ہماچل پردیش اسمبلی انتخاب: شملہ کو فتح کرنا بی جے پی کے لیے دور کی کوڑی محسوس ہو رہا (شملہ سے گراؤنڈ رپورٹ)

ہماچل پردیش کے ووٹروں کے درمیان تیر رہے ایشوز بی جے پی کے رواج بدلنے کے دعوے کی راہ کا روڑا بنتے نظر آ رہے ہیں، شملہ کی فضا بھی انہی ایشوز سے بھری ہوئی ہے۔

شملہ میں انتخابی تشہیر کا منظر
شملہ میں انتخابی تشہیر کا منظر
user

دھیریندر اوستھی

ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کو فتح کرنا بی جے پی کے لیے ہمیشہ مشکل سوال رہا ہے۔ ہماچل پردیش کے 6 بار وزیر اعلیٰ رہے ویربھدر سنگھ کے قلعہ کو قمع کرنا اس بار بھی بھگوا دل کے لیے دور کی کوڑی معلوم پڑ رہا ہے۔ نام نہاد مودی لہر میں بھی بی جے پی شملہ ضلع کی 8 اسمبلی سیٹوں میں سے محض 3 ہی جیت پائی تھی۔ پھر اس بار تو ہوا کا رخ مزید بدلا بدلا ہوا ہے۔ سیب باغانوں کی کشش سے بھرپور شملہ ضلع کی زمین نے کبھی بھی بی جے پی کو شدت سے گلے نہیں لگایا ہے۔

ہماچل کے ووٹروں کے درمیان تیر رہے ایشوز بی جے پی کے رواج بدلنے کے دعوے کی راہ کا روڑہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔ شملہ کی فضا بھی انہی ایشوز سے بھری ہوئی ہے۔ سیب باغانوں کے لیے مشہور اس علاقہ میں سیب کے پیکیجنگ میٹیریل پر جی ایس ٹی 12 سے 18 فیصد کرنا بھی یہاں ایک بڑا ایشو ہے۔ لوگوں کے پاس ایشوز کی ایک طویل فہرست ہے۔ شملہ شہر سے لے کر دور دراز کے علاقے تک مشکلات سے نبرد آزما لوگوں کے سوال یہاں سبھی کی زباں پر ہیں۔ شملہ کے مال روڈ پر ملے روہڈو کے رہنے والے، لیکن اب شملہ باشندہ ریٹائرڈ آئی پی ایس بی کے دھانٹا کہتے ہیں کہ شملہ سے لے کر دہلی تک بی جے پی کی حکومتیں صرف باتیں کرتی رہیں۔ وزیر اعظم ہماچل کے چاہے جتنے چکر لگا لیں، یہاں کے لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ لوگوں نے پہلے ہی طے کر لیا ہے کہ کیا کرنا ہے۔ لوگ پریشان ہو گئے ہیں۔ اس حکومت نے بڑے بڑے وعدے چھوڑ کر کچھ نہیں کیا۔ کورونا بحران میں سب کچھ تباہ ہو گیا اور حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ مہنگائی نے تو عام آدمی کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ بے شک پیسہ اور شراب بھی ان لوگوں نے ہماچل میں جھونک دیا ہے، لیکن اس سے بھی کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔


شملہ کے رِج میں واقع آشیانہ کیفے میں ملے وجئے کمار اور راجندر نے ایک نئی بات کا انکشاف کیا۔ اولڈ پنشن اسکیم پر بی جے پی لیڈروں کے زبان نہ کھولنے کے سوال پر وہ بولے کہ نئی پنشن اسکیم میں ملازمین کی تنخواہ سے 2 فیصد کٹ جاتا تھا۔ یہ 2 فیصد انھوں نے پارٹی فنڈ میں دے دیا اور وہاں سے یہ پیسہ شیئر مارکیٹ میں لگا دیا گیا، جو اب ڈوب چکا ہے۔ یہاں بڑا اماؤنٹ ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ پر بولنے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ہماچل میں 3 لاکھ مستقل ملازمین، تقریباً ڈیڑھ لاکھ پنشنر اور تقریباً 40 ہزار آؤٹ سورس ملازمین ہیں۔ مجموعی طور پر ملازمین کی تعداد تقریباً 5 لاکھ ہو جاتی ہے۔ اگر ایک ملازم کے ساتھ اوسطاً 4 رکن بھی جڑے ہوئے مانیں تو یہ تعداد 20 لاکھ ہو جاتی ہے۔ وجئے اور راجندر کا کہنا تھا کہ صرف او پی ایس کا مسئلہ ہی اس حکومت کی وداعی کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہڑتالیں ہوئیں، آؤٹ سورس ملازمین کو بھی انھوں نے بلایا اور کہا کہ مستقل کر دیں گے، لیکن بعد میں کیا کچھ نہیں۔ پورے 5 سال یہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے۔ لوگ بے وقوف تو نہیں ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے، نوجوان دھکے کھا رہے ہیں، کہیں ملازمت نہیں ہے۔ عام آدمی آخر کس طرح زندہ رہے گا۔ ملازمین کے مسائل کتنے سنگین ہیں، یہ کسمپٹی اسمبلی حلقہ میں سیاحتی مقام کفری میں ملے پرتاپ چند کی بات سے مزید سمجھا جا سکتا ہے۔ پرتاپ چند کہتے ہیں کہ وہ کفری میں گزشتہ 11 سال سے واٹر گارڈ کے عہدہ پر ہیں۔ انھیں صرف 4500 روپے تنخواہ کے طور پر ملتے ہیں۔ کفری میں پہلے 6 واٹر گارڈ ہوتے تھے، اب میں تنہا ہوں۔ لوگ ریٹائر ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ حکومت نے ایک بھی تقرری نہیں کی۔ نہ تو 6 کی جگہ میں تنہا کام سکتا ہوں اور نہ اس تنخواہ میں گزارا ہو پاتا ہے۔ 11 سال یہاں ملازمت کرنے کے بعد اب جائیں بھی تو کہاں جائیں۔ ہڑتالیں بھی کیں، لیکن اس کا بھی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

ٹھیوگ اسمبلی کے پرتاپ گھاٹ چوک میں جنرل اسٹور کے مالک بھرت سنگھ ورما اور پریم سنگھ کہتے ہیں کہ او پی ایس ہی بی جے پی کے لیے مصیبت کا سبب بن جائے گا۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں کیے گئے یکساں سول کوڈ لانے کے سوال پر بھرت سنگھ کہتے ہیں کہ ہمیں تو پتہ بھی نہیں ہے کہ یہ آخر ہے کیا! اس کی یہاں لانے کی ضرورت ہی کیا ہے! طالبات کو سائیکل اور اسکوٹی تقسیم کرنے کے وعدے کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ اس کی یہاں کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ 5 میڈیکل کالج کھولنے کے بی جے پی کے وعدے پر وہ کہتے ہیں کہ پہلے کیوں نہیں کھولے۔ یہاں سابق وزیر اعلیٰ ویربھدر سنگھ کا اثر بھی صاف نظر آتا ہے۔ بھرت سنگھ اور پریم سنگھ کہتے ہیں کہ ویربھدر سنگھ نے یہاں بہت کام کروائے ہیں۔ جاتے جاتے بھی وہ بس اڈہ سمیت تقریباً نصف درجن کام یہاں کروا گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیب کی پیکجنگ میٹیریل پر 12 سے 18 فیصد جی ایس ٹی کرنے سے بھی یہاں بڑی ناراضگی ہے۔ مہنگائی ایسا موضوع ہے جو غریب کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ٹھیوگ اسمبلی حلقہ کانگریس کے سرکردہ لیڈر ودیا اسٹوکس کا قلعہ رہا ہے۔ وہ یہاں سے تقرہباً دو دہائی سے زیادہ مدت تک رکن اسمبلی رہی ہیں۔ پرتاپ گھاٹ میں ہی کیٹرنگ اور ٹینٹ اسٹور چلا رہے راجیو دھیمان کہتے ہیں کہ کئی امیدوار ہونے سے ٹھیوگ میں مقابلہ تو سخت ہے۔ انتخاب کے ایکوئیشن بتاتے ہوئے وہ یہ مانتے ہیں کہ گزشتہ 5 سال میں اس حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ ٹھیوگ بس اسٹینڈ پر 50 سال سے اخبار فروخت کر رہے درگا دت سوال کرتے ہی کہتے ہیں کہ ہماچل میں رواج تو ایسے بدلتا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 5 سال میں انھوں نے ریاست پر قرض چڑھانے کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے! 5 سال میں نہ ملازمت دی اور نہ مہنگائی کم کرنے کے لیے کچھ کیا۔ درگا دَت کہتے ہیں کہ پہلے وزیر اعظم انتخاب کے وقت 3-2 ریلیاں ہی کرتے تھے، اب تو یہ شہر شہر گھوم رہے ہیں۔ کروڑوں روپے تو اسی پر پھونک رہے ہیں۔ اسی پیسے کا ہی کچھ عوام کے لیے کر دیتے۔ درگا دَت کہتے ہیں کہ گلی گلی وزیر اعظم کو گھومنے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ لوگ سب سمجھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو ہر ہفتے یہاں آنا کچھ بہتر نہیں معلوم پڑتا۔ درگا دَت ایک سنگین سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے روزگار اور پڑھے لکھے نوجوان دہاڑی پر بی جے پی کی انتخابی تشہیر میں گھوم رہے ہیں۔ یہ قصداً ان نوجوانوں کو روزگار نہیں دے رہے۔ اگر انھیں روزگار مل جائے گا تو پھر ان کے لیے زندہ باد-مردہ باد کون کرے گا؟ بی جے پی کے یکساں سول کوڈ کے وعدے پر درگا دَت کا کہنا تھا کہ یہ ہندو-مسلمان ہماچل میں نہیں چلے گا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہماچل کا ووٹر کتنا بیدار ہے۔ ہر شخص کے پاس ایک فہرست ہے جسے لے کر وہ موجودہ حکومت سے سوال پوچھ رہا ہے۔ اس سے ایک بات پھر صاف نکل کر آئی، اور وہ یہ کہ بی جے پی کے لیے کانگریس کے قلعہ رہے شملہ کو فتح کرنا دور کی کوڑی ہے۔


کانگریس کے قلعہ کو توڑنا آسان نہیں:

شملہ ضلع کے 8 اسمبلی حلقوں میں 50 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ ٹھیوگ اسمبلی حلقہ سے 8، چوپال سے 6، کسمپٹی سے 6، شملہ شہر سے 7، شملہ دیہات سے 6، جبل کوٹکھائی سے 6، رامپور سے 5 اور رہوڈو اسمبلی حلقہ سے 6 امیدوار میدان میں ہیں۔ شملہ ہمیشہ سے کانگریس کا قلعہ رہا ہے۔ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں بھی نام نہاد مودی لہر کے باوجود بی جے پی یہاں 3 سیٹیں ہی جیت پائی تھی۔ 4 سیٹیں کانگریس کو اور ایک سیٹ سی پی ایم امیدوار کو ملی تھی۔ ہماچل کے 12 اضلاع میں سے شملہ کی 8 سیٹیں، کانگڑا کی 15 سیٹیں اور منڈی کی 10 سیٹیں سب سے اہم تصور کی جاتی ہیں۔ 2017 میں کانگڑا اور منڈی میں بی جے پی کو یکطرفہ جیت ملی تھی۔ ان دو اضلاع کی 25 سیٹوں میں سے 20 بی جے پی کے حصے میں گئی تھیں۔ شملہ کی 3 سیٹیں ملا کر 3 اہم اضلاع کی 33 میں سے بی جے پی نے 23 سیٹیں جیت کر ہماچل میں حکومت بنائی تھی۔ مجموعی طور پر 68 اراکین اسمبلی والی ہماچل اسمبلی میں 23 کی تعداد معنی رکھتی ہے۔ اس بار ہوا کا رخ کچھ الٹا دکھائی دے رہا ہے۔ شملہ تو ویسے بھی بی جے پی کو کبھی فائدہ نہیں پہنچا سکا ہے۔ شملہ کے کسمپٹی اسمبلی حلقہ میں 12 انتخابات میں بی جے پی محض 3 بار ہی جیتی ہے۔ 1998 کے بعد تو بی جے پی یہاں کبھی فتحیاب نہیں ہوئی۔ اس بار بی جے پی نے سرکردہ لیڈر اور وزیر سریش بھاردواج کو اسمبلی حلقہ شملہ شہر سے ہٹا کر کسمپٹی سے اتار دیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انھیں بلی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ سیٹ بدلے جانے کی کسک بھی خود سریش بھاردواج نکال چکے ہیں۔ وہ برسرعام کہہ چکے ہیں کہ میرا تو یہاں ووٹ بھی نہیں ہے۔ میں انتخاب نہیں جیتوں گا۔ ضلع کی بیشتر سیٹوں پر بی جے پی حکومت مخالف لہر کا سامنا کر رہی ہے۔ہم اے 20 بی جے پیکے ح ان دو ا12 ااکے اسمبلی انتکو فت

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔