لوک سبھا انتخاب 2024: سہارنپور میں کانگریس اور بی ایس پی کے ٹکراؤ سے بھی بی جے پی کو فائدہ نہیں مل رہا

19 اپریل کو ووٹنگ کے وقت سہارنپور کے رائے دہندگان کے ویژن کا امتحان بھی ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کو ہاتھی کا چارہ بننے دیتے ہیں یا اس سے ’نیائے‘ کے ہاتھ کو مضبوط کرتے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>عمران مسعود کی انتخابی ریلی میں پرینکا گاندھی / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

عمران مسعود کی انتخابی ریلی میں پرینکا گاندھی / تصویر: آئی اے این ایس

user

اعظم شہاب

لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے میں مغربی اترپردیش کی جن 8 سیٹوں پر کل یعنی 19 اپریل کو ووٹنگ ہونی ہے، اس میں سہارنپور کی سیٹ بھی شامل ہے۔ یہ وہی سہارنپور ہے جہاں کا ’ووڈ آرٹ‘ یعنی لکڑیوں پر نقش و نگار بنانے کی کاریگری پورے ملک میں مشہور ہے۔ گنگا اور جمنا کے درمیان واقع یوپی کا یہ شہر ہندو-مسلم ثقافت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک جانب اگر عالمی سطح پر مشہور مسلمانوں کی عظیم دینی درس گاہ دارلعلوم دیوبند ہے تو دوسری جانب ہندوؤں کی قدیم شاکمبھرا دیوی سدھ پیٹھ مندر بھی ہے۔ اس حلقۂ پارلیمنٹ کی سرحدیں اگر ایک جانب ریاست اتراکھنڈ سے ملتی ہیں تو دوسری جانب ہریانہ سے بھی ملتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس شہر کا قیام 1340 کے قریب ہوا تھا اور اس کا نام یہاں کے بادشاہ سہارن پیر کے نام پر ہے۔

سہارنپور لوک سبھا سیٹ پر تقریباً 18 لاکھ ووٹرس ہیں، جن میں مسلم ووٹرس کی تعداد دیگر برادریوں و طبقات سے زیادہ ہے اور اسی لیے یہاں پر مسلم ووٹ فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر مسلم رائے دہندگان کی تعداد 6.5 لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر 3.5 لاکھ دلت، 1.5 لاکھ کشتریہ، 1.25 لاکھ سینی، 1.2 لاکھ گوجر، ایک لاکھ جاٹ، 80 ہزار برہمن اور 70 ہزار ویشیہ ہیں۔ اس بار یہاں سے کل 10 امیدوار میدان میں ہیں لیکن اصل مقابلہ بی جے پی، کانگریس اور بی ایس پی کے امیدواروں کے درمیان ہے۔ بی جے پی نے یہاں سے اپنے سابق ایم پی راگھو لکھن پال کو امیدوار بنایا ہے۔ انڈیا اتحاد کی سیٹوں کی تقسیم میں یہ سیٹ کانگریس کے حصے میں آئی ہے اور کانگریس نے یہاں سے عمران مسعود کو میدان میں اتارا ہے جبکہ بی ایس پی نے ماجد علی کو ٹکٹ دیا ہے۔


بی ایس پی کی جانب سے ماجد علی کو یہاں سے ٹکٹ دینے کے بعد اس کی قومی میڈیا میں جس طرح ’پذیرائی‘ ہوئی تھی، اس سے یہ بات صاف ہوگئی تھی کہ بی ایس پی یہاں سے مسلم امیدوار کو میدان میں اتار کر کون سا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ رہی کہ بہن جی کی اس سیاست کو سہارنپور کے لوگ بروقت سمجھ گئے اور گزشتہ کل انتخابی مہم کے آخری دن تک یہاں سے عمران مسعود کی کامیابی کا امکان ان کے مدمقابل تمام امیدواروں سے زیادہ تھا۔ بی جے پی کے امیدوار راگھو لکھن پال 2014 سے یہاں مودی جی کے اچھے دن کے شور شرابے و مارکیٹنگ کے ذریعے کامیاب ہوگئے تھے، مگر 2019 میں جب اس اچھے دن کی قلعی اترگئی تو یہ بھی بیچارے اپنی سیٹ ہار گئے۔ انہیں بی ایس پی کے حاجی فضل الرحمن نے بیس ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔

اس سیٹ پر یوں تو 10 امیدوار میدان میں ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر کو ووٹوں کا سوداگر ہی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس طرح کے امیدواروں کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ چند سو یا چند ہزار ووٹ لے کر یہ کسے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو خود جیت نہیں سکتے ہیں اور جو کامیاب ہونے والا ہوتا ہے اسے ہی زک پہنچاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ لوگ ووٹ کاٹنے کا یہ ’کارِ خیر‘ یوں ہی تو انجام نہیں دیتے ہوں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پورے انتخابی منظرنامے میں ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہاں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن میں سہ رخی مقابلے کی صورت میں بی جے پی کو ایج (جھکاؤ) ملتا ہے مگر یہ کہا جانا اس صورت میں زیادہ پختہ ہو سکتا ہے جب بی جے پی اپنے ووٹوں کو متحد رکھنے میں کامیاب رہے۔ دوسری جانب ایک روز قبل کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے جب عمران مسعود کی انتخابی ریلی میں شرکت کی تو گویا پورا شہر امنڈ آیا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی لیڈر کی ریلی میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کا نظارہ سہارنپور نے کم ہی دیکھا ہے۔


اس تناظر میں دیکھا جائے تو سہارنپور لوک سبھا سیٹ پر سہ رخی مقابلے کے باوجود بی جے پی کے ووٹ اس کے ہاتھوں سے پھسلتے جا رہے ہیں اور انہیں سمیٹنے میں اس کے پیسینے چھوٹ رہے ہیں۔ یہ باتیں صرف سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ قومی میڈیا پر بھی کہی جانے لگی ہیں کہ اس سیٹ پر کانگریس کے امیدوار عمران مسعود کو زبردست ایج مل چکا ہے کیونکہ ان کی مقبولیت مسلمانوں سے زیادہ ہندو ووٹرس میں ہے۔ یہاں سے کانگریس کے امیدوار کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندو ووٹرس بھی اس بار اعلانیہ طور پر انہیں موقع دینے کی بات کہنے لگے ہیں۔ بی بی سی ہندی نے ایک روز قبل یعنی 17 اپریل کو سہارنپور کے انتخابی سروے پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں اس نے کسی بھگوادھاری 45 سالہ سادھو کا بیان نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ’’جو نیتا عوام کے درمیان ہو اور اچھا کام کرے، اسے ووٹ دینا چاہئے۔ عمران کئی بار چناؤ ہار چکا ہے، اس کا کام ابھی کسی نے نہیں دیکھا ہے، عوام کے درمیان رہتا ہے، ایک موقع اسے بھی دے کر دیکھنا چاہئے‘‘۔ بی بی سی نے مزید کئی لوگوں کے بیانات نقل کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس میں واضح طور پر اس سیٹ سے عمران مسعود کی کامیابی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

سہارنپور لوک سبھا حلقے میں کل 5 اسمبلی حلقے ہیں۔ 2022 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ان میں سے 3 اور سماجوادی پارٹی نے 2 سیٹیں جیتی تھیں۔ بی جے پی نے سہارنپور شہر، دیوبند اور رام پور اسمبلی کی سیٹیں جیتی تھیں جبکہ سہارنپور دیہات اور بیہٹ اسمبلی سیٹیں سماجوادی پارٹی کے حصے میں آئی تھیں۔ اس بار لوک سبھا انتخابات میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان اتحاد ہے جو کہ 2019 میں نہیں تھا، اس لیے کانگریس امیدوار کی پوزیشن مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دو بلیوں کے جھگڑے میں عام طور پر چوہا نکل کر بھاگ جاتا ہے لیکن چوہے کو بھاگنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں نکل بھاگنے کی طاقت ہو اور اس کے لیے کوئی پناہ گاہ بھی ہو۔ کانگریس کے امیدوار نے ہندوؤں میں اپنی مقبولیت کے ذریعے بی جے پی کی پناہ گاہ میں نقب لگا دیا ہے۔ اب کل ووٹنگ کے وقت سہارنپور کے رائے دہندگان کے ویژن کا امتحان ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کو ہاتھی کا چارہ بننے دیتے ہیں یا اس سے ’نیائے‘ کے ہاتھ کو مضبوط کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔