کھسیانی بلی کھمبا نوچے!

راہل گاندھی کے بیانات کو ملک کی توہین قرار دینے والوں کے پاس دراصل راہل کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر@INCIndia</p></div>

راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر@INCIndia

user

اعظم شہاب

انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں راہل گاندھی نے ملک کی صورت حال کیا بیان کردی، زعفرانی بریگیڈ آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر کوئی دیش کے امرت کال کا ہی بکھان کرے، اس لیے اسے راہل گاندھی کا بیان بہت ناگوار گزرا۔ اسی ناگواری کے تحت کوئی اسے وزیراعظم کی بدنامی کہہ رہا ہے تو کوئی اس سے بھی آگے بڑھ کر اسے براہِ راست ملک کی توہین قرار دے رہا ہے۔ راہل گاندھی نے اسی پروگرام میں چونکہ چین اور امریکہ کے آپسی تنازعے میں ہندوستان کے ممکنہ کردار کا بھی کا ذکر کر دیا تھا اس لیے بات وزیراعظم کی بدنامی اور ملک کی توہین سے آگے بڑھ کر چین سے قربت کے الزام تک بھی جا پہنچی۔

لیکن کانگریس و راہل گاندھی کے خلاف یہ مہم جاری ہی تھی کہ لندن میں انڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے پروگرام میں راہل گاندھی نے یہ پورا داؤ ہی الٹا کر دیا۔ انہوں نے زعفرانی بریگیڈ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ غیرملکی سرزمین پر میں نے نہیں بلکہ خود وزیراعظم ملک کی توہین کرتے ہیں۔اس کے ثبوت میں انہوں نے وزیراعظم کے وہ بیانات پیش کر دیئے جس میں وزیراعظم کہیں بھارت میں پیدا ہونے پر شرمندگی کا اظہارکرتے ہیں تو کہیں یہ کہتے ہیں کہ 70 سالوں بھارت میں کچھ ہوا ہی نہیں۔راہل گاندھی کے اس جوابی حملے نے زعفرانی غول کی حالت کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بنا دی ہے، اب اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس کا جواب دے تو بھلا کیسے دے۔ کیونکہ اگر وہ اس کی تردید کرتا ہے تو یہ سب بیانات پبلک ڈومن میں موجود ہیں۔


زعفرانی بریگیڈ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ وزیراعظم کے مقام و مرتبے اور ملک کی عظمت میں کوئی تمیز ہی نہیں کر پاتا ہے۔ وہ وزیراعظم کو ہی ملک سمجھ بیٹھا ہے اور اسی وجہ سے وہ وزیراعظم پر تنقید کو ملک پرتنقید تصور کرتا ہے۔ جبکہ وزیراعظم بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح ایک شہری ہیں اور انہیں بھی ایک ہی ووٹ دینے کا اختیار ہے جس طرح دوسرے لوگوں کو ہے۔ اب اگر کوئی شخص ملک کے وقارسے کھلواڑ کرے، ایک خاص عہدے پر پہنچ کر ملک کے سرمایے کو اپنے کچھ چنندہ لوگوں کی جیبوں میں ڈالے، یا ملک کے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچائے تو اس پر اس کی گرفت ہونی چاہئے اور یہ اختیار ملک کا آئین دیتا ہے۔ لیکن جو لوگ وزیراعظم کو ملک کے وقار وسالمیت سے بالاتر سمجھتے ہیں وہ اسے برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پر راہل گاندھی کی تنقید سے یہ غول کچھ ایسا بلبلا اٹھا ہے کہ گویا سانپ کی دم پر کسی نے پیر رکھ دیا ہو۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی انگلینڈ میں راہل گاندھی نے ایسا کچھ کہہ دیا ہے جس سے ملک کی توہین ہوئی ہے؟ تو اس کا جواب جاننے کے لیے راہل گاندھی کی کیمبرج کی تقریرکی چند نکات پر نظر ڈال لینا کافی ہوگا۔ راہل گاندھی نے اپنے ایک گھنٹے کے پرزنٹیشن میں پیگاسیس، میڈیا اور دیگر جمہوری اداروں پر حکومت کا قبضہ، اپوزیشن کے خلاف تفتیشی ایجنسیوں کی کارروائی اور چین وامریکہ کے تنازعے میں ہندوستان کے ممکنہ رول پر بات کی۔ پیگاسیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ”بڑے پیمانے پر سیاسی لیڈروں کے فون میں پیگاسیس ہے، میرے فون میں بھی تھا، مجھے انٹلی جنس کے افسران نے خبردار کیا تھا۔ یہ ایک ایسا دباؤ ہے جو ہم محسوس کرتے ہیں“۔


میڈیا وجمہوری اداروں پر حکومت کے قبضے کے تعلق سے راہل گاندھی نے کہا کہ”جمہوریت کے لیے ضروری ڈھانچہ پارلیمنٹ، آزاد میڈیا اور عدلیہ ہوتے ہیں۔ آج یہ سب مجبور ہوگئے ہیں۔ جب ملک میں میڈیا وجمہوری ڈھانچے پر اس طرح حملہ ہو رہا ہو تو اپوزیشن کے طور پر آپ کے لیے لوگوں سے بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لہذا ہم ہندوستانی جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے پر حملے کا سامنا کر رہے ہیں“۔ انہوں نے کہا کہ ”اپوزیشن کے خلاف مقدمے درج کیے جاتے ہیں۔ میرے خلاف بھی کئی مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ مقدمات ایسی باتوں پر درج کئے گئے ہیں جو مجرمانہ نہیں تھے۔ اپوزیشن لیڈر کچھ معاملات پر اپنی آواز بلند کر رہے تھے کہ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ بھارت کے آئین میں بھارت کی ریاستوں کو ایک یونین کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس یونین کو بات چیت کی ضرورت ہے۔ یہ بات چیت آج خطرے میں ہے“۔

اب بھلا ان میں ایسی کون سی بات ہے جو راہل گاندھی ملک میں، بھارت جوڑو یاترا کے دوران یا پھر پارلیمنٹ میں نہ اٹھاتے رہے ہوں؟ لیکن ہنگامہ مچایا جا رہا ہے تو انگلینڈ میں ان کے ان بیانات پر۔ ہنگامہ ایسا کہ ہیمنت بسوا سرما سے لے کر انوراگ ٹھاکر تک اور گری راج سنگھ سے لے کر منوج سنہا تک سب کو اس میں بھارت کی توہین نظر آگئی۔ کمال کا ہے ان لوگوں کا بھارت کی توہین کا پیمانہ بھی کہ اگر وہی بات اگر پارلیمنٹ میں کہی جائے تو باتیں ریکارڈ پر نہیں آنے دیتے اور اگر بیرونِ ملک کہی جائیں تو بھارت کی توہین ہوجاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کانگریس کی جانب سے ان زعفرانی بریگیڈ کو جواب دیا جاتا ہے تو یہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔


سچائی یہ ہے کہ ان کے پاس راہل گاندھی کے بیانات کا کوئی جواب نہیں ہے، بس ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی ہم نوا میڈیا کے ذریعے اسے بھارت کی توہین قرار دینا اور جب اس سے بھی بات نہ بنے تو کانگریس کو چین کا ہمنوا بنا دینا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس و راہل گاندھی پر چین کی حمایت کا الزام وہ لوگ لگارہے ہیں جو 20 جوانوں کی شہادت اور ہزاروں کلومیٹر پر قبضے کے باوجود چین کا نام تک لینے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے ہیں۔ جن کے سپریم لیڈر چین اور ہندوستان کے درمیان ’آتمیتا‘ کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ زعفرانی ٹولہ یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی بیان بازیوں اور سوشل میڈیا پر کارٹونی ویڈیو بناکر شیئر کر دینے سے وہ عوام کی آنکھیں بھی بند کردیں گے، لیکن عوام اب ان کے پروپیگنڈے کو خوب سمجھنے لگے ہیں۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔