پہلی بار اپوزیشن کے سامنے حکومت بے بس نظر آئی... نواب علی اختر

کسان بل سمیت حکومت کے متعدد یکطرفہ فیصلوں کی مخالفت فی الحال ختم نہیں ہوئی ہے، ہاں معطل ضرور ہوئی ہے کیونکہ ملک کی بیٹیوں کو بھی انصاف دلانا اپوزیشن اورعوام کی ذمہ داری ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

نواب علی اختر

پچھلے کچھ برسوں میں دنیا کے تقریباً سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی سیاست کے مختلف پہلو رائج کر دیئے گئے ہیں اور سیاسی پارٹیاں عوام کو اپنی سیاست کے جال میں پھانس کر اپنے طور پر استعمال کرنے کی جگاڑ کرتی نظر آتی ہیں حالانکہ سیکولر ہندوستان کے عوام کو صرف ملک کی ترقی اور اتحاد وبھائی چارہ کی سیاست ہی پسند ہے جسے انہوں نے ہمیشہ فروغ دیا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ اقتدار کی حوس میں کچھ سیاسی پارٹیوں نے ملک اور اس کے عوام کی فکر کرنے کی بجائے صرف اقتدار کو ملحوظ خاطر رکھا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ موجودہ ماحول میں عوام نے خود کو محدود کر دیا ہے کیونکہ ہر طرف ایک نئی طرح کی دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ حکمراں طبقہ خود ساختہ مالک بن گیا ہے جسے نہ تو عوام کی فکر ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کی۔

ایسے وقت میں جب حکمراں طبقہ اپوزیشن کو ختم کر نے پر آمادہ ہے، عوام کے اوپر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ جمہوری ملک کی بنیاد حزب اختلاف ہوتا ہے اور جہاں اپوزیشن نہیں ہوگا وہاں جمہوریت کو بے موت مار دیا جائے گا۔ حکمرانوں کی اسی ہٹلر شاہی کو محسوس کرتے ہوئے عوام نے حالانکہ آواز اٹھانی شروع کر دی ہے جس کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کو بھی طاقت ملی ہے اور انہوں نے عوام کی آواز کو مزید تقویت پہنچانے کا کام کرتے ہوئے حکمرانوں کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران پارلیمنٹ سے سڑک تک جس طرح کی تحریکیں منظر عام پر آئی ہیں انہوں نے صاف اشارہ دے دیا ہے کہ ہٹلرشاہی کا دور ختم ہوچکا ہے اور جوحکومت عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے مارکیٹنگ کی سیاست کرے گی اس کی دکان کا شٹرڈاون کردیا جائے گا۔


یہ حقیقت ہے کہ موجودہ وقت میں ملک کی سیاست میں حکمراں پارٹی بی جے پی نے جو اتھل پتھل مچائی ہے، اب اس کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے رویہ سے تو یہی معلوم ہو رہا ہے کہ اس نے حکمراں پارٹی کی غلط پالیسیوں کے خلاف کمر کس لی ہے۔ پارلیمنٹ میں کسان بل پر احتجاج اور حکومت مخالفت ارکان کی معطلی کے بعد اپوزیشن پہلے سے زیادہ بر ہم اور متحد نظر آیا، جس کی وجہ سے پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ اپوزیشن نے شاندار حکمت عملی کے تحت جس طرح اپنے مطالبات کی یکسوئی تک راجیہ سبھا کا بائیکاٹ کیا اس نے حکومت کے آگے کی راہ مشکل بنا دی ہے۔ موجودہ حالات میں یہی کہا جائے گا کہ اگر اپوزیشن پارٹیوں نے مودی حکومت کی اب تک کی غلط پالیسیوں کا جم کر مقابلہ کیا ہوتا تو شاید یہ حکومت اپنا رویہ بہتر بناتی، مگر اپوزیشن اب تک سیاسی ناکامیوں کے صدمہ اور غم پر ہی ماتم کرتا رہا جس کا حکومت نے فائدہ اٹھایا۔

سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کی اعلیٰ قیادت سونیا گاندھی نے پارٹی میں کور گروپ تشکیل دے کر مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مضبوط محاذ بنانے کا فیصلہ کیا اور کسان اصلاحات بل کے حوالے سے شرومنی اکالی دل کی لیڈر اور مودی کابینہ میں وزیر ہرسمرت کور کے استعفیٰ سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ سونیا گاندھی کے سیاسی منصوبے رنگ لا رہے ہیں۔ انہوں نے جس کور گروپ کو تشکیل دیا ہے اس نے اپنے ہدف پر ضرب لگانی شروع کردی ہے ۔ یہ ہندوستانی سیاست میں ایک اہم موڑ کہا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے جمود کا شکار اپوزیشن نے اپنے وجود کا احساس دلانا شروع کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں زرعی بل کے خلاف پوزیشن کے احتجاج نے حکومت کی صفوں میں ہلچل مچادی ہے۔ گویا بہت دنوں بعد حکومت کو اپوزیشن کی طاقت کا احساس ہوا ہے۔


مرکز میں جب سے مودی حکومت آئی ہے، ایک جمہوری ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کبھی بھی افہام و تفہیم کی ایسی فضا قائم نہیں کی گئی جس سے عوامی مسائل کی یکسوئی میں اپوزیشن کی رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکومت نے پالیسیاں مرتب کی ہوں اور ان پر عمل آوری سے قبل اپوزیشن سے اتفاق رائے پیدا کیا ہو۔ مودی حکومت کی نظر میں اپوزیشن کی کوئی اہمیت نہ ہونا جمہوری سیاست کا ایک بڑا سانحہ کہا جائے گا۔ حکمراں فریق کی جانب سے سرکاری ایجنسیوں، الکٹرانک میڈیا کے زرخر ید اینکرس اور سوشل میڈیا کے فرضی اکاونٹس کے ذریعہ اپوزیشن کو نشانہ بنانا شروع کیا گیا جس کے نتیجہ میں اب تک اپوزیشن خود کو بچانے اور جمہوریت کو سینے سے لگا کر عوامی مسائل کی یکسوئی کی جدوجہد کرتی نظرآئی۔

زرعی اصلاحات بل نے مودی حکومت کو پورے ملک میں آشکار کر دیا ہے اور یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ حکومت صرف دولت مندوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ چند مٹھی بھر دولت مند لوگ سارے ملک کو اپنی مٹھی میں کر لینا چاہتے ہیں۔ مودی حکومت اپنی چند متمول افراد کے ہاتھوں ملک کے ہر شعبہ کو فروخت کر رہی ہے یا گروی رکھ رہی ہے۔ زرعی اصلاحات بل بھی بڑے تاجروں کے پاس ملک کے کسانوں کو گروی رکھ دینے کے مترادف ہے۔ کسانوں کے پیدا کردہ اناج کو بڑے بیوپاریوں کے قبضہ میں دینے کی راہ ہموار کرنے والے زرعی اصلاحات بل کو نافذ کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے ہاتھ ایک مضبوط موضوع آیا ہے۔ اب وہ اس مسئلے کو لے کر ملک کے کونے کونے میں پہنچے گی تو عوام کو مودی حکومت کی زیادتیوں اور من مانی سے واقف کروایا جائے گا۔


کسان بل سمیت حکومت کے متعدد یکطرفہ فیصلوں کی مخالفت فی الحال ختم نہیں ہوئی ہے ہاں معطل ضرور ہوئی ہے کیونکہ ملک کی بیٹیوں کو بھی انصاف دلانا اپوزیشن اور عوام کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی نے پورے اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اترپردیش کے ہاتھرس میں حیوانیت کی شکار ہوئی بچی کے لواحقین کے ساتھ یوپی انتظامیہ کے سلوک سے برہم راہل گاندھی نے متاثرین کو انصاف دلانے کا عہد کیا ہے اور اس دوران پولس کے دھکے کو بھی برداشت کر کے یوپی انتظامیہ کی کارکردگی کو عالمی ایشو بنا کر پسماندہ عوام کے جسم میں ایک نئی جان پھونک دی ہے۔ یہ انصاف کی لڑائی اس وقت تک جاری رکھنے کی ضرورت ہے جب تک یوپی کی یوگی حکومت ذات برادری سے اوپر اٹھ کر جرائم کے خلاف سخت رخ نہیں اپنا لیتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔