جی20: ’نشستم، نوشتم، برخاستم‘!... اعظم شہاب

جی 20 کے کچھ اجلاس ہنوز باقی ہیں جو اس ماہ کے اخیر تک ہونے ہیں، لیکن ان کی اہمیت فالو اَپ سے زیادہ کی نہیں جن میں مالیاتی خطوط پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے عملی اقدام و نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔

جی 20، تصویر یو این آئی
جی 20، تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

خدا خدا کر کے جی 20 کے ہنگامہ ہائے میزبانی کا اختتام ہو گیا۔ جنوری سے جاری اس اجلاس کا مقصد یوں تو رکن ممالک کے درمیان تجارتی و معاشی تعاون کا تھا، لیکن اس کی تشہیر کے ساتھ جب خود کو ’وشو گرو‘ کے طور پر پیش کرنے کا موقع بھی جڑ گیا تو یہ ملک کے لیے شرف و منزلت کا مقام بن گیا۔ شاید یہی وجہ رہا کہ پردھان سیوک صاحب بارہا اسے ’دیش کا سوبھاگیہ‘ قراردیتے رہے۔ جبکہ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ میزبانی کا یہ شرف رکن مماملک کے درمیان گردش کرتا رہتا ہے۔ اس سے پہلے انڈونیشیا نے اس کی میزبانی کی تھی اور آئندہ برازیل کرے گا۔ چونکہ یہ اجلاس تجارتی و معاشی مضبوطی کے لیے تھے، اس لیے جن جن شہروں میں اس کے اجلاس ہوئے وہاں غربت کو پردوں و دیواروں سے ڈھک دیا گیا۔ یوں بھی جب تجارتی و معاشی مضبوطی کے ساتھ بات خود کو وشو گرو ثابت کرنے کی ہو تو غریبی و غربت کی بھلا کہاں گنجائش ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں تو حکومتی امداد حاصل کرنے والے ’لابھارتی‘ بن جاتے ہیں۔

جی 20 کے کچھ اجلاس ہنوز باقی ہیں جو اس ماہ کے اخیر تک ہونے ہیں، لیکن ان کی اہمیت فالو اَپ سے زیادہ کی نہیں جن میں مالیاتی خطوط پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے عملی اقدام و نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔ جنوری سے جاری ان اجلاس میں سب سے زیادہ اہم دہلی کے پرگتی میدان کا 9 اور 10 ستمبرکا اجلاس تھا جس میں رکن ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ ایک خبرکے مطابق جی 20 کے ان اجلاس کے انعقاد پر ڈھائی ہزار کروڑ روپئے صرف ہوئے ہیں۔ ان میں مہمانان کے لیے سونے و چاندی کے برتنوں میں ضیافت کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ضیافت کا یہ نمونہ اس ملک نے پیش کیا ہے جس کے یہاں کل آبادی کے 60 فیصد لوگ یعنی 140 کروڑ میں سے 80 کروڑ لوگ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے مفت سرکاری راشن کے محتاج ہیں اور جہاں اناج پیدا کرنے والے کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔ اب جبکہ سربراہانِ مملکت کا کلیدی جلسہ ہو چکا ہے تو اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ یوروپی یونین سمیت 19 ممالک، خصوصی طور پر مدعو 9 ممالک اور قومی و بین الاقوامی سطح کے 15 اداروں کے اس کلیدی کانفرنس سے ہمارے ملک عزیز کو کیا حاصل ہوا۔


اس ضمن میں سب سے اہم حصولیابی تو جی 20 کی میزبانی کی ہی رہی جسے ’دیش کی اُپلبدھی‘ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن سربراہانِ مملکت کے جلسے کے بعد یہ پیمانہ ’قائدانہ اہلیت‘ اور ’ڈیجیٹل ترقی‘ میں تبدیل ہو گیا۔ قومی میڈیا کے ذریعے بتایا جا رہا ہے کہ اس چوٹی کانفرنس سے ملک کو دو فائدے حاصل ہوئے جن میں پہلا یہ کہ رکن ممالک ہماری قائدانہ اہلیت تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور دوسرا یہ کہ ان اجلاس کے انعقاد کے ذریعے ہمیں اپنی انتظامی صلاحیت و ڈیجیٹل ترقی کو دنیا کو دکھانے کا موقع ملا ہے اور جس کی تمام رکن ممالک خوب تعریف کر رہے ہیں۔ گویا جی 20 کے اس کانفرنس کے ذریعے ملک کو جوفائدہ حاصل ہوا وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ہماری ’وشو گرو‘ کی حیثیت مزید مضبوط ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں فائدے قومی میڈیا کے ذریعے ہمیں بتائے جا رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کا بھی یہی موقف ہے۔

پہلی کامیابی یعنی قائدانہ اہلیت کو تسلیم کیے جانے میں مشترکہ اعلامیے کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ جاری ہونا بھارت کی ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ رکن ممالک کے درمیان عین وقت تک رضامندی نہیں ہو سکی تھی۔ لیکن اسی پسِ منظر میں بتایا جا رہا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ کے دستاویزات کئی گھٹنہ قبل جاری کر دیے گئے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عین وقت پر رکن ممالک کے درمیان رضامندی ہوئی تو دستاویزات کئی گھنٹہ قبل کیوں کر تیار ہو سکتے ہیں؟ ’اپلبدھی‘ کی یہ خبر لوگوں تک قومی میڈیا کے ذریعے پہنچی ہے۔ اس خبر میں پایا جانے والا تضاد یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس کو اپنا موقف بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ چونکہ جی 20 سمٹ کے انعقاد کا پورا دائرہ ہی پردھان سیوک صاحب کو وشو گرو ثابت کرنے کے گرد ہی کھینچا گیا تھا اور اس میں گودی میڈیا کا اہم کردار رہا، اس لیے اس طرح کی خبروں پر حیرت بھی نہیں ہونی چاہئے۔


دوسری کامیابی اجلاس کے انعقاد کے دوران ڈیجٹیل ترقی کا مظاہرہ بتایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان اجلاس کے انعقاد کے طریقہ کار سے مودی حکومت نے اپنی کامیابی کی کہانی کو پوری دنیا تک پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے آج پوری دنیا میں ہماری ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کی کامیابی کا تذکرہ ہونے لگا ہے۔ کامیابی کی یہ تاویل سن کر ہنسی آتی ہے کہ بغیرکسی وجہ کے بھی اگرکوئی کریڈیٹ لینے یا دینے کی کوشش کرے تو اس کے لیے شعور بھی لازم ہونا چاہئے۔ یہ دعویٰ کرنے والوں کو ایک نظر رکن ممالک کی ڈیجیٹل ترقی پر بھی ڈال لینی چاہئے جہاں بات اب ڈیجیٹل ترقی سے آگے بڑھ کر مصنوعی ذہانت تک جا پہنچی ہے۔ لیکن چونکہ مودی حکومت کی طرح قومی میڈیا بھی اپنے خول سے باہر دیکھنے سے قاصر ہے یا دیکھنا نہیں چاہتا ہے، اس لیے اسے یہ عام بات بھی ’اپلبدھی‘ نظر آ رہی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ قومی میڈیا کے ذریعے گنائے جانے والے یہ فائدے بھی اسی طرح تصوراتی ہیں جس طرح پردھان سیوک کے لیے وشو گرو کا خطاب۔

لیکن ان فائدوں و حصولیابیوں سے پرے ایک ویڈیو ہے جو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ اس ویڈیو کے ذریعے پردھان سیوک صاحب کے نزدیک میڈیا کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس وائرل ویڈیو میں پردھان سیوک صاحب میڈیا کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ اب ہمیں وقت دیں اور جلسہ گاہ سے باہر جانے کی زحمت کریں۔ چونکہ عام طور پر اس طرح کے پروگرام کے انعقاد سے پہلے میڈیا کو موقع دیا جاتا ہے اور پھر پروگرام کے شروع ہوتے ہی میڈیا خود بخود باہر نکل جاتا ہے، اس لیے پردھان سیوک صاحب کی یہ اپیل کچھ غلط بھی نہیں تھی، لیکن انہوں نے جس طرح میڈیا کے لوگوں کو باہر نکلنے کے لیے کہا، اس کی وجہ سے ان کی یہ ویڈیو ان کی ڈیجیٹل ترقی سے زیادہ موضوع بحث بن گئی۔ ظاہر ہے اس کے بعد اجلاس کی کارروائی میں میڈیا کی موجودگی نہیں رہی ہوگی۔ ایسی صورت میں بھلا یہ کیسے ممکن ہوگا کہ جلسہ گاہ کی باتیں باہر آ سکیں۔


ایک جانب کلیدی جلسے سے میڈیا کو دور رکھا جا رہا تھا تو دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ آیا ہوا امریکی میڈیا پریس کانفرنس کا مطالبہ کر رہا تھا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ چونکہ مودی حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے واپسی کے دوران ویتنام میں امریکی صدر سے بات کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ یعنی اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس تو دور، امریکی میڈیا کو امریکی صدر سے بھی بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بہرحال دوسرے روز 11 ستمبر کو جب بائڈن ویتنام پہنچے تو امریکی میڈیا نے ان سے بات کی۔ مودی حکومت نے سوچا ہوگا کہ جلسہ گاہ سے میڈیا کو دور رکھ کر صرف پردھان سیوک کی خود ساختہ وشو گرو کی شبیہ کو ہی گودی میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے گی، لیکن ویتنام میں امریکی صدر نے میڈیا کو مودی جی سے اپنی بات چیت کا موضوع اور نوعیت بتا کر مودی حکومت کی پریس فریڈم کے غبارے کی ہوا نکال دی۔

لیکن جی 20 کے ان اجلاس کے دوران ایک بات ایسی بھی ہوئی جو ملک کے کسانوں کے لیے کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں ہے۔ چونکہ یہ بات 5 اور 6 ستمبر کو رکن ممالک کے شعبہ مالیات کے نمائندوں کی میٹنگ کے دوران ہوئی تھی اس لیے یہ کسی طور پر باہر آ گئی، لیکن قومی میڈیا میں اس انداز میں آئی گویا یہ ضروری تھا۔ ہوا یوں کہ مودی حکومت نے 28 امریکی اشیاء جن میں مختلف زرعی پیداوار بھی شامل ہے، ان پر سے درآمد کی ڈیوٹی کم کر دی جو 2019 میں اس نے بڑھایا تھا۔ امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے سے ملک کی آمدنی میں اضافہ تو ہو ہی رہا تھا، کسانوں کو بھی فائدہ مل رہا تھا۔ اس اضافے کی وجہ سے ان کی پیداوار کو کچھ بہتر قیمت مل رہی تھی۔ لیکن 4 ستمبر کی میٹنگ کے بعد وزارت مالیات نے بڑھائی ہوئی امپورٹ ڈیوٹی واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ اب اس کے بعد ہوگا یہ کہ جو بھی زرعی پیداوار امریکہ سے درآمد ہوگا وہ سستا ہوگا جس کا براہ راست نقصان ہمارے کسانوں کو ہوگا۔


ایسی صورت میں جب ملک کا کسان ایک بار پھر سڑکوں پر اترنے کی تیاری کر رہا ہے، کسانوں کی خود کشی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کیا مودی حکومت کا یہ فیصلہ ان کے لیے مزید پریشانی کا سبب نہیں بنے گا؟ ملک کی 58 فیصد آبادی کی معیشت کا بنیادی ذریعہ زراعت ہے۔ ایسی صورت میں جب امریکہ کا زرعی پیداوار سستے داموں یہاں دستیاب ہوگا تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ ملک کے کسانوں پر اس کے اثرات نہیں پڑیں گے؟ ویسے بھی امریکہ میں زراعت کے لیے جو سہولیات دستیاب ہیں وہ ہمارے یہاں تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں زراعت کا انحصار آج بھی افرادی قوت پر ہے۔ اس تناظر میں جی 20 سمٹ سے ملک کو ہونے والے فائدے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ بات بڑے زور و شور سے کہی جارہی ہے کہ اس جی 20 سمٹ سے کسی ملک کو فائدہ ہوا ہو تو ہو، بھارت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے یہ اجلاس ملک عزیز کے لیے ’نشستم، نوشتم، برخاستم‘ کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔