ہیٹ اسپیچ: غداری سے بھی بڑا گناہ!

جو حکومت ہیٹ اسپیچ کے علانیہ معاملے میں 5 ماہ تک ایف آئی آر نہ درج کرائے اور جس کی پولیس 8 ماہ تک کوئی تفیش نہ کرسکے، وہ ہیٹ اسپیچ کو روکنے کے لیے کیا قدم اٹھائے گی؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ/ تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

چند روز قبل لال قلعہ کے سامنے سے راہل گاندھی نے قومی میڈیا پر ہندو۔مسلم منافرت پھیلانے کا جو الزام لگایا تھا، اس پر سپریم کورٹ نے اپنی جمعہ کی سماعت کے دوران مہر لگا دی۔ جسٹس کے ایم جوزیف اور جسٹس ناگ رتنا کی بنچ نے کہا کہ ”میڈیا میں نفرت انگیز بیان بھارت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے جس پر روک لگانا ہوگا۔ ہم اسے بولنے کی آزادی کے زمرے میں نہیں لے سکتے۔ میڈیا اس سے سماج میں تقسیم پیدا کر رہا ہے“۔عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ”اگر کوئی نیوز اینکر نفرت کی زبان کا استعمال کرتا ہے تو اسے کیوں نہیں ہٹایا جاسکتا؟‘‘

اتفاق کی بات ہے کہ جمعہ کو ہی ہیٹ اسپیچ کے ایک اور معاملے کی بھی سماعت ہوئی۔ یہ معاملہ دسمبر 21 میں دہلی میں ہوئے دھرم سنسد سے متعلق تھا، جس میں جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے حکومت اور پولیس کو سخت لتاڑ لگائی۔ عدالت نے سوال کیا کہ ”دھرم سنسد کے انعقاد کے 5 مہینے بعد ایف آئی آر درج کیوں درج کی گئی، اس کے 8 ماہ بعد بھی تفتیش میں کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی، کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور کتنوں سے تفتیش کی گئی“؟ عدالت نے حکومت اور پولیس کو دو ہفتے کے اندر اسٹیٹس رپورٹ سونپنے کا حکم دیا۔ گویا سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ معاملے میں میڈیا اور پولیس کے حوالے سے حکومت کے دونوں گالوں پر زوردار طمانچہ رسید کیا ہے۔


اس سے قبل بھی ہیٹ اسپیچ کے معاملے پر ملک کی مختلف عدالتیں میڈیا اور حکومت کے رخسار شریف پر اسی طرح کے طمانچے لگاتی رہی ہیں، لیکن عقل ہے کہ ٹھکانے ہی نہیں آ رہی ہے۔ اور جب عقل ٹھکانے نہیں رہتی ہے تو اسی طرح کا جواب دیا جاتا ہے جس طرح دھرم سنسد معاملے میں حکومت نے سپریم کورٹ کو دیا ہے۔ عدالت نے جب حکومت کے کان مروڑے تو اس نے بلبلا کر یہ کہہ دیا کہ ہم ہیٹ اسپیچ کے خلاف قانون بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اب یہ بات تو ملک کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جو حکومت ہیٹ اسپیچ کے صریح مرتکبین کے خلاف 5 ماہ لتک ایف آئی آر درج نہ کرسکی تھی، جس نے اس کے 8 ماہ بعد کوئی تفتیش تک نہیں کرسکی وہ کیا قانون بنائے گی اور جو بنائے گی وہ کیسا ہوگا۔

سچائی یہ ہے کہ چاہے دھرم سنسد جیسی تقاریب میں نفرت انگیز بیانات ہوں یا قومی میڈیا پر پھیلائے جانے والی منافرت، یہ سب ایک ایجنڈے کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ قومی میڈیا پر ہیٹ اسپیچ کی سماعت کے دوران جج حضرات نے بھی اس ایجنڈے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ایجنڈا اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے کہ کسی بھی طرح حکومت کے ووٹ بینک کی سیاست کو مضبوطی حاصل ہو۔ اس کی درجنوں مثالیں ہیں، لیکن ہم یہاں صرف دہلی کے مایاپوری کے واقعے کا ذکر کریں گے جس میں اے ایس آئی شمبھودیال پر چاقو سے حملہ کرکے قتل کرنے والے ایک مجرم کو میڈیا بغیر کسی تحقیق کے ’جہادی‘ یا مسلمان نہ قرار دیتا اور بی جے پی کے لوگ میڈیا کی اس خبر کو نہ پھیلاتے۔


مایا پوری میں ہوئے اسنیچنگ کے ایک معاملے میں دہلی پولیس کے اے ایس آئی شمبھودیال جب ملزم کو گرفتار کرنے پہنچے تو ملزم نے اے ایس آئی پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ اس کے بعد ٹائمزناؤ سے لے کر سدرشن ٹی وی تک پر اس شخص کو ’محمد انیس‘ اور جہادی بتایا جانے لگا۔ اب کوئی اتنا بھی بھولا نہیں ہے کہ وہ ’محمد انیس‘ یا ’جہادی‘ لفظ کے استعمال کو نہ سمجھ سکے۔ تین چار دنوں تک مسلمانوں کے خلاف یہ منافرت خوب پھیلائی جاتی ہے۔ پھر جب دہلی پولیس پر دباؤ بڑھتا ہے تو اس نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے یہ وضاحت کی کہ ”اے ایس آئی شمبھودیال کو قتل کرنے والے شخص کا نام انیش راج ولد پرہلاد راج ہے۔ یہ ایک مجرم ہے۔ موبائل فون چوری کے الزام میں گرفتار کرنے کے دوران اس نے اے ایس آئی پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔ معاملہ فرقہ وارنہ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ ہینڈلس کے ذریعے غلط و گمراہ کن معلومات دی جا رہی ہے“۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تین چار دنوں تک ہندووں کے درمیان مسلمانوں کے خلاف نفرت کا یہ زہر پھیلایا جا رہا تھا، تو کیا پولیس اس سے لاعلم تھی؟ کیا پولیس کو قومی میڈیا پر ایک ایجنڈے کے تحت کیے جانے والے اس پروپیگنڈے کے بارے میں نہیں معلوم تھا؟ پھر جب اسے یہ معلوم ہوگیا کہ سوشل میڈیا کے کچھ ہینڈلس سے اس تعلق سے غلط اور گمراہ کن جانکاری پروسی جا رہی ہے تو کیا اس نے ان میڈیا ہینڈلس کے خلاف بھی کچھ کارروائی کی؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہیٹ اسپیچ یا نفرت صرف میڈیا یا کچھ فرقہ پرست لیڈروں کے ذریعہ نہیں پھیلائی جا رہی ہے بلکہ اس میں حکومت اور پولیس بھی کسی نہ کسی طور پر شامل ہے۔ یا اگر نہیں شامل ہے تو اس معاملے میں اس کی خاموش رضامندی ضرور ہے۔


قارئین کو یاد ہوگا کہ جمعہ کے ہی دن اخبارات میں آسٹریلیا سے متعلق ایک خبر آئی تھی، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ آسٹریلیا میں ہندوؤں اور ان کے مندروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ یہ خبر پرنٹ اور الکٹرانک دونوں میڈیا پلیٹ فارم پر آئی تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہندو ووٹ بینک کی سیاست اور ہندو مفاد کی بات کرنے والے بھی آسٹریلیا میں بھارتیوں پر ہونے والے ان حملوں پر خاموش ہیں۔ ان کی جانب سے اس پر ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا ہے۔

ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ آسٹریلیا میں جو حکومت ہے اس کو وہاں پر مندروں پر حملے کرانا اس کے ووٹ بینک کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن وہاں مندروں پر حملے کرنے والوں کے خلاف بولنا یا ان کی مخالفت کرنا یہاں کی سیاست کرنے والوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ البتہ اس خبرمیں اگر کوئی مسلمان اینگل ہوتا تو نہ جانے اب تک کتنا زہر پھیل چکا ہوتا۔ کروڑوں ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ ہوچکے ہوتے اور لاکھوں واٹس ایپ گروپ میں اس تعلق سے کچی پکی خبریں شیئر ہوگئی ہوتیں جس میں 90 فیصد جھوٹی ہوتیں۔


اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہیٹ اسپیچ یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کرنا ووٹ بینک کی سیاست کا ایک حصہ ہے۔ اگر آسٹریلیا میں ہندوؤں اور مندروں پر ہونے والے حملوں کے پسِ پشت ووٹ بینک کی سیاست ہے تو ہمارے یہاں بھی اس پر خاموشی کا سبب یہی ووٹ بینک کی سیاست ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست کرنے والے یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلا کر وہ اس ملک کا کتنا زیادہ نقصان کر رہے ہیں۔ یہ ملک کے ساتھ غداری سے بھی بڑا گناہ ہے۔

شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اس پر سخت رخ اپنایا ہے، لیکن یہ سخت رخ اس وقت تک شاید کارگر نہ ہوسکے جب تک اس کو بزورِ طاقت نہ روکا جائے۔ یہ کام حکومت کا ہے لیکن جو حکومت ہیٹ اسپیچ کے علانیہ معاملے میں 5 ماہ تک ایف آئی آر نہ درج کرائے، جس کی پولیس 8 ماہ تک کوئی تفیش نہ کرسکے اور اے ایس آئی شمبھودیال کے معاملے میں اس اعتراف کے باوجود کہ غلط اور گمراہ کن خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، کوئی سخت قدم نہ اٹھائے، وہ حکومت ہیٹ اسپیچ کو روکنے میں کیا موثر قدم اٹھائے گی؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔