حکومت ان تیکھے سوالوں سے کب تک بھاگے گی؟... سہیل انجم

پارلیمٹ میں بڑے ایشوز کے علاوہ بھی کئی ایشوز ہیں جن میں معیشت کی ابتر صورت حال، بے روزگاری اور دیگر کئی امور ہیں جو اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جائیں گے اور حکومت کو ان کے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔

پارلیمنٹ ہاؤس / تصویر بشکریہ راجیہ سبھا ٹی وی
پارلیمنٹ ہاؤس / تصویر بشکریہ راجیہ سبھا ٹی وی
user

سہیل انجم

حکومت آخر عوامی نمائندوں کے سوالات سے کب تک بھاگ سکتی ہے۔ اسے کبھی نہ کبھی تو ان سوالوں کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کے جواب دینے ہوں گے۔ کسی بھی حکومت سے سوال پوچھنے کا سب سے بہترین اور مؤثر پلیٹ فارم پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا ہے۔ وہاں جو سوالات پوچھے جاتے ہیں حکومت کو ان کا جواب دینا ہی ہوتا ہے۔ عوامی سیاست کے مانند نہیں کہ اپوزیشن کے لوگ حکومت سے سوالات پوچھ رہے ہیں اور وہ خاموش ہے۔ حکومت کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران لازمی ایشوز سے بھاگنا آسان نہیں ہوتا۔ اسے ہر حال میں ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن یہ حکومت پارلیمنٹ کو بھی بعض اوقات غیر اہم بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس نے عوامی مفاد اور دلچسپی کے سوالوں سے بچنے کے لیے ہی پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس نہیں ہونے دیا تھا۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ کورونا وبا کی وجہ سے ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ جبکہ یہی بی جے پی ہے اور یہی لیڈران ہیں جو کورونا وبا کے دوران ہی جگہ جگہ انتخابی ریلیاں اور جلسے کرتے رہے اور ان ریلیوں اور جلسوں میں کووڈ ضابطے کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ تب کورونا نہیں تھا۔ لیکن جب پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنماؤں کے تیکھے سوالوں کا سامنا کرنے کا معاملہ آیا تو درمیان میں کورونا آگیا۔


لیکن بہر حال حکومت کب تک بھاگتی۔ سرمائی اجلاس ختم کر دیا گیا لیکن بجٹ اجلاس تو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسے تو ہر حال میں بلانا ہی ہے۔ کیونکہ اگر بجٹ اجلاس نہیں بلایا گیا تو ملک کے لیے بجٹ کیسے پیش کیا جائے گا اور اگر بجٹ نہیں پیش کیا جائے گا تو حکومت کیسے کام کرے گی ملک کیسے چلے گا۔ لہٰذا 29 جنوری سے بجٹ اجلاس بلانے کا اعلان کیا گیا۔ 15 فروری سے آٹھ مارچ تک بریک ہوگا اور پھر نو مارچ سے آٹھ اپریل تک اجلاس چلے گا۔ پہلے روز صدر رام ناتھ کووند کا خطاب ہوگا اور اسی روز بعد میں اقتصادی سروے پیش کیا جائے گا۔

اپوزیشن کی جانب سے اجلاس کے دوران بہت سے تیکھے سوالات حکومت سے پوچھے جانے ہیں۔ ان میں تازہ بہ تازہ معاملہ سینئر صحافی ارنب گوسوامی اور ٹیلی ویژن ریٹنگ ایجنسی بارک کے سابق سربراہ پارتھو داس گپتا کے درمیان واٹس ایپ پر ہونے والی بات چیت ہے۔ اس بات چیت کے سنسی خیز انکشاف نے پورے ملک میں ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ بات چیت کے دوران ارنب جن باتوں کا انکشاف کرتے ہیں وہ بہت ہی حساس اور متنازعہ ہیں۔ بالخصوص دو باتوں پر اپوزیشن حکومت سے سوال کر رہا ہے لیکن حکومت کی جانب سے خاموشی ہے۔


اس بات چیت میں ارنب پلوامہ حملے کے وقت 40 سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ اب ان کے ٹی وی چینل کی ریٹنگ بہت بڑھ جائے گی۔ یعنی اس کو لوگ بہت زیادہ دیکھنے لگیں گے۔ یعنی چالیس جوانوں کی شہادت کا غم نہیں ہے بلکہ اس بات کی خوشی ہے کہ اس سے ان کے چینل کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کے بالاکوٹ میں ہندوستانی افواج کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کو ارنب کو پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔ وہ پارتھو داس گپتا سے کہتے ہیں کہ اس بار پاکستان کے خلاف کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ جس پر گپتا نریندر مودی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تب تو وہ الیکشن میں زبردست کامیابی حاصل کریں گے۔ ان دونوں باتوں کے علاوہ ٹی وی ریٹنگ میں کس طرح انھوں نے دھاندلی کی یہ بھی ایک ایشو ہے۔

اپوزیشن اور بالخصوص کانگریس کی جانب سے بالاکوٹ معاملے پر ارنب کے انکشاف پر زبردست گرفت کی گئی ہے اور سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور اے کے اینٹونی سمیت متعدد لیڈروں نے اسے قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس کی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ راہل گاندھی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ صرف پانچ لوگوں کو ہی بالاکوٹ کارروائی کا علم تھا۔ انہی میں سے کسی نے ارنب کو وہ فیصلہ لیک کیا ہوگا۔ لہٰذا اس کی جانچ ہو کہ کس نے کیا اور اس کے خلاف کارروائی ہو۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نہ تو جانچ کرے گی اور نہ ہی کارروائی کرے گی۔


پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس معاملے کو زوردار انداز میں اٹھایا جائے گا۔ حالانکہ اس معاملے میں ابھی تک نہ تو حکومت کی جانب سے کوئی بیان آیا ہے اور نہ ہی بی جے پی کی جانب سے۔ بی جے پی کا آئی ٹی سیل بھی جو معمولی معمولی باتوں پو ٹوئٹ کرتا ہے خاموش ہے۔ سمبت پاترا جیسے بڑ بولے ترجمانوں کی بھی زبانیں بند ہیں۔ تادم تحریر اس بارے میں ایک بھی بیان نہیں آیا ہے۔ حکومت اور بی جے پی کے لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک خاموشی ہزار بلاؤں کو ٹال دیتی ہے۔ لیکن پارلیمانی اجلاس میں خاموشی سے کام نہیں بنے گا بلکہ وہاں جواب دینا ہی ہوگا۔

اسی طرح متنازعہ زرعی قوانین کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا۔ ملک کے کسان دو ماہ سے بھی زائد عرصے سے ان قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت سے ان کی گیارہ ادوار کی ناکام بات چیت ہو چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ صرف ایک بار ذرا سی لچک دکھائی گئی اور کہا گیا کہ ڈیڑھ سال تک کے لیے ان قوانین کو وہ معطل کر سکتی ہے جسے کسانوں نے مسترد کر دیا ہے۔ اس کے بعد حکومت نے پھر سخت موقف اختیار کر لیا ہے۔


ان قوانین کو پارلیمنٹ میں بقدر ضرورت بحث کرائے بغیر منظور کر لیا گیا تھا۔ جس وقت پارلیمنٹ میں انھیں پیش کیا گیا تھا اپوزیشن کی جانب سے ان کی مخالفت کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ انھیں جلد بازی میں منظور کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔ لیکن حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا اور عجلت میں انھیں منظور کر لیا تھا۔ اب وہی قوانین حکومت کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ وہ نہ تو انھیں نگل پا رہی ہے اور نہ ہی اگل پا رہی ہے۔ یہ معاملہ بھی پارلیمنٹ میں پرزور انداز میں اٹھے گا اور حکومت کو جواب دینا پڑے گا۔

ان بڑے ایشوز کے علاوہ بھی کئی ایشوز ہیں جن میں معیشت کی ابتر صورت حال، بے روزگاری اور دیگر کئی امور ہیں جو اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جائیں گے اور حکومت کو ان کے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔ حکومت ان باتوں پر پریشان ہے اور ان سے نمٹنے کی ترکیبیں سوچ رہی ہے۔ لیکن ابھی فی الحال اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ وہ اپوزیشن کے حملوں سے خود کو کیسے بچائے اور ان سوالوں کے کیا جواب دے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔