی کی مانند ہوجائے گی۔ پھر وہ ہوا کے رخ پر خودبخود اپنی سمت بھی تبدیل کرلے گی، اس میں سوراخ بھی ہوجائیں گے اور وہ طوفان کا شکار بھی ہوجائے گی۔ ملک کا قومی سرمایہ سمجھے جانے والے ایئر انڈیا کا کالی کٹ ایئرپورٹ پر ہوا حادثہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ پانچ سو سالہ قدیم مسجد کے ملبے پر تعمیر ہونے والا نیا بھارت کیسا ہوگا، اس بھارت میں کن چیزوں کو ترجیح دی جائے گی اور ملک کی فلاح وبہبود کا اس میں کیا معیار ہوگا۔ گوکہ اس طرح کے حادثات نئے نہیں ہیں، دنیا بھر میں ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں جن میں سیکڑوں لوگوں کی موت کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں، مگرحفاظتی اقدامات کی ترجیحات ان کی نوعیت کو تبدیل کردیتی ہے۔

دراصل کالی کٹ ایئرپورٹ کا حادثہ موسم کی خرابی یا پائلٹ کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ مرکزی شہری ہوابازی کے وزیر ہردیپ پوری نے بھی ضمناً اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ انسانی غلطی کا نتیجہ تھا۔ ان کے مطابق لینڈنگ کے وقت رن وے پر روشنی کم تھی اور پانی بھرا ہوا تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوا کہ روشنی کا انتظام کیا جاسکتا تھا اور پانی کو فوری طور پر نکالا جاسکتا تھا۔ پھربھی اگر اس میں دشواری ہوتی یا بروقت یہ کام ممکن نہ ہوتا تو طیارے کو کسی قریب کے ایئرپورٹ پر لینڈ کرایا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا نہ کرتے ہوئے طیارے کو رن پر وے پر اترنے کی اجازت دے دی گئی اس امکان کے باوجود طیارہ حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس حادثے میں تادم تحریر 18 لوگوں کی موت ہوچکی ہے جبکہ اس تعداد میں اضافے کے خدشے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حادثے کے وقت طیارے میں عملہ سمیت 190 افراد سوار بتائے جاتے ہیں۔


بہرحال یہ حادثہ ہوگیا اور اس میں 18 لوگوں نے اپنی جانیں گنوادی ہیں، مگر اس حادثے کے بعد زخمیوں کی مدد کرنے کا جو انوکھا واقعہ پیش آیا، اس پر ماشاء اللہ ہمارے کسی قومی میڈیا کی نظر نہیں گئی۔ حادثے کے وقت ایئرپورٹ عملہ کے امدادی کاموں کے دوران کالی کٹ کے مسلمانوں نے زخمیوں کو اسپتال پہنچانے اور ان کی مدد کرنے کا قابل تحسین کام انجام دیا۔ کیرالا کی ایس ڈی پی آئی کے رضاکار فوراً جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے جس کا تذکرہ وہاں کے مقامی میڈیا نے بھی کیا ہے۔ یہ وہی ایس ڈی پی آئی ہے جس کے کارکنان کو یوپی میں فرقہ وارنہ کشیدگی پھیلانے کے الزام میں ریاست کے الگ الگ حصوں سے گرفتار کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے اس پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا بھی الزام عائد کیا جارہا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس پارٹی میں زیادہ تر کارکنان مسلمان ہیں۔ ان کے پیچھے این آئی اے تک کو لگایا گیا ہے اور ان کے درجنوں کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مگر مجال کیا کہ ہمارے قومی میڈیا میں اس طرح کی خبریں جگہ پاسکیں۔ وہاں تو کپڑوں سے پہچاننے کے پردھان سیوک کے بیان کو جگہ ملے گی اور سادھو بنے ہوئے موصوف کی تصویر شائع ہوگی۔ ایس ڈی پی آئی کا ٹی شرٹ پہنے ہوئے اس کے رضاکار تھوڑے ہی نہ نظر آئیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے حادثات کو ایک حادثہ قرار دے کر اور اس پر تفتیش کا غلاف چڑھا کر خاموش ہوجانے کا ہمارا رویہ مناسب ہے؟ جبکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ حادثہ ایک لاپرواہی کا نتیجہ تھا۔ طیارے کے پائلٹ و کوپائیلٹ نے اپنی تجربہ کاری کی بنیاد پر حادثے کو روکنے کی اپنی حد تک جتنی کوشش ہوسکتی تھی کی، لیکن جب لینڈنگ کی دوبار کی کوشش کے باوجود جب ایئرپورٹ کا عملہ اسے کسی دوسرے نزدیکی ایئرپورٹ کی جانب نہ بھیج سکے تو اس کی فردجرم کس پر عائد کی جائے گی؟ کیا اس حادثے میں مرکزی شہری ہوابازی وزارات کی ذمہ دار نہیں ہے جس کے ذمے پورے ملک کے ائیرپورٹ کا انتظامی امور ہے؟


کالی کٹ کا حادثہ ایک علامت ہے۔ اس نے دوباتیں ثابت کردی ہیں۔ اول تو ہمارے ملک میں ہنوز بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ دوسری ریاستوں کے مقابلے ترقی یافتہ کیرالہ کا اگر یہ حال ہے تو بیمارو گنگا کی وادی کا کیا حال ہوگا، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے ہمارے افسران کو عوام کی جان و مال کی پروا بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ان کو ہمیشہ سزا سے بچا لیا جاتا ہے۔ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مالی اور انسانی وسائل عوام کی فلاح بہبود میں صرف کرے لیکن موجودہ حکومت کی اولین ترجیح قومی اور ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا۔ اس میں ناکامی ہاتھ آجائے تو مخالفین کو خرید کر اپنی حکومت بنانا ہے۔ ان لوگوں کے پاس لوگوں کی بھلائی سوچنے کی نہ فرصت ہے اور نہ انہیں اس میں دلچسپی ہے۔ اپنی ناکامیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے ان لوگوں نے میڈیا کوخرید رکھا ہے اور ان کی خاطر یہ ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی نیا تماشہ کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ایودھیا کا بھومی پوجن تھا۔ اس کے بعد اس طرح کا ماحول بنایا گیا کہ ملک کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں لیکن اس ہوائی حادثے نے یہ ثابت کردیا کہ یہ حکومت اور بھکتوں کی خام خیالی ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ اولین فرصت میں اپنی ترجیحات درست کرے، مندر بنانے اور رام نام جپنے کے بجائے اپنا فرض منصبی ادا کرے۔ فی الحال تو اس کا حال اس محاورے کی مانند ہے ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Aug 2020, 10:05 PM