کورونا بحران کے دوران زندگی کا احتساب... نواب علی اختر

مرکزسے لے کر ریاستوں تک مخصوص ذہنیت کی حامل حکومتوں اور ان کے گروپوں نے انتہا پسندانہ سوچ کا جس بے شرمی کے ساتھ مظاہرہ کیا اس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ مستقبل میں کن بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

کورونا بحران دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیلا اور زندگی کی تمام تر مصروفیات کو مفلوج کرکے انسان کو گھر کی چہاردیواری میں مقید کردیا۔ اس بحران نے جہاں ساری دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچایا، وہیں اور بھی بہت ساری چیزوں میں انسانی زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ یہ حالات اگر چہ آزمائش اور تکالیف سے بھرے ہوئے ہیں لیکن ایک لمحے کے لیے انہوں نے ہر انسان کو یہ سوچنے پر مجبور ضرور کر دیا ہے کہ زندگی ان بے شمار تکلفات کے بغیر بھی بڑے خوب صورت طریقے سے گزاری جاسکتی ہے جو ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر مسلط کرلی تھیں۔ بہترین انسان کون ہے؟ یہ بد ترین حالات بتاتے ہیں۔ یقیناً یہ حالات جہاں بہت سارے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث تھے وہیں کچھ لوگوں نے ان کا بھرپور استعمال بھی کیا اورخود کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔

مرکز سے لے کر ریاستوں تک مخصوص ذہنیت کی حامل حکومتوں اور ان کے گروپوں نے انتہا پسندانہ سوچ کا جس بے شرمی کے ساتھ کھلے عام مظاہرہ کیا جس سے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ مستقبل میں کن کن بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایک گروپ کی جانب سے عالمی وبا کو مذہب سے جوڑ کر ایک مخصوص طبقے کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں حالانکہ کامیاب نہیں ہوسکیں مگر انتہا پسندانہ سوچ نے سیکولر ذہنوں سے لے کرعام انسانوں کو یہ سوچنے پرمجبور کردیا کہ کیا ہمارے بزرگوں نے ایسے ہی ہندوستان کا خواب دیکھا تھا یا قوم پرستی کے نام پر ان کی جدوجہد اور قربانی کو اسی طرح کچلا جائے گا۔


بحران سے قبل زندگی کی تیز رفتاری میں اس قدر مصروف تھے کہ مال و دولت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے تھے۔ اب جبکہ حالات اس حد تک آگئے ہیں کہ سب کچھ بند پڑا ہے تو اب اللہ کی رزاقیت پر یقین آگیا کہ کاروبار بند ہونے اور ان سخت حالات کے باوجود بھی وہ ہمیں کھلا اور پلا رہا ہے اور زندگی میں اتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی ضرورت بھی نہیں جتنی کہ ہم نے بنالی تھی۔ زیادہ سے زیادہ مال و دولت بنانے کے چکر میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ اللہ نے رشتوں کی صورت میں جو نعمتیں مجھے دی ہیں وہ کس قدر خوب صورت ہیں۔ آج اگر چہ مجبوری میں گھر رکنا پڑ رہا ہے مگر ان رشتوں کے ساتھ وقت گزارنے اور انہیں قریب سے محسوس کرنے کا موقع ملا اور اللہ کی اس عظیم نعمت پر دل سے شکر ادا کیا کہ اگر باقی کچھ بھی نہ ہو مگر صرف یہی رشتے ہوں تب بھی زندگی بڑی خوشگوار گزر سکتی ہے۔

کبھی ہم نے محسوس ہی نہیں کیا تھا کہ جب بارش ہوتی ہے تو اس کے ساتھ اللہ کی رحمت بھی اترتی ہے۔ کبھی احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ گھاس پر چلنے کا کیا لطف ہے۔ درخت، پھول اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے کتنا سرور ملتا ہے۔ صبح کے اجالے میں چھت پر فجر کی نماز پڑھنے اور بادِ صبا کے جھونکوں کو اپنی سانسوں میں اتارنے کا لطف انہی دنوں میں ہوا اور تب ہمیں ادراک ہوا کہ ہم نے فطرت سے خود کو دور کرکے اپنے سے زیادتی کی ہے۔ اس سے قبل ہمیں صحت اور خاص طور پر قوت مدافعت کو مضبوط کرنے کے بارے میں بالکل شعور نہیں تھا اور نہ ہی کبھی پروا کی تھی۔ کورونا کی وجہ سے خالص اور قدرتی خوراک لینی شروع کی اور ان تمام چیزوں کو کھانا چھوڑ دیا جو بجائے فائدہ کے نقصان دہ ہیں۔ اس لحاظ سے وہ تمام فضول خرچے بھی بند ہوگئے جو صرف زبان کے ذائقے کی خاطر ہم لوگ کرتے تھے اور یہ یقین مضبوط ہوگیا کہ صرف بنیادی ضروریات پر بھی جیا جاسکتا ہے۔


اس دوران چونکہ مصروفیات بند ہوگئی تھیں تو ہمیں اپنے ساتھ وقت گزارنے کا بھی موقع ملا۔ خود کو سمجھا اور آنے جانے والے خیالات و تصورات کے بارے میں غور کیا، نیز مراقبے کا موقع بھی ملا، دماغی مشقوں سے خود کو بڑی حد تک بہتر کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی کمپنی کو خوب انجوائے کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے لیے کچھ اہداف اور گولز مقرر کیے اور ان کو حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کیں۔ ہر طرف فرصت ہی فرصت تھی تو ہم نے کچھ ایسی عادات زندگی میں شامل کیں جو تعمیری ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی تھیں اور جنہوں نے ہماری ذہنی و فکری ترقی میں کافی مدد دی۔

اپنی گزشتہ زندگی پر ہم نے نظر دوڑائی اور شروع سے لے کرآج تک کے تمام واقعات اور ان کی کڑیوں کو جوڑا، انہیں معانی دینے کی کوشش کی۔ موجودہ ایام میں جن حالات کا ہمیں سامنا ہے ،ان کے معنی بھی تلاش کیے اور دِل میں یہ یقین بیٹھ گیا کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے اس میں بہتری ہوتی ہے اور ہماری پلاننگ کے اوپر بھی ایک پلانر ہے جو اپنی پلاننگ کے مطابق کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر موجودہ نعمتوں پر دِل سے اللہ کا شکر ادا کیا۔ معاشی بدتری کے ان ایام میں احساس ہوا کہ ہماری زندگی کا زیادہ تر حصہ خواہشات پر چل رہا تھا۔ اب چونکہ روٹی کی فکر لگ چکی ہے تو معلوم ہوا کہ صرف بنیادی ضروریات پوری کرکے بھی زندگی گزاری جاسکتی ہے جو اگر پوری ہوں تو پھر خواہشات کے پیچھے خود کوخوار کرنے کی ضرورت نہیں۔


اس دوران بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا، ان کے ساتھ خوشگوار اوقات گزارے اوران کو بہت قریب سے سمجھا۔ بچوں سے میں نے خود کافی کچھ سیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں بچوں کی اصلاح کی ضرورت تھی وہاں تربیت بھی کی۔ چونکہ اسکولز بند ہیں، اس لیے زیادہ تر اسکولوں کی آن لائن کلا سیز نے بچوں کے ساتھ ان کے اہل خانہ کو بھی مصروف کردیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ لغویات میں وقت کے ضیاع سے محفوظ رہ کر بچوں کے ساتھ جدید دور سے ہم آہنگ ہونے کا طریقہ اور گھر بیٹھے ہی زندگی کی اہم سرگرمیاں انجام دینے کا ہنر سیکھا۔ پڑھائی کو ہم نے ایک تفریحی مشغلہ بنایا، بچوں کا وقت بھی اچھا گزرا اور انہوں نے بہت کچھ سیکھ بھی لیا۔

ان اعصاب شکن حالات نے ہمیں آئینہ دِکھا دیا اور ہر وہ چیز جسے ہم اپنی زندگی کے لیے بے حد ضروری خیال کرتے تھے، اس کی حقیقت بھی بتا دی۔ زندگی میں ٹھہراؤ اور مزاج میں صبر آگیا، دِل نے کہا کہ اتنی دوڑ جو ہم نے دنیا کے لیے لگا رکھی تھی وہ بے فائدہ تھی۔ آج صرف اللہ کے ساتھ تعلق اور اپنے نیک اعمال کام آرہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔