بدعنوانی میں بھی بدعنوانی!

بدعنوانی کے خلاف اپوزیشن لیڈروں پر کارروائی سے اب بیک فائر ہونے لگا ہے جس کے اثرات آنے والے انتخابات میں ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے۔

ای ڈی، تصویر آئی اے این ایس
ای ڈی، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں کے گھروں پر پتھر نہیں پھینکا کرتے۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو اس کی دو وجہ ہوسکتی ہے۔ پہلا یہ کہ یا تو وہ شخص پاگل ہوچکا ہے یا پھر وہ چاہتا ہے کہ اس کے گھر پر بھی پتھر پھینکا جائے۔ لیکن اگر پتھر پھینکنے والا برسرِ اقتدار بھی ہو تو یہ اس کی بوکھلاہٹ کہلائے گی جس میں وہ اپنا نفع ونقصان بھول چکا ہے۔ دہلی سے لے کر پٹنہ تک اور حیدرآباد سے لے کر کولہاپور تک بدعنوانی کے نام پر اپوزیشن لیڈران کے خلاف کارروائیاں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ یا تو اقتدار کے نشے میں بی جے پی اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی ہے یا وہ چاہتی ہے کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو کر اس کا مقابلہ کریں یا پھر وہ بوکھلاہٹ کی شکار ہوچکی ہے۔ تینوں صورتیں اس کے لیے نقصاندہ ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں وہ محسوس نہیں کر پا رہی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف تفتیشی ایجنسیوں کی اس کارروائی پر اب کسی کو حیرت بھی نہیں ہو رہی ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں کو اب نہ تو اپوزیشن سنجیدگی سے لے رہی ہے اور نہ ہی عوام۔ اپوزیشن اس لیے نہیں کیونکہ وہ بخوبی سمجھتی ہے کہ یہ ایک سیاسی انتقام ہے جسے وہ بہت جلد سود سمیت واپس کرے گی۔ عوام اس لیے نہیں کہ وہ یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ اپوزیشن کو پریشان اور بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کچھ خبریں تو ایسی بھی ہیں کہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی اب محض خانہ پری پر ہی اکتفا کر رہے ہیں اور ہدایت کے مطابق مقدمات درج کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ چھاپے ماری وتفتیش میں چاہے کچھ ہاتھ آئے یا نہ آئے، انہیں کرنا وہی ہے جو اوپر سے کہا جائے گا، تو پھر محنت کرنے کی کیا ضرورت۔


لیکن شیشے کے گھر اور پتھر کی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی کو اتنا بھی نہیں ڈرانا چاہئے کہ اس کے اندر سے ڈر ہی نکل جائے۔ کیونکہ جب آدمی کے اندر سے ڈر نکل جاتا ہے تو وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ پھر وہ مہاراشٹر کے ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کا سنجے راؤت بن جاتا ہے جو جیل سے چھوٹنے کے بعد بھی مرکزی وریاستی حکومت پر مسلسل بدعنوانی کا الزام لگاتا اور ثبوت وشواہد پیش کرتا رہتا ہے۔ وہ کولہاپور کے این سی پی کا حسن مشرف بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کسی بات کا خوف نہیں ہے۔ وہ رام پور کے سماج وادی پارٹی کا اعظم خان بن جاتا ہے اور مسلسل کارروائیوں کے بعد بھی ڈٹ کا کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ جیل میں رہ کر بھی انتخابات میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ بہار کا لالو پرساد یادو بن جاتا ہے جو بیماری کے باوجود بی جے پی و آر ایس ایس سے نظریاتی جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں ولیڈروں کا یہ موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے اندر سے خوف نکل چکا ہے اور وہ اب پہلے سے زیادہ خطرناک ہوچکے ہیں۔

دراصل بداعنوانی کے خلاف یہ کارروائیاں خود اپنے آپ میں کئی سنگین سوال پیدا کر دیتی ہیں۔ یہ سوالات ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت کو ہی گھیرتے ہیں جو اس کی ہی بدعنوانی پر مہر لگا دیتی ہے۔ ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بی جے پی جن لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد کرتی ہے، ان کی تفتیش اور گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہے اور جب وہ بی جے پی کے ساتھ آجاتے ہیں تو ان کے خلاف تمام الزامات یکلخت بند ہوجاتے ہیں؟ ایسے لیڈروں کی ایک طویل فہرست ہے جن کے خلاف بی جے پی نے بدعنوانی کے الزامات لگائے لیکن جیسے ہی وہ بی جے پی میں شامل ہوئے یا بی جے پی کے اتحادی بنے، دودھ کے دھلے ہوگئے۔ پھر چاہے وہ مہاراشٹر کے نرائن رانے ہوں، آسام کے ہیمنت بسوا سرما ہوں، بنگال کے شوبندو ادھیکاری ہوں یا پھر کرناٹک کے یدی یورپا ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بدعنوانی صرف اپوزیشن پارٹیوں میں ہی ہیں؟ جبکہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ملک کے سب سے زیادہ بدعنوان اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لیڈر بی جے پی میں ہیں۔


ایسا بھی نہیں ہے کہ پہلے بدعنوانی نہیں ہوا کرتی تھی، پہلے بھی بدعنوانی تھی اور اب بھی ہے لیکن پہلے کے مقابل اب بدعنوانی کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی ہے۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے ہندوستانی کارپوریٹ سیکٹر کی تاریخ کے سب سے بڑے گھوٹالے کے تار خود ہمارے پردھان سیوک سے جڑے ہوئے ہیں؟ اور جب پارلیمنٹ میں اس پر سوال کیا جاتا ہے تو اپنی تقریر میں پردھان سیوک سب کچھ بتاتے ہیں مگر جو سوال کیے جاتے ہیں انہیں کا جواب نہیں دے پاتے؟ کیا کسی نے کہیں سنا ہے کہ کسی ملک کا وزیر اعظم ایک خاص صنعتکار کو اپنے ساتھ لے کر پوری دنیا میں ٹھیکے دلواتا پھرے؟ کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ ایک وزیر کا بیٹا رشوت کے معاملے میں 8 کروڑ روپئے نقد کے ساتھ پکڑا جاتا ہے اور عدالت سے اس کی ضمانت بھی ہوجاتی ہے اور دوسری طرح کولہاپور میں دوماہ میں تیسری بار اپوزیشن کے ایک لیڈر کے گھر پر چھاپے ماری کی جاتی ہے؟

کیا یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال نہیں ہے کہ کسی کے گھر پر مسلسل چھاپے مارے جائیں، کئی کئی گھنٹوں تک اس سے تفتیش کی جائے، ایک ایجنسی کے ذریعے درج مقدمے میں اگر ضمانت ہوجائے تو دوسری ایجنسی اس میں کود پڑے پھر بھی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کہ طے کرلیا گیا ہو کہ کچھ بھی ہوجائے اپوزیشن کے تمام سرکردہ لیڈروں پر بدعنوانی کا لیبل لگا کر ہی چھوڑا جائے گا۔ لیکن اس سے ہونے والے نقصان کے امکان سے بی جے پی بالکل اسی طرح آنکھیں موندے ہوئے ہے جس طرح کوئی شیشے کے گھر والا کسی دوسرے کے گھر پر پتھر مارتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے ریاستی اسمبلی وعام انتخابات میں یہ معاملے موضوع بنائے جائیں گے اور پھر بی جے پی کی ایماندارانہ سیاست کی قلعی اترتے دیر نہیں لگے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */